مرشد سائیں کا احساس محرومی
مرشد سائیں سید یوسف رضا گیلانی، المعروف سابق وزیراعظم پاکستان نے فرمایا ہے کہ محمد نوازشریف کی طرح مَیں بھی ملک میں سابق وزیراعظم ہوں، اِس لئے جس طرح محمد نوازشریف کو اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کے حوالے نہیں کیا جارہا، اِسی طرح مجھے بھی ایف ائی اے کی دستبرد سے محفوظ رکھا جائے، وگرنہ مَیں احساسِ محرومی کا شکار ہو جاﺅں گا۔یہ ارشاد فرماتے ہوئے مرشد سائیں کا رُوئے سخن کس کی طرف تھا، اِس بارے میں کچھ کہنا چنداں ضروری نہیں۔ایف آئی اے کے مالک و مختار رحمن ملک ہیں اور رحمن ملک کی ڈور براہ راست صدر مملکت کے ہاتھوں میں ہے۔ اُمید ہے کہ مرشد سائیں جسے یہ بات پہنچانا چاہتے ہوں گے، اُسے پہنچ گئی ہوگی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے یہ بات ملتان میں کہی،جہاں وہ سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر کے جنازے میں شرکت کے لئے وزیراعظم کے خصوصی طیارے میں پہنچے تھے۔اب اگر کوئی یہ سوچ کر ورطہ ءحیرت میں ڈوبتا ہے کہ حکومت کی تمام مراعات و شخصیات تک رسائی رکھنے والے مرشد سائیں کو آخر ایف آئی اے کس کے ایماءپر تنگ کررہی ہے تو یہ اُس کا قصور ہے، وگرنہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب سید یوسف رضا گیلانی خود وزارتِ عظمیٰ پر متمکن تھے، تب بھی اُنہیں یہی شکوہ تھا کہ اینٹی نارکوٹکس والے اُن کے بیٹے موسیٰ گیلانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے اُس دور میں بھی ایف آئی اے کی بے لگامی کے خوف سے ڈی جی پر ڈی جی تبدیل کئے،تاکہ یہ منہ زور گھوڑا اُن کے قابو میں رہے۔اگرچہ اُس وقت اُن کے لہجے میں حکمرانی کا تڑکا لگا ہوتا تھا، لیکن اب ملتجیانہ، بلکہ درویشانہ انداز ہے۔دیکھتے ہیں کہ اُن کی معروضات پر غورہوتا ہے یا نہیں؟
مرشد سائیں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شدید احساس محرومی کا شکار ہے۔خود سید بادشاہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں سرائیکی صوبہ بنانے کی نوید اِس خیال سے سناتے رہے کہ جنوبی پنجاب کے کروڑوں عوام کا احساسِ محرومی ختم کرنے کے لئے علیحدہ صوبے کا قیام ضروری ہے۔کہتے تو وہ سچ تھے،اُن کی جماعت میں اِس کی تائید کرنے والے بہت کم تھے۔آج یہ حال ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات خود پیپلزپارٹی نے گول کردی ہے،حتیٰ کہ مرشد سائیں بھی اِس خطے کے کروڑوں عوام کی محرومیوں کو بھول کر صرف اپنے احساسِ محرومی کا ذکر کررہے ہیں۔وہ یہ تو کہہ رہے ہیں کہ اصغر خان کیس میں نوازشریف کا نام آنے کے باوجود اُن پر ایف آئی اے ہاتھ نہیں ڈال رہی، جبکہ میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، یوں گویا وہ امتیازی سلوک کا شکارہیں، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں وزرائے اعظم کے ساتھ اور کیا کیا ہوتا رہا ہے؟....ایک وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا گیا،یہی نوازشریف ملک بدر ہوئے،اُن کی اپنی لیڈرمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے جلاوطنی پر مجبور ہوئیں.... بہت کچھ ہوا، پہلے سندھ کے وزرائے اعظم کے ساتھ انتقامی سیاست کا شور مچتا تھا،آج مرشدسائیں جنوبی پنجاب کے سابق وزیراعظم کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا واویلا کررہے ہیں۔
ماضی و حال کے واقعات میں صرف یہی ایک فرق نہیں، بلکہ اصل فرق یہ ہے کہ بھٹو، نوازشریف یا بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ حکومتوں کی تبدیلی کے بعد ہوا، جبکہ مرشد سائیں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔اگرچہ اب وہ وزیراعظم نہیں،لیکن اُس پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین اب بھی ہیں،جو برسراقتدار ہے۔اُن کا احساس محرومی بہت منفرد قسم کا ہے۔اُن کے اِس احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے چند ہفتے پہلے صدر آصف علی زرداری اُن کے گھر ملتان پہنچے تھے۔خیال یہی تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی تسلی و تشفی ہوگئی ہوگی، مگر بُرا ہو ایف آئی اے والوں کا کہ اُنہوں نے صدر کی آمد کے عین اگلے روز مرشد سائیں کو پھر طلبی کا پروانہ بھیج دیا.... مرشد سائیں بھی بہت ”سادہ“ ہیں۔سادہ نہ ہوتے تو ایسی کرپشن نہ کرتے کہ جس کی نشانیاں قدم قدم پر اُن کا پیچھا کررہی ہیں۔آج وہ بڑے بھول پن سے یہ کہتے ہیں کہ اُن کی طرف سے جاری ہونے والے احکامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اِس آئین میں حکمرانوں پر گرفت کی شقیں بھی موجود ہیں۔
وہ اصغر خان کیس کے حوالے سے اپنا موازنہ جب محمد نوازشریف سے کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔کرپٹ اور نااہل لوگوں کی تقرری، جس سے قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا، اُن کا سوچا سمجھا اور انفرادی فعل تھا۔یہ کہہ دینا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سمری آئی تھی،جس پر وہ دستخط کردیتے تھے، زیب داستان کے لئے تو اچھی کہانی ہے، مگر یہ بات بذات خوداُن کی نااہلیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔اِس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ وزیراعظم ہاﺅس میں مٹی کا مادھو بن کر بیٹھے ہوئے تھے جو روبوٹ کی طرح بٹن دبانے پر کام شروع کردیتا تھا۔ مرشد سائیں کے ساتھ ماجرا یہ ہے کہ اندر سے وہ بالکل معصوم ہیں۔اُن کے اردگرد منڈلانے والے حواری اور مصاجین اُنہیں صرف ”پُرکشش سکیموں“ کی راہ دکھاتے رہے اور اُنہیں اِس بات کا احساس تک نہ ہو سکا کہ قالین آہستہ آہستہ اُن کے نیچے سے کھسک رہا ہے ۔ اُنہیں تو اِس بات کی بھی خبر نہ ہوئی کہ اُن کے پیرو مرشد کیا ہاتھ کرنے والے ہیں؟کبھی کبھی تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ سیدبادشاہ بھی اُن خودکش حملہ آوروں کی طرح معصوم اور لائی لگ ہیں، جنہیں جنت کی بشارت دے کر دھماکہ کرنے پر آمادہ کرلیا جاتا ہے۔
آج خط لکھنے کا معاملہ قومی منظر سے ایسے غائب ہوگیا ہے، جیسے پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔یہ مسئلہ اس قدر سادہ اور آسان تھا، مرشد سائیں کو آج بھی اِس کا یقین نہیں آتا ہوگا، مگر یہ ہوگیا۔وہ چاہتے تو ایک اچھی حکمت عملی اختیار کرکے سانپ کو مارتے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے دیتے، وہ یہ تو نہ کرسکے، لیکن اب چاہتے ہیں کہ اُن کی طرف کوئی نہ دیکھے، بھلا ایسا کیونکر ممکن ہے؟جنہوں نے اُنہیں اِس حال تک پہنچایا ہے، اُنہوں نے آگے کی منصوبہ بندی بھی تو کررکھی ہوگی۔پارٹی چلانے اور اِس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے یہ باور کرانابھی تو ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے سوا اِس میں کوئی دوسرا ناگزیر نہیں۔کبھی کبھی دوسروں کی اصلاح کے لئے کسی اپنے ہی کو مقامِ عبرت بھی بنانا پڑتا ہے، مگر یہ باتیں مرشد سائیں جیسے لوگوں کو کہاں سمجھ آئیں گی....یہی وہ صورت حال ہے، جسے دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ مرشد سائیں کو میکاولی کی مشہور کتاب”پرنس“ پڑھنے کا مشورہ دیا جائے۔ویسے تو سید یوسف رضا گیلانی کی تاریخ یہ ہے کہ جیل جا کر کتاب لکھتے ہیں، لیکن اب اُنہیں ایسا کوئی مرحلہ آنے سے پہلے ”پرنس“ کو پڑھ لینا چاہیے، تاکہ اُنہیں سمجھ آئے کہ اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے اور ہو کیا سکتا ہے؟
اُنہیں میکاولی کی اِس بات کو بغور پڑھنا چاہیے کہ ایک حکمران کو بیک وقت اپنے اندر شیر اور لومڑی کی خصوصیات پیدا کرنی چاہئیں، کیونکہ شیر خود کو پھندے اور شکاری کی بندوق سے بچانے کا گُر نہیں جانتا، جبکہ لومڑی خود کو بھیڑیوں سے بچا لیتی ہے۔جو حکمران خود کو صرف شیر سمجھنے لگتے ہیں، وہ زیادہ دیر حکمرانی نہیں کرسکتے،لومڑی کی چالاکی بھی حکمران کے لئے ضروری ہے۔ مرشد سائیں سے غلطی یہی ہوئی کہ وہ خود کو شیر سمجھ بیٹھے تھے۔اُنہوں نے شیر کی طرح عدلیہ پر دھاڑنا شروع کردیا تھا۔اُن میں اگر لومڑی جیسی تھوڑی سی بھی چالاکی ہوتی تو اُنہیں بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ جو لوگ انہیں ”شیر بن،شیر بن“کہہ کر آگے دھکیل رہے ہیں، وہ درحقیقت پیچھے سے وار کریں گے،ایسا وار جو کئی دنوں تک تو اُن کی سمجھ میں ہی نہیں آئے گا۔سید یوسف رضا گیلانی نجانے کس احساس محرومی کی بات کررہے ہیں؟اُن کے دو بیٹے ایم این ایز ہیں اور بھائی ایم پی اے ہے۔مال و دولت کی اب کئی نسلوں تک کوئی کمی نہیںرہی، محرومی کے احساس کا اندازہ لگانا ہے تو وہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں لوگوں سے پوچھیں کہ کس حال میں زندہ ہیں۔
ایک محروم خطے سے وزیراعظم کا تاج سنبھالنے والے سید یوسف رضا گیلانی نے اگر اپنی محرومیوں کی بجائے اُن لوگوں کی محرومیوں پر توجہ دی ہوتی تو شاید لومڑی کا شکار ہونے کے باوجود وہ اِس طرح تنہائی کا شکار نہ ہوتے۔ حکمران جماعت کا حصہ ہونے کے باوجود اگر وہ حکومتی ادارے کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیںتو یہ بات اُن کے لئے مزید ہزیمت کا باعث بن رہی ہے۔ایک ایسے دور میں کہ جب سپریم کورٹ بار بار یہ احساس دلا رہی ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، وہ خود کو قانون سے ماورا کیوں قرار دے رہے ہیں؟ایف آئی اے ہو یا نیب ،اُنہیں اُن کی تفتیش کا سامنا کرنا چاہیے۔ دامن صاف ہے تو اُن پر کوئی آنچ نہیں آئے گی اور اگر آلودہ ہے تو اس قسم کی کمزور تاویلیں ان کے لئے جگ ہنسائی کا سبب تو بن سکتی ہیں، اُنہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں....پرویز مشرف کے بعد مرشد سائیں دوسرے سابق حکمران ہیں ، جن کے فیصلے اُن کا پیچھا کررہے ہیں۔گویا حاکم چاہے آمر ہو یا منتخب، وہ خود کو جب ماورائے قانون سمجھنے لگتا ہے تو پھر اُس سے وہ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، جو گلے کا طوق بن جاتی ہیں، لیکن یہ حقیقت حکمرانوں کو ہمیشہ وقت گزرجانے کے بعد سمجھ آتی ہے۔ ٭