بر نیڈر ون (کیلی فورنیا) میں دہشت گردی کا واقعہ

بر نیڈر ون (کیلی فورنیا) میں دہشت گردی کا واقعہ
بر نیڈر ون (کیلی فورنیا) میں دہشت گردی کا واقعہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ اور یورپ میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ان ملکوں میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کے لئے یہ خدشہ لے کر آتا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کا تعلق کہیں پاکستان سے نہ نکل آئے اور اکثر اوقات ان تارکین وطن کا خدشہ درست ثابت ہو جاتا ہے اور واقعہ کا تعلق کہیں نہ کہیں سے پا کستان کے ساتھ جڑ ہی جاتا ہے۔اگر پاکستان سے عالمی دہشت گرد پکڑے جائیں تو یہ امر دُنیا بھر میں آباد پاکستانیوں کے لئے شرمندگی کا باعث تو بنتا ہی ہے، مگر جب دہشت گردی کے کسی واقعہ کا پاکستان کے ساتھ جزوی اور دور کا تعلق ہو تو مغربی میڈیا میں اس تعلق کو بھی مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ وابستہ کر کے دکھا یا جاتا ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر برنیڈرون میں تاشفین ملک اور اس کے خاوند رضوان فاروق نے فائرنگ کر کے 14 لوگوں کو ہلاک کیا تو امریکی میڈیا کے ایک حصے نے اس واقعہ کو کلی طور پر پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش شروع کر دی۔تاشفین ملک کو دہشت گردی کے اس واقعہ کا بڑا ذمہ دار قرار دیتے ہو ئے یہ موقف بھی اختیار کیا جا رہا ہے کہ تاشفین ملک کے اندر انتہا پسندانہ رجحانات پاکستان میں رہائش پذیر ہو نے کے دوران پیدا ہوئے۔


برنیڈرون میں دہشت گردی کے اس واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو کئی سوالات اُبھرتے ہیں۔ جیسے ایسا کیا ہوا کہ اسٹیٹ یونیورسٹی کیلی فورنیا سے ڈگری لینے والا رضوان فاروق جن لوگوں کے ساتھ پانچ سال سے بحیثیت ہیلتھ انجینئر کام کر رہا تھا اسے ان لوگوں کی جان لینا پڑی؟ تاشفین اور رضوان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا؟ کیا اس کارروائی کے لئے دونوں کئی ماہ سے منصوبے بنا رہے تھے؟ یا یہ واقعہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ تھا؟ اور اگر اِس واقعہ کو سرانجام دینے کے لئے وہ منصوبہ بندی بنا رہے تھے تو کیا منصوبہ اپنی تکمیل تک پہنچ پایا؟ افسوس ہم ان تمام سوالوں کا جواب حاصل کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ رضوان اور تاشفین دونوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِس لئے آخری اور بنیادی سوال تو یہی ہے کہ کیا کبھی ان سوالات کے جواب سامنے آئیں گے یا نہیں؟یا ہمیں ایف بی آئی کی تفتیش اور سازشی مفروضات کا ہی سہارا لینا پڑے گا؟


برنیڈرون واقعہ کا جائزہ لیتے ہوئے اس حقیقت کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہو گا کہ امریکہ میں فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہر گز کوئی نیا مظہر نہیں ۔ ’’دی نیو یارک ٹائمز‘‘ کی ایک ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق امریکہ میں9/11کے بعد چھوٹے بڑے حملوں میں 45افراد اسلامی بنیاد پرستوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جبکہ اِسی عرصے کے دوران 48افراد کو سفید فام نسل پرست جنونیوں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ گنوانے پڑے۔ اِسی طرح200,000افراد مجرمانہ سرگرمیوں میں ہلاک ہوئے، جبکہ امریکی پولیس ہر سال 1,000افراد کو تشدد یا پولیس مقابلوں میں ہلاک کرتی ہے۔اسی سال، یعنی 2015ء میں اب تک امریکہ میں فائرنگ کے 353 واقعات ہوئے،جن سے 461افراد ہلاک اور 1,309 افراد زخمی ہوئے۔2012ء میں تو نیو ٹاؤن کے Sandy Hook Elementary School میں ایڈم لینزا نامی ایک نوجوان نے فائرنگ کر کے 20بچوں اور 6 ٹیچرز کی جان لی۔


امریکی صدر با رک اوباما نے برنیڈرون واقعہ کے بعد اپنے خطاب میں اس حقیقت کا اظہا ر کیا کہ امریکہ میں اوسطاً ایک سال میں روزانہ ایک انسان فائرنگ کے واقعہ میں ہلاک ہوتا ہے۔ان حقائق کی بنا پر کیا برنیڈرون واقعہ کو کسی ایک ملک یا مذہب کے ساتھ نتھی کر کے دیکھنا جا ئز ہے؟اور کیا اس واقعہ کو مجرد یا جدا گانہ انداز سے دیکھا جا سکتا ہے؟


برنیڈرون واقعہ کو بنیا دبنا کر ری پبلکن پا رٹی کے صدراتی امیدوار بننے کے لئے کو شاں ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخل ہونے(کسی بھی حیثیت میں) پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ، جس سے امریکہ میں ایک طرح کا سیاسی طوفان کھڑا ہو گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویہ کو امریکی رجعتی طبقات سے تو پذیرائی مل رہی ہے، مگر حقیقت میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے بیانات سے خود امریکی حکمران طبقات بھی پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ ایسے بیانات سے دُنیا بھر کے سامنے امریکہ کا ’’جمہو ری‘‘ اور’’ انسانی حقوق کے علمبرار ‘‘والا چہرہ بھی داغدار ہو رہا ہے۔وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جاش ارنسٹ نے ایک بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز سے وہ صدارتی امیدوار کے لئے سرے سے نا اہل بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا کی جانب سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے بیانات کی شدید مذمت سامنے آ رہی ہے۔ تاہم جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کو سرا سر مسلمانوں کے ساتھ نتھی کر کے حقائق سے انحراف کیا۔ اِسی طرح مسلم دُنیا کے میڈیا نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو صرف مسلم دشمنی سے تعبیر کر کے غلطی کا ہی ارتکاب کیا۔ اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا طائرانہ جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ شخص صرف مسلم دشمن ہی نہیں، بلکہ نسل پرستانہ جذبات بھی رکھتا ہے۔اس سال جون میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہو ئے میکسیکو کے لوگوں کے بارے میں ناگفتنی باتیں بھی کی تھیں۔ اِسی ماہ ’’فا کس نیوز ‘‘کو ایک انٹرویو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’’مشرق وسطیٰ سمیت دُنیا بھر میں امریکی مخالفین اور امریکی عزائم کو تقصان پہنچانے والوں کے خلاف کا رروائی کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانوں کو بھی سبق سکھانا پڑے گا‘‘۔ اِسی طرح جارجیا میں خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی جرائم کے لئے سیا ہ فام افراد کو ذمہ دار قرار دے ڈالا اور دعویٰ کیا کہ 83فیصد سفید فام لوگوں کی ہلاکتوں میں سیاہ فام افردار کا ہاتھ ہوتا ہے۔اس بیان پر امریکہ میں سیاہ فام افراد کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیم Black Lives Matterکی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا ۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے Black lives matter پر بھی سفید فام افراد کو زدو کوب کر نے کا الزام عائد کر دیا، جس پر جارجیا میں سیاہ فام افراد پر حملے بھی ہوئے اور جب ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے سلسلے میں امریکی ریاست الا باما پہنچا تو جلسے میں موجود ایک سیاہ فام نے ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ اسےBlack Lives Matter کے لوگوں پر حملے کے لئے اکسانے پر معافی مانگنی چاہئے۔ یہ سنتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سیاہ فام شخص کو جلسے سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ ’’فاکس نیوز‘‘ نے اس واقعہ کی بھرپور کوریج کی اور جب ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس پر معافی مانگیں گے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ وہ ہر گز معافی نہیں مانگیں گے۔
ان واقعات سے ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرستانہ رویہ کی عکاسی ہوتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ صرف مسلم دشمن ہی نہیں، بلکہ سیاہ فام، ریڈ انڈینز، اور دیگر ایسی اقوام کا بھی دشمن ہے کہ جو سفید فا م نہیں۔یہ بات ایک حد تک خوش آئند ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کی امریکی حکمران طبقات اور میڈیا کی جانب سے بھی بھرپور مذمت کی گئی۔تاہم امریکی حکمران طبقات اور میڈیا کو دُنیا بھر کی طرح امریکہ میں بھی دہشت گردی کے محرکات کا جائزہ لیتے ہو ئے ان حقائق کو مد نظر رکھنا چاہے کہ مشرق وسطیٰ میں 2003ء سے لے کر اب تک امریکی جنگیں، ابو غریب اور گوانتانامو کے مظالم، فلوجہ (عراق) کی بربادی،سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں انتہائی پُرتشدد کارروائیاں بھی دُنیا بھر میں دہشت گردی کے فروغ کا باعث بنیں۔

مزید :

کالم -