حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی یاد اور ذکر علامہ ابوالحسنات کا!
جمعیت علماء پاکستان اور اس کے اکابرین سے ہمارا ایک خاص اور دیرینہ تعلق ہے کہ اس جماعت کے بانی حصرات علامہ ابوالحسنات قادری کے زیر سایہ بلکہ ان کے آنگن میں کھیل کودکر بڑے ہوئے اور آج بھی ان کی شفقت اور دعا کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں، اسی تعلق کی وجہ سے بعد والے بزرگوں اور علماء کرام سے بھی احترام کا رشتہ رہا ان میں محترم جناب مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار خان نیازی جیسی ہستیاں بھی شامل ہیں، چنانچہ جب بھی قاری زوار بہادر، پیر اعجاز ہاشمی یا دوسرے حصرات سے ملاقات ہو تو یہی گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اکابرین کو یاد کرتے ہیں تو جمعیت کے بانی صدر علامہ ابوالحسنات کو کیوں فراموش کرتے ہیں۔ دو روز قبل جب قاری زوار بہادر ہمارے دفتر فورم کے لئے تشریف لائے تو ملنے چلے آئے۔ بتانے لگے کہ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کو گیارہ سال ہو گئے ہیں۔ہم اس مرتبہ ان کی یاد میں عشرہ نورانی منا رہے ہیں۔پورے ملک میں محافل اور سیمینار ہوں گے ۔11دسمبر کو لاہورپریس کلب میں بڑی تقریب منعقد کی جائے گی۔ ہم نے ان کے اس جذبے کی تعریف کی کہ وہ ایک بڑی شخصیت کو یاد کررہے ہیں اور پھر سوال وہی تھا کہ وہ اپنی جماعت کے بانی صدر کو کیوں یاد نہیں کرتے۔جواب ملا، یہاں آنے سے پہلے سید انور قدوائی سے ملے تو وہ بھی علامہ ابوالحسنات کا ذکر کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت ابوالحسنات درویش تھے۔ تانگے پر بیٹھ کرچلے آتے تھے۔ کبھی کار کامطالبہ یا خواہش کا اظہار نہیں کیا اور آج کا دور ہے کہ حضرات بزرگان دین کو لینڈ کروزر سے کم کوئی سواری پسند نہیں آتی۔ ہم نے عرض کی علامہ ابوالحسنات کے لئے کوئی کمی نہیں تھی۔ عقیدت مند رئیس اور مالدار لوگ بھی تھے آنکھیں بچھاتے تھے، لیکن وہ درویش صفت بزرگ کوئی خواہش ہی نہیں رکھتے اور وراثت میں انہوں نے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کی صورت میں جو صاحبزادہ چھوڑا وہ بھی کسی کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر چلے آتے تھے جب تک محترم خلیل قادری تھے تو ہر سال اپنے والد علامہ ابواؒ لحسنات کے یوم وفات پر ان کے عرس کی سہ روزہ تقریبات کا اہتمام کرتے تھے اور پھر لنگر بھی تقسیم کرتے اور ہمیں یہ تحفہ اور تبرک خود پہنچاتے کسی نہ کسی نوجوان کے ساتھ موٹرسائیکل پر گھر آ جاتے تھے، محترم قاری زوار بہادر نے تسلیم کیا اور ایک بار پھر وعدہ کر گئے کہ بانی صدر کو بھی یاد کیا جائے گا۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی یاد میں یہ تقریب گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں ہوئی۔ ہم اپنی دفتری مجبوری کے باعث خود تو حاضر نہ ہو سکے تاہم اتنا ضرور علم ہو گیا کہ بڑی بھرپور تقریب تھی جس میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اکابرین نے شرکت کی اور حصرت شاہ احمد نورانی کو خراج عقیدت پیش کیا جن کو 1973ء کے دستور کی تدوین میں حصہ دار ہونے کا شرف حاصل تھا اور جنہوں نے قادیانیت والی ترمیم کے لئے بھی سرتوڑ کوشش کی، یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضرت علامہ ابوالحسنات کا ذکر کتنا اور کیسے ہوا۔ بہرحال مولانا شاہ احمد نورانی کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
جمعیت علماء پاکستان کے یہ اکابرین حضرت موالانا شاہ احمد نورانی کو تحریک نفاذ نظام مصطفےٰ کے حوالے سے بہت یاد کرتے اور اس حوالے سے بھی ان کی خدمات کو بہت ہی سرایا گیا۔ اکابرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا شاہ احمد نورانی تمام مکاتب فکر کے حضرات کو قابل قبول تھے اور سبھی ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا شاہ احمد نورانی کا کردار واقعی بہت مضبوط تھا اور وہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے لیکن ریکارڈ کی درستگی کے لئے گزارش ہے کہ تحریک نظام مصطفےٰؐ کے روح رواں بلاشبہ مولانا شاہ احمد نورانی تھے لیکن اسے تحریک انہوں نے نہیں ان کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ (مرحوم) نے قرار دیا تھا، پاکستان قومی اتحاد کے قیام کا اعلان بھی رفیق احمد باجوہ کی رہائش گاہ شادباغ میں ہوا، اور پی این اے نے 1977ء کے عام انتخابات کو شفاف نہ مانتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگایا اور اسی کے حوالے سے تحریک شروع کی اور جلسے ہونے لگے۔ رفیق احمد باجوہ نے جمعیت علماء پاکستان سے ناتا جوڑا اور مولانا شاہ احمد نورانی نے ان کو سیکرٹری جنرل بنایا وہ ایک اچھے مقرر تھے، بیرون دہلی دروازہ میلاد چوک میں جلسہ عام تھا، اس میں رفیق احمد باجوہ نے اس تحریک کو نفاذ نظام مصطفےٰ ؐ کا نام دیا اور پھر پی این اے کا ایک ہی مطالبہ سامنے رہا، اس کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی اس پر مضبوطی سے جم گئے اور اب تک جمعیت نظام مصطفےٰؐ کے قیام کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی بھی اپنے بانی صدر کی طرح سادگی پسند تھے، اگرچہ اس دور کے تقاضوں کی وجہ سے ان کا سفر تو جہاز اور کار میں ہوتا تھا مگر یہ اہتمام و انتظام ان کی جماعت کے اکابرین کرتے تھے۔وہ تو خود سخت اصول پسند تھے۔ لاہور آتے تو اسلام پورہ کے دفتر میں رہنا پسند کرتے اور پھر ہم نے خود دیکھا کہ اپر مال میں جمعیت کا دفتر تھا تو وہاں قیام کرتے سوتے وقت ان کا تکیہ اینٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ دائیں طرف کروٹ لے کر دائیں ہاتھ کی مٹھی کو سر کے نیچے رکھ کر سوتے تھے کہ وہ یوں سنت نبویؐ کی پیروی کرتے، مولانا شاہ احمد نورانی کی اصول پرستی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ مسلم لیگ ہاؤس میں قومی اتحاد کی میٹنگ جاری تھی کہ جماعت اسلامی کی طرف سے جمعیت طلباء کی مصدقہ اطلاع کے مطابق بتایا گیا کہ رفیق احمد باجوہ نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بالا بالا ملاقات کر لی ہے، جب حضرت کو یقین دلا دیا گیا تو انہوں نے فوراً ان (باجوہ ) کو سیکرٹری جنرل شپ اور جمعیت سے فارغ کر دیا، اس طرح قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ بھی جمعیت سے چلایا گیا۔ رفیق احمد باجوہ کی جگہ پروفیسر غفور (مرحوم) سیکرٹری جنرل بنا دیئے گئے۔
مولانا شاہ احمد نورانی بھی حافظ قرآن تھے۔ دھیمے لہجے میں بولتے اور بڑے ہی خوبصورت انداز میں قرآئت کرتے تھے، وہ ہر سال رمضان المبارک میں کراچی کی میمن مسجد میں نماز تراویح پڑھاتے اور اس کے لئے باقی تمام پروگرام منسوخ کر دیا کرتے تھے، علامہ ابوالحسنات بھی حافظ تھے اور بڑے میٹھے لہجے میں قرآن سناتے، دونوں میں حد درجہ مماثلت ہے۔ پان کھانے کی عادت تھی کہ پاندان ساتھ رکھتے۔ دل کا بائی پاس آپریشن ہوا تو کچھ عرصہ پرہیز اور گریز سے گزارا لیکن پھر پان کھانے لگے تھے، وہ محفل میں بے تکلفی اختیار کرتے اور شفقت فرماتے تھے، ہم کئی بار ان کی شفقت سے فائدہ اٹھاتے اور سخت سوال بھی کر گزرتے تھے۔
اکابرین جمعیت نے مولانا شاہ احمد نورانی کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت ان کی ثابت قدمی، ان کی اصول پرستی اور ان کے واجب الااحترام ہونے کا بھی ذکر کیا کہ تمام مکاتب فکر کے حضرات ان کو عزت دیتے اور احترام کرتے تھے۔ پھر ان کے بارے میں دستور 1973ء اور دستور میں قادیانیت کو غیر مسلم قرار دلانے کی ترمیم کے لئے کوشش کا بھی ذکر کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت کو یہ بھی اکابر ہی سے ودیعت ہوئی۔ حضرت علامہ ابوالحسنات نے بھی قادیانیت کے خلاف تحریک کی قیادت کی کل پاکستان مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں آیا تو تمام مکاتب فکر کے حضرات نے متفقہ طور پر حضرت علامہ ابوالحسنات کو صدر بنایا وہ اپنی وفات تک صدر رہے، جبکہ اصول پرستی میں جیل گئے اور جب وہاں اطلاع ملی کہ ان کے اکلوتے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا ہے تو ان کے قدم نہیں ڈگمگائے اور انہوں نی سجدہ شکر ادا کیا، اس تحریک میں حضرت مولانا مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تو قارئین! بات یہاں ختم کرتے ہیں کہ حضرت شاہ احمد نورانی درویش صفت، ثابت قدم، سادہ اور اصول پرست قائد تھے جو اکابرین کی پیروی کرتے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔
