جشنِ عید میلاد النبیؐ کے تقاضے
مُحسنِ انسانیت حضور اکرمؐ کے ظہور قدسی کا مبارک دِن آج پورے پاکستان میں منایا جا رہا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے ارکان نے عقیدت و محبت کے ساتھ اپنی مسجدوں، اپنے گھروں اور اپنی گلیوں بازاروں کو رنگ برنگی روشنیوں اور قمقموں سے سجا دیا ہے۔ مساجد کے بلند و بالا میناروں سے درود و سلام کی ایمان افروز اور دِل خوش کن صدائیں گونج رہی ہیں اور پیغمبر اعظم و آخرؐ کے حضور عقیدت کے نذرانے پیش کئے جا رہے ہیں۔ حضور اکرمؐ سارے جہانوں اور جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے آپ ؐ کی اتباع میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔حضور اکرمؐ پر جو قرآن پاک لیلۃ القدر کو اُتارا گیا، اللہ تعالیٰ نے اسے تا قیامت انسانوں کے لئے نجات کا ذریعہ بنا دیا، قرآنی تعلیمات میں دارین کی فلاح ہے۔ اس دنیا کی بھی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت کی بھی، جس نے قرآنِ پاک کی تعلیمات اور حضور پاکؐ کے ارشادات کو حرزِ جاں بنا لیا اس نے دنیا جہان اور اُخروی سعادت پالی۔
حضور اکرمؐ نے حکم خداوندی پر عمل کرتے ہوئے دین کی دعوت کا آغاز تنِ تنہا کیا جو لوگ آپؐ کی زندگی میں ایمان لائے اور آپ کے ساتھی بنے وہ صحابہ کرامؓ کہلائے یہ وہ سعادت ہے جو ان کے بعد آنے والے کسی انسان کو نصیب نہیں ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ جس طرح حضور اکرمؐ کی ذات کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اسی طرح شرفِ صحابیت سے مشرف ہونے کا سلسلہ بھی اس وقت ختم ہو گیا۔ جب آپؐ دین کی دعوت کا مشن مکمل کے اپنے خالق حقیقی کی منشا کے مطابق دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حضور اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کو ستاروں سے تشبیہ دی تھی جنہوں نے آپؐ کی حیاتِ مبارکہ میں حقِ رفاقت ادا کیا تو آپ کی رحلت کے بعد دینِ محمدیؐ کو دُنیا بھر میں پھیلانے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ ہم پاکستان کے کلمہ گو مسلمانوں تک اسلام کی تعلیمات انہی ہستیوں کے وسیلے سے پہنچیں جہاں ان کا پیغام نہیں پہنچ سکا یا جن سرزمینوں کو اس پیغام کو وصول کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی وہ اسلام کے نورِ ہدایت کی روشنی سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے سے محروم رہ گئے، کوئی محرومی سی محرومی ہے!
اِسلام اِس وقت دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور دنیا کے کونے کونے میں توحید کا پرچم سر بلند کرنے والے موجود ہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں بھی اگرچہ تھوڑی تعداد میں سہی، مسلمانوں کا وجود ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا میں اپنی اُمت کے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کا پیغام قرآنِ حکیم اور دوسری اپنی سنت، جب تک میری اُمت کے لوگ اِن تعلیمات پر عمل کرتے رہیں گے گمراہ نہیں ہوں گے۔ لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضور اکرمؐ کی چھوڑی ہوئی ابدی ہدایت کی تعلیمات ہر لحاظ سے محفوظ و مامون ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے اور ہماری زندگیوں میں اس طرح رچ بس نہیں سکیں جس طرح ان کا حق تھا۔ آج ہم اپنے ملک کے اندر جس طرح کی معاشرتی برائیاں دیکھتے ہیں، بیٹا ماں باپ کو قتل کر رہا ہے اور باپ بیک وقت اپنے سارے بچوں کو موت کی نیند سلانے سے گریز نہیں کرتا، معمولی معمولی باتوں پر اولاد کو ہلاک کیا جا رہا ہے کہیں باپ گول روٹی نہ پکانے پر بیٹی کو قتل کر دیتا ہے کہیں بھائی کھانا پکانے میں تاخیر کرنے پر جوان بہن کو زندگی سے محروم کر دیتا ہے، جائیداد کے لالچ میں حقیقی بہن بھائیوں کو متاعِ زیست سے محروم کیا جار ہا ہے تصور فرمائیں اسلام سے پہلے ایام جاہلیت کی کون سی ایسی برائی ہے جو ہم مسلمانوں کے معاشروں میں موجود نہیں جو اللہ پر ایمان لاتے اور حضور اکرمؐ کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔
آج کے دن جب ہم عید میلاد النبیؐ کا جشن منا رہے ہیں ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کو حرزِ جاں کیوں نہیں بنا سکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں رسم اذاں تو موجود ہے روحِ بلالیؓ نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کو تو مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنی چاہئے تھی لیکن بعض اوقات تو مسلمانوں کی حرکتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ زبان سے انہوں نے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن اِسے اپنی زندگیوں میں وارد نہیں کیا زبان سے لا اِلہٰ کہنے سے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک دل و نگاہ مسلمان نہ ہوں۔حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بظاہر اچھے خاصے معزز اور متشرع نظر آنے والے بزرگ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو کر رہ گئی ہیں ہسپتالوں میں لوگ پیچیدہ امراض کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کے علاج کے لئے جو ادویہ استعمال ہو رہی ہیں ان کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جعلی ہیں یا اصلی، جس معاشرے میں خوراک بھی ملاوٹ والی ہو اور مریض کے لئے دی جانے والی ادویہ بھی جعلی ہوں کیا وہ معاشرہ اسلامی کہلانے کا حق دار ہے؟ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ وہی لوگ کر رہے ہیں جو مسلمان بھی ہیں، مسجدوں میں بھی جاتے ہیں، حج اور عمرے بھی کرتے ہیں اور آج جشنِ عید میلاد النبیؐ بھی منا رہے ہیں۔ اسلام کو جو مسلمان درکار ہیں افسوس کہ مسلمانوں کے اندر ان کا وجود خال خال ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس مہینے میں لوگ نیکیوں کی جانب دوڑتے ہیں مساجد کو آباد بھی کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات بھی کیا جاتاہے۔ سحریوں اور افطاریوں میں غربا کے لئے کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ نیکیوں کی طرف رغبت بھی بڑھ جاتی ہے لیکن صد حیف کہ قتل و غارت گری ماہِ رمضان میں بھی نہیں رُکتی،خواتین کے ساتھ بد سلوکی بھی جاری رہتی ہے، ڈاکے اور چوریاں بھی حسب سابق ہوتے رہتے ہیں۔ دکاندار گاہکوں کو پہلے سے زیادہ لوٹنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، ذخیرہ اندوزی بڑھ جاتی ہے افطاری کے وقت اشیائے خوردنی کے نرخ مصنوعی طور پر کئی کئی گنا بڑھا دیئے جاتے ہیں رمضان شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی ایسی منصوبہ بندی کر لی جاتی ہے کہ اس ماہِ مقدس میں اشیا کس طرح مہنگی کی جا سکتی ہیں اور لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ کیسے ڈالنا ہے۔ جن مسلمانوں کا رمضان اس طرح گزرتا ہے وہ باقی مہینوں میں کیا کچھ نہیں کرتے۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے مواقع پر بھی اشیا مہنگی کرنے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عیسائی دنیا کے لاکھوں بڑے بڑے چین سٹور اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ اشیائے صرف کو غریبوں کی پہنچ کے اندر رکھا جائے، مسلمانوں کی عیدین اور عیسائیوں کے کرسمس کے مواقع پر دونوں مذاہب کے تاجروں کے رویئے کا موازنہ کر لیا جائے تو افسوس کہ مسلمانوں کا طرزِ عمل کسی صورت قابل تقلید نہیں ٹھہرتا۔
آج کے روز حضور اکرمؐ کی ولادت با سعادت کا دن مناتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور ضرور کرنا چاہئے کہ کیا ہم نے اپنے ملک کو اس معاشرے کا نمونہ بنا دیا ہے جو اسلام کا مطلوب و مقصود ہے اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ہم روزِ قیامت کس منہ سے شافع محشرؐ کا سامنا کریں گے؟ محبت کے خالی خولی دعوے دربار رسالتؐ میں بازیاب نہیں ہو سکتے۔ علامہ اقبالؒ کے ارشاد پر غور فرمایئے۔
چو میگوئم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا اِلہٰ را