امام شاہ احمد نورانی کی زندگی جہد مسلسل (1)

امام شاہ احمد نورانی کی زندگی جہد مسلسل (1)
 امام شاہ احمد نورانی کی زندگی جہد مسلسل (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قائدملت اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمدنورانی صدیقی میرٹھیؒ کی 78سالہ زندگی ایک جہد مسلسل سے معنون ہے۔ مولانانورانی 18رمضان 1344بمطابق یکم اپریل 1926ء کوہندوستان کے شہرمیرٹھ کے ایک دینی ،علمی اور ادبی گھرانے میں پیداہوئے جوہندوستان میں مذہب کے ساتھ ساتھ علم وادب میں بھی نمایاں مقام رکھتاتھا،یہی وجہ تھی کہ اس گھرانے کوپورے میرٹھ میں نہایت عزت واحترام کی نظرسے دیکھاجاتاتھا،علامہ شاہ احمدنورانی ؒ کے والدگرامی حضرت مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ؒ اپنے عہد کے ممتاز عالم دین ،مفکر دین وملت اوراسلام کے زبردست شیدائی تھے جنہیں قائد اعظم محمدعلی جناح نے قیام پاکستان کے لئے دنیابھرمیں رائے عامہ ہموارکرنے پر سفیراسلام کاخطاب دیاتھا۔ حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ نے چارعشروں تک دنیاکے دوردراز،دشوارگزار اورترقی یافتہ وغیرترقی یافتہ ممالک میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا،یہی جذبہ اور دین کی یہی محبت آپؒ کے صاحبزادے حضرت علامہ شاہ احمدنورانیؒ میں بھی نمایاں تھی۔1934ء میں ابھی مولاناشاہ احمدنورانیؒ کی عمر صرف آٹھ سال تھی کہ انہوں نے قرآن مجید فرقان حمید کوحفظ کرکے بے مثال کارنامہ انجام دے ڈالا ،دس سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ایک سال میں علم تجوید مکمل کیا، آپؒ کاعلمی سفر آگے بڑھتاچلاگیااور آپؒ نوجوانی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنی علمی منزل کی جانب گامزن ہونے لگے۔ 1944ء میں درس نظامی کی تکمیل اور دستارفضیلت بدستہائے مبارکہ مفتیء اعظم ہند مولانامصطفی رضاخاں ،صدرالافاضل مولاناسیدنعیم الدین مرادآبادی، والدگرامی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی، صدرالمدرسین مولاناسیدغلام جیلانی میرٹھی۔1945میں گریجویشن کی اور تحریک پاکستان میں عملی طورپرحصہ لیناشروع کیا۔1946میں میرٹھ میں ہی انہوں نے مسلم نوجوانوں پر مشتمل نیشنل گارڈ زنامی تنظیم تشکیل دی جس نے نہ صرف تحریک پاکستان کے دوران کردار اداکیا بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس نومولود مملکت کی تعمیر واستحکام اور سلامتی میں حصہ لیا۔مولانانورانیؒ کے والد گرامی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ نے قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں میرٹھ سے ہجرت کی اور لائنزایریاکراچی میں رہائش پذیر ہوئے بعدازاں آپؒ کچھی میمن مسجد صدر منتقل ہوگئے ،پاکستان آنے کے بعد مولانانورانی دین اسلام کے فروغ اور اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کے لئے شبانہ روز مصروف رہے انہوں نے بے شمارغیرمسلموں کو اپنے ہاتھوں اسلام سے مشرف کیا۔ 1953ء میں ورلڈمسلم علماء آرگنائزیشن کے اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور گیارہ سال تک اس عہدے پر رہے،اسی دوران پاکستان میں تحریک ختم نبوت میں بھرپورحصہ لیا،1954ء میں والدگرامی سفیر اسلام ومبلغ اعظم شاہ عبدالعلیم صدیقی وصال فرماگئے،1955میں جامعہ ازہرکے علماء کی دعوت پر مصرکاطویل دورہ کیا،1958ء میں روسی سفیر کی تحریک اور مفتیء اعظم روس مفتی ضیاء الدین باباخانوفؒ کی خصوصی دعوت پر روس کاتبلیغی ومشاہداتی دورہ کیا،پاکستان میں مارشل لاء کے دورمیں جمعیت علماء پاکستان پرپابندی کی وجہ سے اپنے رفقاء کے ساتھ انجمن تبلیغ اسلام کی بنیادرکھی،1959ء میں مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کاخیرسگالی دورہ کیا،1960ء میں مشرقی امریکا، مڈغاسکر اور ماریشش کاتبلیغی دورہ کیا،1962ء میں نائیجیریا کے وزیراعظم شہید احمد ڈبلیوکی خصوصی دعوت پر تین ماہ کاتفصیلی دورہ کیا،پھرصومالیہ، کینیا، ٹانگانیکا،یوگنڈا اور ماریشش کادورہ کیا۔1963ء میں سعودی عرب کادورہ کیااسی دوران آپؒ کی شادی ہوئی جس کی تقریب مسجد نبوی میں انجام پائی، بعدازاں فوراً ہی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ترکی، فرانس، مغربی جرمنی، برطانیہ اوراسکینڈے نیوین ممالک کا طویل دورہ کیا اس کے بعد چین کے مسلمانوں کی دعوت پر چین کاتبلیغی دورہ کیا۔1965ء میں امریکا اور کینیڈا کاتبلیغی دورہ اور 1966ء میں مدینہ منورہ میں بڑے صاحبزادے حضرت علامہ شاہ محمدانس نورانی مدنی کی ولادت ہوئی، 1966ء میں ہی اپنے رفقاء کے ساتھ جماعت اہلسنت کی تشکیل کی۔1968ء میں یورپ کاتفصیلی دورہ کیاجہاں قادیانیوں سے مناظرے کئے اور اسی سال مستقل طور پر پاکستان تشریف لے آئے یہاں پر بڑی صاحبزادی کی ولادت ہوئی۔1969ء میں پاکستان میں جماعت اہلسنت کے پلیٹ فارم سے قادیانیوں کی بین الاقوامی سازشوں کوطشت ازبام کیا،اسی سال دوسری صاحبزادی کی ولادت ہوئی ۔1970ء میں جمعیت علماء پاکستان میں اختلافات ختم کرائے اور تنظیم نوکی،سنی کانفرنس کراچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھرپورشرکت کی، جے یوپی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کاالیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔دوسرے صاحبزادے شاہ اویس صدیقی کی ولادت اسی سال ہوئی۔1973ء متحدہ جمہوری محاذ کی تشکیل میں موثر کرداراداکیا،رابطہ سیکریٹری نامزدہوئے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے مقابلے میں وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ لیا،جمعیت علماء پاکستان کے صدر منتخب ہوئے،آئین پاکستان کی تدوین کے لئے دستوری کمیٹی کے رکن نامزد ہوئے اور دستور میں مسلمانوں کی تعریف اوردیگر اسلامی دفعات شامل کروائیں۔1974ء میں قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قراردینے کی قرارداد اسمبلی میں پیش کی ، مکۃ المکرمہ دارارقم کے مقام پر ورلڈ اسلامک مشن کی داغ بیل ڈالی اور چیئرمین منتخب ہوئے،قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قرار دلوانے کے لئے دنیا بھر کا تقریباًچھ ماہ کادورہ کیااور لاتعداد غیر مسلموں کو اپنے ہاتھوں مشرف بہ اسلام کیا،تنظیم المدارس کی سند کو ایم اے کے برابر قرار دلوانے تاریخ سازکردار ادا کیا ۔1975ء پاکستان کے سب سے بڑے آئینی ادارے سینیٹ کے وجودمیںآنے کے بعد اس کے رکن منتخب ہوئے۔1976ء یورپ ،افریقہ وامریکا کے تبلیغی دورے کئے،پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں جاندار کردار اداکیا۔1977ء قومی اسمبلی کے دوبارہ رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں تحریک نظام مصطفےٰﷺ میں قائدانہ ومجاہدانہ کردار اداکیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔1978ء مارشل لاء کے بعد مارشل لاء کی کھل کر مخالفت کی اورضیاء الحق کی جانب سے وفاقی وزیر اور پنجاب وسندھ میں گورنر ووزیراعلیٰ کی پیش کش کوٹھکرادیا اور ملک میں فوری انتخابات کامطالبہ کیا،اسی سال جنوبی افریقہ کادورہ اور کیپ ٹاؤن کے میئر کی جانب سے سفیراسلام کاخطاب ملا،ملتان میں تاریخی سنی کانفرنس سے خصوصی خطاب کیا۔1979ء میں برطانیہ کادورہ ،برمنگھم میں فقیدالمثال نظام مصطفےٰ ﷺ کانفرنس سے خطاب کیا اور رائے ونڈ میں میلادمصطفےٰ ﷺ کانفرنس کاانعقاد اور خصوصی خطاب کیا۔1980ء امریکا ،سرینام، آساد ،آئرلینڈ، جرمنی وہالینڈ کادورہ اور اجتماعات سے خطاب کیا۔ 1981ء حرمین شریفین کی حاضری اور بعدازاں کینیا،ماریشش، جنوبی افریقہ، زمبابوے،ملاوی، جزائرفجی، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ ،سنگاپور کاچھ ماہ تک طویل دورہ کیا۔1981ء میں دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی۔(جاری ہے)*

1982ء جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی، 1982ء میں ہی ماریشش کادورہ کیا۔1983ء جنوبی افریقہ ،ڈربن میں میلادکانفرنس سے خطاب کیا،دارالعلوم علیمیہ رضویہ کاافتتاح کیااور برطانیہ وہالینڈ کادورہ کیا۔1984ء برطانیہ میں چھ مساجد کاافتتاح اور ماریشش کادورہ کیا۔1985ء جنرل ضیا کے غیرجماعتی الیکشن کابائیکاٹ کیا،پاکستان سمیت دنیابھرمیں حجاج کانفرنسز کاانعقاد کیا،مئی میں برطانیہ میں عظیم الشان حجاج کانفرنس کی صدارت کی جس میں دنیابھر کے مندوبین نے شرکت کی اور سعودی حکومت کی غیراسلامی پالیسیوں کی پرزورمذمت کی ۔1986ء برطانیہ ،ہالینڈ اور ماریشش کے تبلیغی دورے کئے، ایران عراق جنگ بندی کے سلسلے میں ورلڈ علماء کانفرنس کے تحت کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے عراق تشریف لے گئے اور پھر برطانیہ ،افریقہ ،فرانس اور کینیا کاتفصیلی دورہ کیا،اسی سال ہالینڈ میں آپ کے دل کابائی پاس آپریشن ہوا۔1987ء وزارت اوقاف عراق کی دعوت پر عراق کا دورہ اور بین الاقوامی کانفرنس لیبیامیں شرکت کی اور ایران عراق جنگ بندی کے لئے کرنل قذافی سے تفصیلی ملاقات کی اور پھر برطانیہ، تھائی لینڈ ،جرمنی، سوئٹزرلینڈ، افریقی ممالک اور ہالینڈ کادورہ کیا۔1988ء عظیم الشان جامع لیسٹر برطانیہ کاسنگ بنیادرکھا جس کا تعمیری تخمینہ تقریباً بیس لاکھ پاؤنڈ تھا، جرل اسلم بیگ کی طرف سے نگراں وزیراعظم بنانے کی پیش کش ٹھکرادی۔1989ء اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی درخواست پر ایران عراق جنگ بندی کے مشن میں شریک ہوئے اور ایران عراق جنگ بندی میں موثرکردار اداکیا،ہندوستان کادورہ، جامعہ ازہر اور مساوات یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کی ۔1990ء عراق کے صدر صدام حسین کی خصوصی دعوت پر بین الاقوامی مسلم کانفرنس عراق میں خصوصی شرکت کی۔ 1991ء پاکستان بھرمیں جہادکانفرنسز کاانعقاداور عراق پر امریکا کی یلغار کی سخت مخالفت اور پاکستانی حکومت کے اقدام کی مذمت کی۔1992ء فرانس ویورپ کا تفصیلی دورہ کیا اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد اعلان کیا کہ بابری مسجد کی ازسرنوتعمیر کی جائے جس کے اخراجات ورلڈ اسلامک مشن ادا کرے گا۔1993ء ورلڈ اسلامک مشن کی طرف سے صومالیہ کے قحط زدگان کے لئے لاکھوں ڈالرز کی امداد کااعلان کیا۔1994ء یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک کاتفصیلی تبلیغی دورہ کیا۔1995ء پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ملی یکجہتی کونسل قائم کی اور اس کے صدر منتخب ہوئے۔1996ء بے نظیرحکومت کے خلافجدوجہد کی اور تاریخی دھرنادیا ،تحریک نجات میں قائدانہ کردار اداکیا۔1997ء ناروے کی تاریخ کی پہلی مسجد کاافتتاح کیا،آزاد کشمیر کنٹرول لائن کا دورہ اور متاثرین سے ملاقات کی۔1998ء پوپ جان پال کے چیلنج کہ اگلی صدی میں افریقہ کامذہب عیسائیت ہوگا کاجواب دیاکہ انشاء اللہ اگلی صدی عیسویں میں افریقہ میں اسلام کاجھنڈا ہی لہرائے گاعلاوہ ازیں مسلسل افریقہ کے تبلیغی دورے ،بیروت اور مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا۔1999 ء کینیڈا،افریقہ اور ماریشش کاطویل دورہ کیا۔2000ء پاکستان میں امریکا کی مداخلت پر اور افغانستان پر امریکا کی یلغار کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا اور دفاع افغانستان کونسل قائم کی۔اگست 2001ء میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں عظیم الشان میلاد مصطفےٰ کانفرنس سے خطاب کیا۔ نومبر 2001ء سوئے آصل فیروز پور روڈلاہورمیں صفہ اسلامک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا اس وقت پنجاب کے گورنر (جنرل )خالدمقبول بھی موجودتھے۔ 2001ء متحدہ مجلس عمل کاقیام عمل میںآیا جس کے پہلے صدر منتخب ہوئے، اسی سال والدہ ماجدہ کاوصال ہوگیا۔2002ء الیکشن میں کامیابی کے لئے انتھک محنت اور جدوجہد کی ،اس سلسلے میں پورے پاکستان کے طویل ترین دورے کئے جس کے نتیجے میں متحدہ مجلس عمل کوحیران کن ملک گیر کامیابی حاصل ہوئی،ملکی تاریخ میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے۔2003ء ایل ایف او( LFO) پر حکومت سے مذاکرات کئے ،آئرلینڈ کا دورہ کیااسی سال کراچی میں اپنی زندگی کے آخری رمضان المبارک میں قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کی اور 11دسمبر 2003ء بروزجمعرات اسلام آباد میں دل کا دورہ پڑنے سے تاریخ اسلامی کے عظیم بطل جلیل اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے عالم جاودانی کورخصت ہوگئے۔امام اہلسنت حضرت علامہ امام شاہ احمدنورانی عربی ،فارسی، انگریزی اور فرانسیسی سمیت دنیاکی درجنوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے،جس کے باعث دنیاکے کسی خطے میں بھی انہیں اپناموقف پیش کرنے میں کسی پریشانی کاسامنا نہ کرناپڑا،انہوں نے بے شمارغیرمسلم اسکالرزسے مناظرے کئے اور ان کومضبوط اورٹھوس دلائل پرشکست دی لاکھوں غیرمسلموں کو مشرف بہ اسلام کرکے دین اسلام کا مبلغ بنایا۔مولانانورانی ؒ کی اسلام اور پاکستان کے لئے خدمات کااحاطہ چند صفحات پر ممکن نہیں ہے بے شمار خدمات اور کاوشوں میں اگردیکھاجائے تو قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردلوانے کاکارنامہ آپ کی تمام کاوشوں پر بھاری نظر آتا ہے ،اس کے علاوہ پاکستان میں نفاذ نظام مصطفےٰ ﷺ کے آپ ؒ کی شبانہ روز جدوجہد اور کاوشیں روزروشن کی طرح عیاں ہیں ،ملک میں ڈکٹیٹرشپ، آمریت اورمارشل لاء کے خلاف اور دفاع ناموس رسالت و تحفظ ختم نبوت کی کوئی تحریک آپ ؒ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی ،لیکن تحریکوں کی کامیابی کے نتیجے میں کبھی کسی سے کوئی ذاتی فائدہ نہ اٹھایا،ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر، نوازشریف، اسلم بیگ اورپرویزمشرف سمیت تمام حکمرانوں نے آپ ؒ کوحکومتی عہدوں کی پیشکش کی لیکن آپؒ نے ہمیشہ کورا جواب دے کر اپنا دامن بچایا۔
؂ تخت سکندری پہ وہ تھوکتے نہیں ہیں بسترلگاہوجن کاآپﷺ کی گلی میں

مزید :

کالم -