تجاوزات:ٹریفک میں رکاوٹ کا سب سے بڑاسبب
ہم نے گزشتہ کالم میں ارباب اختیار کی توجہ ٹریفک کے گوناگوں مسائل کی طرف دلائی تھی اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ پنجاب کے مختلف شہروں، بالخصوص صوبائی دارالحکومت لاہور میں ٹریفک کا مسئلہ حل کئے بغیر پُر سکون معمولات زندگی کا تصور نا ممکن ہے۔
ان سطور کی اشاعت کے بعد ٹریفک کی روانی میں بہتری تو پیدا نہیں ہوئی، لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ ہمارے قارئین میں اس حوالے سے شعور اُجاگر ہوا۔ بڑی تعداد میں شہریوں نے ہماری توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ ٹریفک کے بہاؤ میں سب سے بڑی رکاوٹ جا بجا پھیلی ہوئی تجاوزات ہیں، جن میں ہر روز بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور، جہاں پٹواری سے وزیر اعلیٰ تک تمام اربابِ بست و کشاد رہتے اور ہر روز انہی سڑکوں سے گزرتے ہیں، انہیں بھی اس امر کا بخوبی ادراک ہوگا، لیکن شاید کسی نے اس کا باقاعدہ احساس نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ گلی محلوں سے بڑی بڑی شاہراہوں تک دکھائی دینے والی تجاوزات پر توجہ نہیں دی گئی۔ متحرک اور ساکت تجاوزات اس قدر ہیں کہ انہیں شمار کیا جانا بھی نا ممکن ہے۔ اگرچہ تجاوزات کے خاتمے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کئی مرتبہ سخت ہدایات بھی دے چکے ہیں اور اس حوالے سے کئی خصوصی اجلاس بھی منعقد کئے گئے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے متعلقہ اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ تجاوزات کا خاتمہ تو در کنار، ان میں کمی بھی نہیں آ سکی، بلکہ روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جن اداروں کو تجاوزات ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، شاید وہی تجاوزات قائم کرنے کے ذمہ دار ہیں ،کیونکہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ تجاوزات کم اس لئے نہیں ہوتیں کہ متعلقہ اداروں یا محکموں کے بعض ذمہ داران خود ان کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ٹریفک کا بیڑا غرق تو ہونا ہی ہے کہ سڑکیں چلنے کے قابل نہیں رہیں۔ پہلے ہی ان میں ٹریفک کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی، ان پر طرہ یہ کہ بینکوں نے گولی ٹافیوں کی طرح گاڑیوں کی اندھا دھند لیزنگ شروع کر دی۔ رہی سہی کسر تجاوزات نے پوری کی اور اب سڑکوں کی کھدائی سونے پر سہاگے کا کام کر رہی ہے۔ کبھی ترقیاتی کاموں کے نام پر، کبھی اورنج ٹرین اور کبھی سیکیورٹی کیمروں کے واسطے شاہراہیں کھودی جا رہی ہیں۔ ٹھیکیدار بھی خوب ذہین واقع ہوئے ہیں، جو سڑکیں اور گرین بیلٹس کھود کر مٹی سڑکوں کے بیچو بیچ پھینک دیتے ہیں۔ جس سے ٹریفک کا بہاؤ، صرف سست روی کا شکار، بلکہ معطل ہو جاتا ہے۔ لاہور کی سڑکیں تو آج کل بے ہنگم پن کا وہ منظر پیش کر رہی ہیں کہ الامان والحفیظ۔
زندہ دلانِ لاہور آج کل ٹریفک کے معاملات میں جس کرب و پریشانی سے گزر رہے ہیں، اُس کا بیان مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ 15 منٹ کا راستہ سوا گھنٹے میں طے ہوتا ہے، بالخصوص سکول،کالج، دفاتر لگنے اور چھٹی کے اوقات میں سڑکوں پر ٹریفک چیونٹی کی طرح رینگتی دکھائی دیتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو چھوڑنے اور لینے جانے والے والدین پر تو تکلیف کا بہت بڑا عالم ہوتا ہے جس سے وہ آج کل گزر رہے ہیں۔ شہر کی ایک بھی سڑک ایسی نہیں، جہاں سے آپ گاڑی پر سوار بآسانی گزر سکیں۔ وارڈنز بھی اس حد تک تنگ آ چکے یا اُکتا چکے ہیں کہ اب وہ ٹریفک کی روانی کی طرف توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ محض چالان پر اکتفا کرنا ان کی عادت بنتی جا رہی ہے۔ ٹریفک درست کرنے کا اب واحد حل یہ رہ گیا ہے کہ لاہور سمیت پنجاب بھر کے چھوٹے بڑے شہروں سے تجاوزات کا فی الفور خاتمہ کر دیا جائے اور اس مقصد کے لئے ایک بہت بڑی مہم، بلکہ تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے، جس میں سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی، این جی اوز، پیشہ ورانہ تنظیموں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کو شامل کیا جائے اور اس وقت تک یہ مہم ختم نہیں ہونی چاہئے جب تک تجاوزات ختم نہیں ہوتیں۔ ریڑھیوں سے مستقل تعمیر کردہ تجاوزات سمیت ہر ناجائز تعمیر کو ختم کرنا فرض اولین سمجھا جائے، بالخصوص وہ تجاوزات جو سڑکوں کی کشادگی کو کم کر رہی ہیں، وہ تو پہلے مرحلے میں ہی ختم کی جانی چاہئیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کیا جائے۔ سرکاری اداروں اور محکموں کے افسران یا اہلکاروں کو واضح پیغام دیا جائے کہ اگر کسی نے تجاوزات کے خاتمے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت ترین انضباطی کارروائی کی جائے گی اور جو تجاوزات کی سرپرستی میں ملوث پایا جائے گا،اس کے ساتھ بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔