سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔تیسری قسط

سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔تیسری قسط
سٹریٹ فائٹر،نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔تیسری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر۔شاہدنذیرچودھری

خالد محمود سے ملاقات نہایت سود مند رہی۔ خالد محمود ان دنوں پاکستان کسٹمز کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہا تھا اور ٹیلنٹ ہنٹ کیمپ کے متنظیمن میں بھی شامل تھا۔ اس نے وسیم اکرم کا ہاتھ تھام لیا۔ بارہ سال بعد جب وسیم اکرم پاکستانی ٹیم کا کپتان بنا تو یہی خالد محمود تھا جو اس کے دور کپتانی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا صدر بنا۔
خالد محمود نے اسے اپنے کلب لدھیانہ جم خانہ کی طرف سے کرکٹ کھیلنے کی دعوت دی۔سچ تو یہ ہے کہ وسیم اکرم نے لدھیانہ جم خانہ ہی کی طرف سے باقاعدہ کرکٹ شروع کی۔ اس سے پہلے اسے’’حقیقی کرکٹ‘‘کی الف ب بھی نہیں آتی تھی۔ وہ بلاشبہ ایک خوش قسمت کرکٹر ہے۔اس سے پہلے دنیا میں شاید ہی کوئی کرکٹر ایسا ہو گا جو اسکول اور کالج کی سطح پرکرکٹ کھیلنے کے باوجود کرکٹ کی ابجد سے ناواقف ہو۔مگر یہ وسیم اکرم ہی تھا جس پر قدرت مہربان تھی۔
جوہری مل گئے
یہ1983ء کی بات ہے۔لدھیانہ جم خانہ اور لاہور جم خانہ کے درمیان ایک کانٹے دار میچ ہوا۔ لاہور جم خانہ میں وسیم حسن راجہ اور انتخاب عالم جیسے جغادری کھلاڑی شامل تھے۔ وسیم اکرم نے جارحانہ باؤلنگ کی اور لاہور جم خانہ کی چار قیمتی وکٹیں حاصل کر کے اپنی ٹیم کو فتح دلائی۔انتخاب عالم اور وسیم راجہ کو وسیم اکرم کا انوکھا رن اپ اور باؤلنگ ایکشن بے حد پسند آیا اور انہوں نے اس کے کھیل کو نہ صرف سراہا بلکہ انتخاب عالم نے اسے یہ قیمتی مشورہ دیا۔
’’وسیم!اگلے سال پاکستان کرکٹ بورڈ سمر کیمپ لگائے گئی،لہٰذا تم اس میں لازمی شرکت کرنا کیونکہ کرکٹ بورڈ تم جیسے نوجوانوں کو تلاش کررہی ہے‘‘۔
وسیم اکرم نے یہ نصیحت ذہن میں محفوظ رکھ لی اور1984ء میں جب سمر کیمپ لگایا گیا تو وسیم اکرم بھی وہاں پہنچ گیا۔سمر کیمپ کے انچارج آغا صادق تھے۔انہوں نے اسے بطور باؤلر تربیت دینے کا فیصلہ کیا اور اس کی خامیوں کو دور کرنے لگے۔ کیمپ میں موجود تمام لڑکوں کی نسبت وسیم بہترین آل راؤنڈ ثابت ہوا اور آغا صادق نے اس کے اندر ایک نامور کرکٹر تلاش کرلیا چنانچہ انہوں نے اسے خان محمد جیسے فاسٹ باؤلر کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ خان محمد نے وسیم کو گویا چکی کے دو پاٹوں میں رکھ کر پیس ڈالا اور اس کی تمام خامیاں دور کردیں۔
ایک روز آغا صادق اور خان محمد نے وسیم اکرم کی باقی ماندہ خامیوں کا جائزہ لیا اور دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا باؤلنگ ایکشن قدرے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔خان محمد نے آغا صادق کو بتایا:
’’وسیم اکرم بڑا آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں ابھی اسے بہت محنت کرنی ہو گی۔ ابھی تک اسے ریورس سوئنگ معلوم ہے نہ یارکر۔۔۔وہ ابھی کورا ہے۔مگر قدرت نے اسے باؤلنگ کے ایک ایسے جوہر سے نوازا ہے جو عام باؤلر میں نہیں۔ہمیں اس کی یہ خامی دور کرنی پڑے گی۔جب وہ گیند کراتا ہے تو وکٹ پر جسم کو سیدھا رکھتا ہے۔ ایسا کرنے سے گیند صحیح طرح سے سوئنگ ہوتی ہے نہ وہ بیٹسمین کے ارادوں کو بروقت بھانپ سکتا ہے۔اس ایکشن کی وجہ سے وسیم شارٹ پچ بال کرانے پر مجبور ہو جاتا ہے‘‘۔
’’آپ کے خیال میں اسے کیا کرنا چاہئے‘‘ آغا صادق نے پوچھا۔
اتفاق سے وسیم اکرم جو نیٹ پریکٹس کررہا تھا،وہ بھی اپنے دونوں محسنوں کے پاس پہنچ گیا۔خان محمد نے پسینے میں شرابور وسیم کو اپنے پاس بٹھایا اور اس کی پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے آغا صادق سے کہا:
’’آغا صاحب!وسیم باؤلنگ کراتے وقت اپنا ہاتھ اوپر نہیں اٹھاتا اور نہ وکٹ پر ترچھا ہوتا ہے۔جس سے اس کا ہاتھ پیچھے نہیں آپاتا۔ یہ اس کی بہت بڑی خامی ہے‘‘۔
خان محمد نے وسیم اکرم کو ہاتھ اوپر لانے کی افادیت بتائی اور خود باؤلنگ ایکشن بناتے ہوئے بتایا۔‘‘دیکھو میاں یوں ہاتھ اوپر اٹھانا چاہئے‘‘خان محمد نے گیند انگلیوں اور ہتھیلیوں میں پکڑتے ہوئے اپنا ہاتھ کاندھے سے اوپر اٹھایا اور بازو گھما کر بال گراؤنڈ میں پھینک دی۔’’اس طرح بال کرانے سے گیند صحیح بونس لیتی ہے اور باؤلنگ کے دوران جسم ترچھا کرنے سے بال آؤٹ سوئنگ ہوتی ہے‘‘پھر خان محمد نے وسیم اکرم کو گرم اور سرد موسموں اور خشک اور نم آلود پچوں پر سوئنگ بال کرانے کے گر سکھلائے اور تقریباً ایک سال تک وسیم اکرم پاکستانی کرکٹ کے جوہری خان محمد کی پیشہ ورانہ مہارت سے فائدہ اٹھاتا رہا۔

دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
وسیم اکرم کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ ابھی اس کی مسیں بھیگ رہی تھیں اور اس کے جسم کے وہ ضروری پٹھے بھی نہیں بنے تھے جو ایک فاسٹ باؤلر اور آل راؤنڈر کھلاڑی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔وہ خان محمد کی زیر نگرانی تین تین گھنٹے تک ایک ہی ایکشن میں بال کراتا رہتا۔ اس دوران خان محمد نے وسیم اکرم کی لائن لینتھ بھی ٹھیک کرادی۔
زیرو سے ہیرو
وسیم اکرم کے ساتھ ایک عجیب بات یہ تھی کہ اس کے والدین ابھی تک اس کے جنون سے بے خبر تھے۔مگر ایک روز اس کے والد محمد اکرم نے جو سپیئر پارٹس کا کاروبار کرتے تھے انہیں کسی نے بتایا کہ اخبار میں وسیم اکرم کے بارے میں خبر شائع ہوئی ہے کہ وہ خان محمد کے کیمپ میں پریکٹس کرتا ہے۔پس محمد اکرم نے گھر آتے ہی ہنگامہ شروع کر دیا اوراپنی بیگم پر ناراض ہوتے ہوئے کہا:
’’تم لوگوں نے کیا مجھے اندھا سمجھ رکھا ہے۔کیا مجھے یہ معلوم نہیں ہونا تھا کہ وسیم پڑھائی چھوڑ کر کرکٹ کھیلنے لگ پڑا ہے‘‘۔
وسیم کی والدہ کو تو پہلے ہی یہ معلوم ہو چکا تھا مگر وہ بھی یہی سمجھتی رہی تھیں کہ وسیم اکرم صرف اپنے شوق کی خاطر کھیل رہا ہے،وہ مستقل طور پر کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتا۔لہٰذا انہوں نے اپنا دامن بچانے کے لئے کہا:
’’میں خود نہیں جانتی کہ اب وہ دن رات کرکٹ کھیل رہا ہے۔میں ابھی امی کی طرف جاتی ہوں‘‘۔وہ اسی روز اپنی والدہ کے پاس گئیں اور ان سے ناراض ہو کر بولیں:
’’اماں جی!آپ نے مجھے بے عزت کرادیا۔ وسیم کے ابا نے مجھے بہت باتیں سنائی ہیں۔وہ تو پہلے ہی اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ وسیم ان سے دور رہے مگر میں نے آپ کی تنہائی کے خیال سے اسے یہاں بھیج دیا کہ آپ کا دل بھی لگا رہے گا اور وہ اسکول میں آنے جانے کے زیادہ سفر سے بچا رہے گا۔ مگر میں نے سنا ہے وہ پڑھنے کے بجائے صرف کرکٹ کھیلتا رہتا ہے۔اس کے ابا بہت ناراض ہیں۔اب آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں‘‘۔
وسیم کی نانی نے اپنی بیٹی کو پیار سے کہا۔’’دیدی!اب جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔وسیم نے مشکل وقت گزارا ہے اور مجھے یقین ہے بہت جلد پاکستانی ٹیم میں شامل ہو جائے گا لہٰٰذا اب جیسے تیسے ہو صبر کرلو اور اس کے لئے دعائیں کرو‘‘۔نانی اماں نے اپنی بیٹی کو بتایا۔’’شروع میں،میں بھی اس کھیل سے عاجز تھی مگر اس کے شوق کی خاطر آپ لوگوں سے اس کی کرکٹ کو چھپاتی رہی۔لیکن دیدی اب حوصلہ کرو اس کی منزل اب دو قدم پر ہے۔

جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

(دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔)

مزید :

کھیل -