جاپانی قوم اور عسکریت (3)
نیول اکیڈیمی میں
ایسوروکو1901ء میں جاپان کی نیول اکیڈیمی میں داخل ہوا جو ایٹاجیما (Etajima) میں واقع ہے۔ اس کے لئے 300امیدواروں نے درخواست دی تھی جن میں کامیاب ہونے والوں میں ایسوروکو دوسرے نمبر پر آیا۔ بحری ٹریننگ سخت بھی تھی اور دشوار بھی۔ یہ چار سال کا کورس تھا۔ شراب نوشی اور سگریٹ نوشی منع تھی حتیٰ کہ کسی کیڈٹ کو بازار کی کوئی مٹھائی کھانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ چوتھے اور آخری سال کا عرصہ بحری جہازوں پر گزارنا تھا۔ اس دوران ساحلی تنصیبات پر آنے جانے کا شاذ ہی کوئی موقع دیا جاتا تھا۔ جاپان کے چاروں طرف وسیع و عریض سمندر پھیلا ہوا ہے۔ یہ سیلابوں نہیں بلکہ سمندری طوفانوں کا دیس ہے۔ تیز اور شدید برفانی ہوائیں چلتی ہیں اور لمحوں میں ساحلوں کو الٹ پلٹ دیتی ہیں۔ گاہے گاہے زلزلے آکر سارا کاروبار زندگی معطل کر دیتے ہیں۔ غضب کی برفباری ہوتی ہے اور غضب کی بارشیں ہوتی ہیں۔ کیڈٹ ایسورو کو جو بعد میں ایڈمرل یاماموتو اور جاپانی بحریہ کا کمانڈر انچیف بنا،1904ء میں مختلف بحری جہازوں اور ساحلوں پر ٹریننگ لیتے ہوئے اور ان آفاتِ ارضی و سماوی کا مقابلہ کرتے ہوئے سوچتا ہوگا:
دامِ ہر موج میں ہے حلقہء صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
ابتدائی ملازمت
ایسورو کو 1904ء میں جب نیول اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوا تو پاس ہونے والوں کی فہرست میں وہ ساتویں نمبر پر تھا۔ فروری 1904ء میں روس۔ جاپان جنگ شروع ہو چکی تھی۔ ایسوکو نشین (Nisshin) نامی ایک کروزر پرپوسٹ کیا گیا۔ یہ کروزر ایڈمرل ٹوگو کے فلیگ شپ میکاسا کی تحفظی پارٹی کا ایک حصہ تھا۔ اس وقت ایسو کے خیال و خواب میں بھی یہ بات نہ تھی کہ 35برس بعد 1939ء میں وہ بھی ایڈمرل ٹوگو کی طرح جاپان کے کمبائنڈ بحری بیڑے کو کمانڈ کرے گا۔
تحریرِ بالا میں تین لفظ ایسے استعمال کئے گئے ہیں جن سے پاکستانی سویلین قارئین کو شاید کچھ زیادہ شناسائی نہیں ہو گی۔ میری مراد درج ذیل الفاظ سے ہے جو بالخصوص بحریہ سے متعلق ہیں:
1۔1904ء کی روس۔ جاپان جنگ
2۔کروزر
3۔فلیگ شپ
انگلش زبان کی عسکری تحاریر کا اردو ترجمہ کرنے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اردو زبان کے قارئین کو یہ اصطلاحیں نامانوس اور اجنبی نظر آتی ہیں اور اگر ان کی تشریح کی جائے تو وہ اصل متن (Text) سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً انہی سطور بالا میں درج تراکیب و اصطلاحات میں پہلی اصطلاح کا ذکر کیا جائے تو ”جاپان۔ روس جنگ 1904ء“ 20ویں صدی کی پہلی عظیم جنگ تھی جو روس اور جاپان کے درمیان لڑی گئی۔ روس ایک عظیم عسکری قوت تھی اور اس کی بحریہ بھی اسی حوالے سے عظیم تھی۔ اگر کوئی مشکل تھی تو یہ تھی کہ جاپان اور روس کے درمیان کوئی ایسی زمینی یا بحری سرحد نہ تھی کہ جس کو پار کرکے روس، جاپان پر حملہ کرتا۔ جاپان ایک بالکل نو عمر بلکہ نوخیزملٹری قوت تھی۔ روس نے از راہِ تحقیر جاپان پر حملہ کرنے کے لئے ایک عظیم بحری بیڑا جاپان روانہ کیا۔ ان ایام میں فضائی قوت دریافت نہیں ہوئی تھی اور نہر سویز بھی ابھی ابتدائی احاطہء خیال میں تھی اس لئے روس کو جنوبی افریقہ (راس امید)،بحرہند اور بحرالکاہل کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ یہ گھمسان کی لڑائی تھی جس میں روس کی بحریہ کو شکست ہوئی…… پوری دنیا کے لئے یہ جنگ ایک چشم کشا واقعہ تھا۔ قارئین اگر تفصیل جاننا چاہیں تو Russo-Japan War-1904-05کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس جنگ پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جو تمام تر انگریزی یا جاپانی زبانوں میں ہیں۔
دوسرا لفظ کروزر ہے۔ یہ بحری جنگی جہاز کی ایک قسم ہے۔یہ اقسام تباہ کن (Destroyer)، فری گیٹ (Frigate)، کارویٹ (Corvett)،آبدوز، طیارہ بردار اور برآبی (Ambhibious) جہاز کہلاتی ہیں۔ موخرالذکر برآبی ایسا جنگی بحری جہاز ہے جو سمندر اور خشکی (یعنی ”بر“ اور ”آب“) دونوں جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس کو ”برآبی“ بحری جنگی جہاز کہا جاتا ہے۔ یہ سارے جہاز ”بیٹل شپس“ (Battle Ships) کہلاتے ہیں۔
پاکستانی نیوی کے پاس ماسوائے ”طیارہ بردار“ کے باقی ساری اقسام موجود ہیں۔ ّان میں ٹرانسپورٹ شپ بھی شامل ہے جو ایک طرح کا ’ٹروپس بردار بحری جہاز‘ ہے جس کا اولین مشن ٹروپس کے لئے تیل، خوراک اور اسلحہ بارود کی ٹرانسپورٹیشن ہے۔
تیسرا لفظ ”فلیگ شپ“ ہے۔ یہ فلیگ شپ، بحری جہازوں کی مختلف اقسام کے گروپ کا گویا ایک گروپ لیڈر یا کمانڈنگ آفیسر ہوتا ہے جس کے بحری جہاز پر ایک بڑا سا قومی پرچم لہرایا جاتا ہے جو دور سے دیکھا جاسکتا ہے، یہ فلیگ شپ سب سے زیادہ مسلح، طاقتور سلاحِ جنگ کا حامل، رفتار میں تیز ترین اور حجم میں ان سب بحری جہازوں سے بڑا ہوتا ہے جو اس کے پیچھے پیچھے چلے آتے ہیں۔ مرورِ ایام سے اب یہ اصطلاح ایک سویلین اصطلاح میں ڈھل چکی ہے۔ صنعت و حرفت، ٹیکنالوجی،تعلیم، زراعت اور دوسرے محکمہ جات کے افسرانِ بالا کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔
میں نے یہ مختصر تشریح اس غرض سے کی ہے کہ اس کالم (شمشیروسناں)کے قارئین کی عسکری معلومات میں (اگر ضرورت ہو تو) اضافہ کر سکوں۔
27مئی 1905ء کو سوشیما (Tsoushima) کی مشہور بحری لڑائی میں وہ زخمی ہو گیا۔ اس کے کروزرنشین پر روسی جہازکی توپ سے ایک گولہ فائر ہوا جس سے اس کے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں کٹ کر کہیں دور جا گریں۔ اس واقعے کے بارے میں وہ لکھتا ہے: ”جب روسی جہازوں کی طرف سے گولہ باری کے نتیجے میں ”نشین“ پر میرے آس پاس اِدھر اُدھر گولے گرنے لگے، جہاز کو نقصان پہنچنے لگا اور لوگ مرنے لگے تو مجھے کچھ بھی خوف محسوس نہ ہوا۔ اس دوران شام سات بجے ایک ایسا گولہ نشین پر آکر گرا جس سے میں بے ہوش ہو گیا۔ میری دائیں ٹانگ شدید زخمی ہو گئی اور بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں کٹ کر کہیں ”گم“ ہو گئیں۔تاہم لڑائی کے خاتمے پر روسی جہازوں کو شکست ہوئی۔ روسی افسروں اور سیلروں کی لاشیں سطح سمندر پر جابجا تیرنے لگیں۔ جب رات آٹھ بجے جاپانی فتح کا اعلان ہوا تو میرے جیسے زخمیوں کے منہ سے بھی نعرۂ ہائے تحسین نکلنے لگے“۔
اس بحری لڑائی کو مورخوں نے تاریخ کی چند فیصلہ کن بحری لڑائیوں میں شمار کیا ہے۔یہ کسی بھی ایشیائی بحری قوت کی پہلی لڑائی تھی جس میں ایک یورپی بحری قوت کو شکست فاش ہوئی تھی۔ یہ لڑائی خود ایسوروکو کیلئے بھی ”تخت یا تختہ“ والی لڑائی تھی۔ اگر ایسوکی دو کی بجائے تین انگلیاں کٹ جاتیں تو بحریہ کے قانون کی رو سے اسے جاپانی نیوی سے ڈسچارج کر دیا جاتا!…… ایسو دوماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہا اور اس کے بعد رخصت پر جب اپنے گھر ناگااوکا پہنچا تو اس کا استقبال ایک جنگی ہیرو کی طرح کیا گیا۔
اس لڑائی کے بعد وہ بحریہ کے مختلف جہازوں اور سٹیشنوں پر تعینات رہا۔ 1908ء میں تارپیڈو سکول سے فارغ التحصیل ہوا اور 1911ء میں بحری توپخانے کے سکول سے ایک پروفیشنل کورس مکمل کیا۔ 1914ء سے 1916ء تک نیول سٹاف کالج میں تعلیم پائی اور دوران کورس 1915ء میں لیفٹیننٹ کمانڈر (آرمی میں میجر کے برابر) پروموٹ ہوا۔ سٹاف کالج میں اس کا شمار ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔ وہ کتابوں کے مطالعے میں ”غرق“ رہتا۔ اس کے ساتھی اسے ”کرمِ کتابی“ کہا کرتے تھے۔ وہ بحری امور کے متعلق انگریزی زبان کی کتابوں کا بڑے ذوق و شوق سے مطالعہ کیا کرتا۔ اس ابتدائی دور ہی میں اس نے پیشگوئی کر دی تھی کہ مستقبل کی جنگوں میں طیارہ بردار بحری جنگی جہاز سب سے زیادہ اہم اور موثر ہتھیار ہوں گے۔
نیول سٹاف کالج میں جانے سے ایک سال پہلے 1913ء میں اس کے والد کا 85برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ پھر کچھ ماہ بعد والدہ بھی چل بسی۔ اس دور میں (اور شاید آج بھی) جاپان میں یہ روایت عام ہے کہ جب کسی مشہور و معروف، عزت دار اور متمول خاندان میں کوئی مرد وارث نہیں رہتا تو وہ خاندان کسی غریب لیکن ہونہار خاندان کے لڑکے کو اپنا وارث نامزد کر دیتا ہے اور وہ خاندانی نام اس کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایسوروکو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ جب 29برس کا ہوا تو یاماموتو قبیلے کے ایک خاندان نے اسے وارث بنانے کا اعلان کر دیا…… اب وہ ایسوروکو سے یاماموتو بن چکا تھا۔ نئے نام کو اختیار کرنے کی یہ رسم 19مئی 1915ء کو ناگااوکا میں منائی گئی۔ 1918ء میں اس کی شادی ہو گئی۔ (جاری ہے)