نیب کے ایس ایم ایس اور شیدے کی پریشانی
کل صبح سویرے شیدا ریڑھی والا گھر آیا۔ اس کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے خیریت پوچھی تو کہنے لگا کہ مجھے نیب کی طرف سے ایک میسج آیا ہے۔ اس کا مطلب سمجھ نہیں آ رہا، میں تو ایک معمولی ریڑھی والا ہوں میں نے تو کوئی کرپشن بھی نہیں کی پھر نیب والے مجھے کیوں بلا رہے ہیں، پھر اس نے مجھے اپنا موبائل دیا جس میں نیب کا وہی میسج تھا، جو آج کل سبھی موبائل صارفین کو بھیجا جا رہا ہے Say no to Corruption میں شیدے کی حالت پر ہنسا، مجھے ہنستا دیکھ کر وہ کچھ خفا ہو گیا میں نے اسے سمجھایا کہ یہ میسج سب کو ملا ہے، اس کا مطلب ہے، کرپشن سے انکار کرو، یہ سن کر وہ کہنے لگا: ’’بابو جی ایک بات تو بتائیں، نیب والوں کو میرا نمبر کس نے دیا؟‘‘ میں نے کہا ان کے پاس سب کے نمبر موجود ہیں، وہ جسے چاہیں میسج کر سکتے ہیں لیکن بابو جی یہ تو بڑی زیادتی ہے، نیب والوں نے سب کو، بلکہ پوری قوم کو کرپٹ سمجھ لیا ہے، جبھی تو مجھ جیسے غریبوں کو بھی ایسے میسج مل رہے ہیں۔ چونکہ مجھے دفتر جانے کی جلدی تھی اس لئے میں نے شیدے سے جان چھڑانے کے لئے کہا، فکر نہ کرو میں اس پر کالم لکھوں گا اور تمہاری بات اوپر تک پہنچ جائے گی۔ وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں یہ سوچتا رہ گیا کہ آج کل نیب کس ڈگر پر چل نکلی ہے، کیا اس طریقے سے کرپشن ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے؟ سوشل میڈیا پر نیب کے اس طریقے کی جودرگت بن رہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ لوگ یہ جانتے ہیں پاکستان میں کرپشن کیوں بڑھ چکی ہے اور کرپشن کون سے طبقات کر رہے ہیں؟ کوئی عقل کا اندھا ہی یہ بات کر سکتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اس لئے بڑھی ہے کہ عوام میں کرپشن کے خلاف شعور موجود نہیں، شیدے ریڑھی والے جیسے لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافے کا سبب احتساب کا نہ ہونا ہے۔ نیب کا ادارہ جس کے پاس کرپشن کے خلاف کارروائی کے تمام آئینی اختیارات موجود ہیں، کرپٹ افراد کے خلاف مثالی کارروائی کی بجائے عوام کو یہ پیغام دینے پر ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے کہ وہ کرپشن سے انکار کر دیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے کسی مفلس کو یہ پیغام بھیجا جائے: ’’خبر دار قیمتی شراب پینا حرام ہے۔۔۔۔‘‘ پاکستان کے پچانویں فیصد لوگ تو نظام کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ وہ خود کرپشن نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس اس کے مواقع ہی نہیں البتہ جو پانچ فیصد اشرافیہ ہے، یا سرکاری عہدوں پر بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے عمالِ حکومت ہیں وہ کرپشن کا نظام رائج کئے ہوئے ہیں۔ اب اگر نیب والے عوام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ایسے عمالِ حکومت کو رشوت دینے سے انکار کر دیں تو یہ کنوئیں میں دھکا دینے کے مترادف ہے۔ دور نہ جائیں، ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس کو ہی لے لیا جائے تو ساری حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ جہاں پنشنروں تک سے پیسے لئے جاتے ہیں، خود ضلع کی انتظامیہ اپنے بل پاس کرانے کے لئے کمیشن دیتی ہے میں ایسے پروفیسروں کو جانتا ہوں جو رشوت نہ دیں تو ان کی ٹرانسفر کے بعد کئی کئی ماہ پے سلپ نہیں بنتی اور وہ تنخواہ سے محروم رہتے ہیں وہ جہاں بھی داد رسی کے لئے جائیں ان کی اس لئے شنوائی نہیں ہوتی کہ اکاؤنٹس آفس والے ان کا کوئی نہ کوئی کاغذ ہی گم کر دیتے ہیں پھر اعتراض لگا کر کیس واپس کر دیا جاتا ہے جب تک وہ متعلقہ آڈیٹر کو پیسے نہ دیں کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اب نیب بتائے کہ ایسے میں Say no to Corruption والا میسج کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے احتساب کے خوف سے بے نیاز سرکاری مشینری کی موجودگی میں صرف غریب عوام کو یہ کہنا کہ وہ کرپشن سے انکار کر دیں ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ اور نہیں۔
نیب نے آج کل تعلیمی اداروں میں بھی کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ طلبہ و طالبات کے درمیان اس حوالے سے مضمون نویسی اور تقریری مقابلے کرائے جا رہے ہیں جن میں نوجوان کرپشن کے خلاف بھرپور تقریریں کرتے ہیں مضمون لکھتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا اس عمل سے ہم اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گے’ کیا پاکستان کرپشن سے پاک ملک بن جائے گا؟ میرا جواب واضح طور پر نفی میں ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے سگریٹ کی عام دستیابی کے بعد اس کے پیکٹ پر یہ جملہ لکھ دیا جاتا ہے: ’’خبر دار تمباکو نوشی موت ہے۔۔۔‘‘ ارے بابا اگر تمباکو نوشی زندگی کے لئے خطرناک ہے تو اسے بند کیوں نہیں کر دیا جاتا، اس زہر کو رگوں میں اتارنے کے لئے سر عام دستیابی کیوں یقینی بنائی جاتی ہے؟ کچھ یہی حال نیب کی ان مہمات کا ہے ملک میں ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے، سپریم کورٹ بار بار یہ ریمارکس دے رہی ہے کہ نیب اپنا آئینی کردار ادا نہیں کر رہا، کرپٹ افراد بے خوف و خطر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، روزانہ اخبارات میں کروڑوں اور اربوں کی کرپشن کے قصے چھپتے ہیں، وزیر اعظم تک پر کرپشن کے الزامات ہیں، ایسی فضا میں نوجوانوں سے کہنا کہ وہ ایسے مضمون لکھیں اور تقریریں کریں جو کرپشن سے انکار پر مبنی ہوں ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ نیب کرپشن پر احتساب کی دو چار ایسی بڑی مثالیں قائم کرے جو ملک میں احتساب کی موجودگی کو یقینی بنا دیں، جس سے یہ تاثر قائم ہو جائے کہ پاکستان میں کرپشن کرنے والوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ یہ عملی پیغام اگر عوام تک پہنچ جائے تو انہیں ایس ایم ایس بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
موجودہ حالات میں تو یہ ایس ایم ایس کرپشن کے ہاتھوں اذیت ناک زندگی گزارنے والے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔اصولاً تو کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنے کی مہم حکومت کو چلانی چاہئے مگر یہ کام نیب کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری محکمے ایک طرف ہیں اور نیب دوسری طرف۔ درمیان میں عوام کھڑے ہیں، جنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرف جائیں کیا کریں۔ اس سارے عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن پر گرفت کا کوئی خود کار نظام موجود نہیں ہے۔ بس یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن سے انکار کر دیں۔ اس انکار کے بعد ان پر کیا گزرتی ہے، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں حکومت اگر صاف ستھرا نظام نہیں دیتی اور نیب جیسا آئینی ادارہ نظام کو کرپشن سے پاک رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو خالی تقریروں یا ایس ایم ایس مہم سے کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہ نیب کی بدقسمتی ہے کہ اتنا اہم آئینی ادارہ ہونے کے باوجود عوام کی اس کے بارے میں رائے مثبت نہیں، وہ آج تک اس تاثر کو ختم نہیں کر سکا کہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنا اس کے بس کی بات نہیں۔ وہ احتساب کے ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر خود کو نہیں منوا سکا۔ صوابدیدی احتساب اور سیاسی مقاصد کے لئے اس کا استعمال، ایک ایسا الزام ہے جو نیب کا بری طرح پیچھا کر رہا ہے۔ نیب کے شہ دماغوں کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں کرپشن کے خلاف فضا موجود ہے یا نہیں، انہیں اس بارے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ عوام کرپشن کو برا سمجھتے ہیں اور اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں نیب کو صرف اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ احتساب کے نظام کو شفاف، خود مختار اور تیز رفتار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نیب اگر یہ کام کر گزرتا ہے تو پاکستان سے کرپشن خود بخود کم ہوتی چلی جائے گی۔ اگر ان عملی اقدامات کی بجائے نیب شہریوں میں کرپشن کے خلاف بینرز لگا کر نوجوانوں کے درمیان تقریری مقابلے کروا کر اور پورے ملک کے کروڑوں موبائل صارفین کو ایس ایم ایس بھجوا کر یہ توقع رکھتا ہے کہ ملک سے کرپشن ختم ہو جائے گی تو یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر صرف دیوانے ہی دیکھ سکتے ہیں۔*