اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ کمپیوٹر کا رسیا ہے،اسکے کان بہت تیز ہیں سیٹی کی آواز پر گولی کی طرح بھاگا چلا آتا ہے اور اپنے مخصوص انداز میں ”ہاں جی“ کہتا ہے 

اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ کمپیوٹر کا رسیا ہے،اسکے کان بہت تیز ہیں سیٹی کی آواز ...
اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ کمپیوٹر کا رسیا ہے،اسکے کان بہت تیز ہیں سیٹی کی آواز پر گولی کی طرح بھاگا چلا آتا ہے اور اپنے مخصوص انداز میں ”ہاں جی“ کہتا ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:359
 رمضان کا چھوٹا بیٹا عبداللہ ہے جس کو ہم سب پیار سے بابا بُلھا کہتے ہیں، جو ماں باپ کے ساتھ ساتھ ہم سب کا بھی لاڈلا ہے اور گھر کی رونق بھی۔ باپ کو اپنے غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کا بہت شدت سے احساس ہے اس لیے وہ عبادت سمجھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہا ہے۔ دونوں بیٹیاں ہائی سکول میں ہیں اور عبداللہ کو اس نے ایک اچھے انگلش میڈیم سکول میں داخل کروایا ہے جہاں وہ انتہائی محنت اور ذہانت سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ کمپیوٹر کا رسیا ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کر وہ تقریباً سارے ہی بنیادی پروگرام بڑے اعتماد سے استعمال کرتا ہے۔ اس کو میں ہمیشہ سیٹی مار کر بلاتا ہوں۔ اس کے خرگوش کی طرح کھڑے ہوئے کان اتنے تیز ہیں کہ پیچھے اپنے کوارٹر میں بھی جب اس کو سیٹی کی آواز آتی ہے تو وہ گولی کی طرح بھاگا چلا آتا ہے۔ بعض اوقات غلطی سے بھی مجھ سے سیٹی بج جاتی ہے جسے میں ”مس کال“ کہتا ہوں۔ مجھے تو یاد بھی نہیں ہوتا اور وہ پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے مخصوص انداز میں ”ہاں جی“ کہتا ہے۔بچپن میں اس کی ماں اس کے سر کو مخروطی بنانے کے چکر میں اس کے سر کے دونوں طرف تکیے رکھ دیتی تھی اور پھر اکثر انھیں نکالنا بھول جاتی تھی، جس سے اس کا سر تو مخروطی ہو گیا مگر کانوں نے بغاوت کر دی۔ اس کے بڑے بڑے کان اگ آئے تھے جو سکوٹر کی سٹپنی کی طرح دور سے ہی نظر آجاتے ہیں۔ ہم اسے چھیڑنے کے لیے جب اسے ”کھڑکنّا“ کہتے ہیں تو وہ جلدی سے اپنے کان اندر کی طرف دبا کر سر کے ساتھ جوڑ لیتا ہے اور کہتا ہے ”اب تومیں ”بیٹھا کنّا“ہو گیا ہوں نا۔“
بہت ہی پیارا اور فرمانبردار بچہ ہے، آج تک اس نے کبھی گھر میں کوئی نقصان نہیں کیا، حالانکہ گھر میں بڑی تعداد میں نازک اور سجاوٹی اشیاء موجود ہیں۔عبداللہ ہمیشہ مجھے ”شدّل“ کہتا ہے جو ”سعید انکل“ کا مخفف ہے کیونکہ اسے بچپن میں یہ سب کچھ کہنا نہیں آتا تھا اور اب جبکہ اسے یہ کہنا آگیا ہے تو میں نہیں کہنے دیتا۔ مجھے تو اس کے منہ سے شدّل ہی اچھا لگتا ہے۔ جب مجھے کینسر کی غلط تشخیص کی وجہ سے صاحب فراش ہونا پڑا تو میں نے اس کو سخت پریشان دیکھا۔ ایک دن میں نے سنا کہ وہ بہت ہی افسرد ہ لہجے میں اپنی بہنوں کو بتا رہا تھا کہ ”ابو کہہ رہے تھے کہ شدّل کو کوئی بیماری لگ گئی ہے۔“
دوسری طرف وہ فرزانہ کے بہت زیادہ قریب ہے۔ اس کا بیشتر وقت اس کے ساتھ ہی گزرتا ہے، اپنی ماں اور باپ کی طرح اپنی باریک سی آواز میں وہ اسے ”باجی“ ہی کہتا ہے۔ وہ بھی اس کا بہت خیال رکھتی ہے،کہیں بھی جائے وہ سب سے پہلے کود کر گاڑی میں بیٹھتا ہے، ہو سکتا ہے اس طرح ہم لا شعوری طور پر اپنی زندگی میں رہ جانے والی ایک بڑی کمی کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہوں۔
ان سب کو ہم گھر کے افراد ہی کی طرح سمجھتے ہیں،اس بات پر مجھے فخر ہے کہ اپنے والدین کی چھوڑی گئی روایت کے مطابق ہم سب کا کھانا بھی اکٹھا ہی بنتا ہے، اور اکثر ہم اکٹھے بیٹھ کر ہی کھا لیتے ہیں۔ ان کی ہر خوشی اور غم میں ہم برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سب بھی ہم سے بڑی محبت کرتے ہیں، عزت سے پیش آتے ہیں اور ہمارے گھر کو اپنا ہی گھر سمجھ کر اس کا خیال رکھتے ہیں۔ چھوٹا عبداللہ بھی جب کوئی فضول بتی یا پنکھا چلتا دیکھتا ہے تو شور مچا دیتا ہے اور اپنی توتلی آواز میں بہنوں کو یہ کہہ کر ڈانٹ دیتا ہے کہ ”جلدی بند کرو پتہ نہیں بل آتا ہے۔“
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -