ATR-42 کا حادثہ: چند تاثرات (1)
7دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کے ایک طیارے کو حویلیاں کے نزدیک جو حادثہ پیش آیا اور اس میں جنید جمشید، ڈی سی او چترال اور ان کے ساتھ ان کے اہل و عیال یعنی کل ملا کر 47افراد جو ہلاک ہوئے وہ بڑا درد ناک حادثہ تھا۔ اگر دیکھا جائے تو سارے ہی ہوائی حادثے، زمینی یا بحری حادثوں کے مقابلے میں زیادہ دردناک تصور ہوتے ہیں۔ یہ حادثہ اس لئے بھی دلگداز تھا کہ اس کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے صرف 5،7 منٹ کی مزید مہلت درکار تھی جو قضا و قدر نے اس کے مسافروں کو نہ دی۔
میں اس روز جب ٹیلی ویژن پر معمول کی نشریات دیکھ رہا تھا تو یہ بریکنگ نیوز آئی۔ اس کے بعد سارے چینلوں پر یہی ایک خبر مسلسل گردش کرنے لگی۔ بتایا جانے لگا کہ یہ طیارہ حویلیاں کے نزدیک پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا ہے، اس میں آگ لگ گئی ہے اور اس میں 47مسافر سوار تھے جن میں عملے کے 5افراد بھی تھے۔ کچھ دیر بعد میں نے بی بی سی، سی این این، NDTV، سکائی نیوز اور دوسرے غیر ملکی نیوز چینل وغیرہ بھی دیکھے تو سب میں یہی بریکنگ نیوز فلیش کی جا رہی تھی۔ لیکن وہ چینل صرف اتنا بتا رہے تھے کہ طیارہ ATR-42 قسم کا تھا، اس میں 42مسافر اور عملہ کے 5لوگ سوار تھے، طیارے کو زمین پر گرتے ہی آگ لگ گئی اور مسافروں اور عملے میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ان ملکی اور غیر ملکی چینلوں پر جنید جمشید کا نام آنا شروع ہوا کہ وہ تبلیغی مشن پر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ چترال گئے ہوئے تھے اور واپسی میں ان کو یہ حادثہ پیش آیا۔
میرے سامنے جو نیوز چینل کھلا تھا وہ پاکستان کے معتبرترین چینلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اینکر پرسن یہ خبر بریک کرکے حویلیاں میں اپنے نمائندے سے بات کر رہی تھیں۔ ان کی آواز اورلب و لہجہ اتنا گھبرایا ہوا اور سراسمیہ تھا کہ سننے والے کو بھی شدید گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار کر رہا تھا۔ میں نے سوچا یہ ایک فطری سی بات ہے۔ اتنا بڑا حادثہ ہو تو خواتین ہوں یا مرد ان کی زبان اور اندازِ گفتگو میں اندوہناکی اور ماتم گساری کا عنصر نمایاں ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن جب انہوں نے حویلیاں میں اپنے نمائندے کو سکرین پر لے کر ان سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تو مجھے ان کے ہوش و حواس زیادہ اڑتے محسوس ہوئے۔۔۔ مثلاً یہ سوالات دیکھئے:
1۔ یہ بتاؤ کہ کہا جا رہا ہے کہ ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ کی طرف روانہ کر دی گئی ہیں۔ لیکن اب تو اندھیرا چھا رہا ہے، ان ٹیموں کو کیسے معلوم ہوگا کہ طیارہ کہاں گرا ہے؟
[اس سوال کا جواب نمائندے نے یہ دیا کہ چونکہ طیارے کے ملبے میں آگ بھڑک رہی ہے اس لئے وہ دور سے نظر آ جائے گا اور اسے پہچاننے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں ہوگا]
2۔یہ بتایئے کہ رات کے اس گھپ اندھیرے میں تلاش پارٹیوں کے پاس روشنی کرنے کا کیا بندوبست ہے؟ کیا وہ لوگ جزیٹر وغیرہ ساتھ لے گئے ہیں یا خالی ہاتھ پہاڑوں پر چڑھ گئے ہیں؟
[نمائندے نے کہا کہ ریسکیو ٹیموں کے پاس وہ سارا ساز و سامان (Equipment) ہوتا ہے جو اس ’’ریسکیو آپریشن‘‘ کے لئے ضروری ہوتا ہے، اس میں روشنی کرنے کے انتظامات بھی ہوتے ہیں]
3۔ یہ بتایئے کہ جو لوگ پہاڑوں پر بھیجے گئے ہیں، ان کے پاس فرسٹ ایڈ کا سامان بھی ہے یا نہیں؟ میرا مطلب ہے جو لوگ جل گئے ہیں ان کو ابتدائی طبی امداد دینے کا کیا بندوبست ہوگا؟
[نمائندے نے جواب دیا کہ ان کے پاس ہر قسم کا بندوبست ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ ریسکیو ٹیمیں CMH حویلیاں اور ایبٹ آباد سے آ رہی ہیں، اس لئے ان کے ساتھ مطلوبہ میڈیکل سٹاف بھی ہوگا۔]
4۔ ایک اور سوال اینکرپرسن نے اپنے نمائندے سے یہ کیا کہ کیا ان لوگوں کے پاس زخمیوں کو منتقل کرنے کے لئے سٹریچروں کا بھی بندوبست ہے یا نہیں؟ زخمیوں کو سٹریچروں پر ڈال کر اس اندھیری رات میں کس جگہ لے جایا جائے گا؟ کیا کوئی ہنگامی خیمے وغیرہ بھی ساتھ ہیں؟ کیا ہیلی کاپٹروں کا بندوبست بھی کیا گیا ہے؟
[نمائندے کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیکل سٹاف کے ایک اہلکار سے ابھی ابھی ان ہی نکات اور پہلوؤں پر بات کی ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ ریسکیو ٹیمیں ہر طرح سے لیس ہو کر جائے حادثے کی طرف رواں دواں ہے۔]
جب اینکرپرسن شدید گھبرائی ہوئی آواز میں یہ سوالات دہرا رہی تھیں تو سکرین پر وہ فوٹیج بار بار چل رہی تھی جو جائے حادثے پر کسی نے دور سے موبائل پر لے کر نمائندے کو بھیجی تھی۔ ہر دس سیکنڈ کے بعد ایک ہی فوٹیج کا مسلسل سکرین پر دکھایا جانا اس تاثر اور تاثیر کو زائل کر رہا تھا جو صرف ایک یا دو بار اس کلپ کو دیکھ کر ہونی تھی۔۔۔ میں دل ہی دل میں اینکر کی سادہ لوحی اور بے خبری پر افسوس کر رہا تھا کہ انہوں نے وہ سوال نہیں پوچھے تھے جو ان کو پوچھنے چاہئیں تھے۔ مثلاً
1۔طیارے نے چترال سے کس وقت ٹیک آف کیا اور یہ حادثہ کس وقت پیش آیا؟
2۔طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے جب منقطع ہوا تو پائلٹ نے آخری گفتگو میں طیارے کی فنی خرابی کا ذکر کیا تھا یا نہیں؟ کیا یہ فنی خرابی دورانِِ پرواز پیدا ہوئی یا ٹیک آف کرنے سے پہلے روٹین انجینئرنگ چیک اپ کے دوران بھی اس کا کوئی سراغ ملا تھا؟
-3 طیارہ کتنا پرانا تھا؟
-4 کیا اوور لوڈنگ کی گئی تھی؟
-5 پائلٹ کا پروفیشنل پروفائل کیا تھا؟
-6 پی آئی اے کے ارباب بست و کشاد کا اس حادثے کے بارے میں کیا موقف ہے؟
ظاہر ہے ان سارے سوالوں کا جواب موقع پر جائے حادثہ پر رش (Rush) کرنے والا ٹی وی کا کوئی نمائندہ کیسے دے سکتا تھا؟ وہ بے چارا تو ایک جنرل پرپز نمائندہ تھا جس کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ طیارہ کریش ہونے پر اس کی بلندی کیا تھی، اس میں کتنا ایندھن تھا، کون کون سے VIP سوار تھے، ریسکیو ٹیمیں کہاں سے آ رہی تھیں، ان کی ترکیب کیا تھی، ان کے پاس کیا کیا سازو سامان تھا،کیا کوئی ہیلی کاپٹر وغیرہ بھیجا جا رہا یا نہیں؟۔۔۔ ان میں سے بیشتر سوالوں کا جواب تو ٹی وی چینل کے چیف نیوز ایڈیٹر اور پروڈیوسر کے پاس ہونا چاہئے۔ یہ اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ متعلقہ افراد/ اداروں سے معلومات لے کر سامعین و ناظرین تک پہنچائے۔
ایک اور پہلو جو قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج کا ہر طیارہ ایک جدید اور ٹیکنیکل مشین ہے۔ اس کے درجنوں آپریٹنگ پروسیجرہوتے ہیں جو خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں، اس کے حصوں پرزوں کے نام اور کام ابھی تک عام پبلک کو معلوم نہیں۔ اگرچہ اس مشین کی عمر صرف 113 برس ہے لیکن یہ بحری اور زمینی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں جتنی زیادہ با صلاحیت، سود مند اور سریع السیر سواری ہے اتنی ہی زیادہ خطرناک، پیچیدگیوں سے لبالب اور حادثاتی امکانات سے لبریز ٹرانسپورٹ بھی ہے۔ ہوائی جہاز بنانے سے اڑانے تک سینکڑوں ہزاروں مراحل ہیں جو ایک سے ایک بڑھ کر تکنیکی علم و دانش اور صبر آزمائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ بنا بریں کسی ہوائی حادثے کی رپورٹنگ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ عام قارئین کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہوائی جہاز کے کاک پٹ میں جو درجنوں مربع، مستطیل اور گول شکل کے آلات نصب ہوتے ہیں وہ پائلٹ کو کیا کیا معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پائلٹ اگر ہزاروں گھنٹوں کی پرواز کا تجربہ بھی رکھتا ہو تو یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کو فضائی پرواز کی ساری موشگافیوں کا علم ہے اور وہ آنے والے حادثے کو روک سکنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتا ہے۔ میرے کئی احباب اور رشتہ دار پائلٹ ہیں۔ ان میں سے بعض بین الاقوامی پروازوں پر آتے جاتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ان کو کئی برس کا تجربہ حاصل ہے۔ میرا ایک نواسہ نہ صرف فوکر اور سیسنا152, 172,206 اُڑاتا رہا ہے بلکہ وہ آجکل والٹن ایئر پورٹ پر انسٹرکٹر پائلٹ بھی ہے۔ میری جب بھی اس سے بات ہوتی ہے وہ تادیر ان تکنیکی مشکلات اور چیلنجوں کا ذکر کرتا رہتا ہے جو پی آئی اے اور پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں، گراؤنڈ انجینئروں اور دوسرے فضائی اور زمینی عملے کو درپیش ہیں۔ جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں تو سول ایوی ایشن کے غلبے کا عالم یہ ہے کہ ایک ایک رن وے پر ٹیک آف کے لئے طیاروں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ اگلا جہاز ابھی بمشکل زمین سے اٹھ کر فضا میں بلند ہوتا ہے کہ پچھلا اس کے عقب میں سے اٹھتا نظر آتا ہے اور پھر تیسرا اور پھر چوتھا اڑنے کے لئے پرتول رہا ہوتا ہے۔ ۔۔۔
لیکن وہ سوال جو ہر حادثے کے بعد ایوی ایشن کے اربابِ بست و کشاد سے پوچھے جاتے ہیں وہ عموما یہ ہوتے ہیں:
(1) کیا اس حادثے کا ذمہ دار پائلٹ تھا؟
(2) کیا انجینئر تھا جس نے قبل از پرواز طیارے کو برائے پرواز اوکے (OK) کیا تھا
(3) موسم کیسا تھا؟
(4) کیا ایندھن میں کوئی خرابی تھی؟
(5) کیا انجن کا ’’قصور‘‘ تھا؟
(6) کیا یہ ناگہانی کریش تھا؟
(7) کیا حادثے سے بچا جا سکتا تھا؟
یہ آخری اور ساتواں سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔۔۔ اس کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک حادثے کی مکمل انکوائری نہیں ہو جاتی۔ اس انکوائری کو تین ماہ، چھ ماہ یا بعض حالات میں ایک سال بھی لگ سکتا ہے۔ اس حادثے کی مکمل چھان پھٹک کے بظاہر سارے انتظامات موجود ہیں اور اس کی بھرپور تحقیقات بھی کی جائیں گی اور ان کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ پی آئی اے کو پہلا حادثہ 20 مئی 1965ء کو پیش آیا تھا جس میں اس کا جہاز قاہرہ کے نزدیک گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اور اس میں پاکستان کے ایک نہایت سینئر آرمی آفیسر اور قابل سپوت جنرل حیاء الدین بھی شہدا میں شامل تھے۔ اس کے بعد پی آئی اے کے حادثات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اور یہ معاملہ صرف پی آئی اے تک ہی محدود نہیں۔ دنیا کی ساری ہی ایئر لائنوں کو گاہے بگاہے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ وجوہات کا اندازہ لگا کر ان کا سدباب بھی کیا جاتا ہے لیکن حادثہ پھر بھی ہو جاتا ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے برازیل کی پوری فٹ بال ٹیم ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو چکی ہے۔
ایک اور پہلو جس کی طرف دنیا بھر کا میڈیا کسی حادثے کی وجوہات میں سے ایک وجہ کی طرف اشارہ کرتا رہتا ہے۔ اس کا تعلق کرپشن سے ہے۔ سیاستدانوں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کہ انہوں نے ہوائی جہازوں کی خرید میں کرپشن کر کے غیر معیاری مشینوں کا سودا کیا ہے اور اس طرح قیمتی انسانی جانوں کی ہلاکت کا سبب بنے ہیں۔ ابھی دو روز پہلے بھارت کے ایک سابق ایئر چیف، ایئر چیف مارشل ایس پی تیاگی کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں اٹلی سے آگسٹا ویسٹ لینڈ طیارہ ساز کمپنی سے کمیشن لے کر (VVIP) ہیلی کاپٹر کی ڈیل کلیئر کی تھی۔ یہ کیس ابھی چلے گا لیکن اٹلی کی طیارہ ساز فرم نے اپنی رپورٹ میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ بھارت کے فلاں آفیسر نے 10 سے 15 ملین ڈالر کمیشن لے کر اس معاہدے کو Yes کیا تھا۔ نہ صرف اٹلی بلکہ فرانس اور دیگر ممالک کی طیارہ ساز کمپنیاں بھی اس طرح کی کرپشن (کمیشن)آفر کرتی رہتی ہیں۔۔۔۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی تفصیل میں جانا اس کالم میں ممکن نہیں۔
ہاں ایک بات جس کی طرف اشارہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی اسلحہ فروش قوموں میں اطالوی قوم کا اخلاقی ٹریک ریکارڈ سب سے زیادہ خراب اور موردِ الزام قرار دیا جاتا ہے اور اسے اتفاق ہی سمجھئے کہ پی آئی اے کا یہ طیارہ ATR-42 بھی اٹلی اور فرانس کی مشترکہ پروڈکشن ہے،بالکل اسی طرح جس طرح ہمارا JF-17 چین اور پاکستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پی آئی اے کے پاس اس وقت پانچ چھ ATR-42 اور پانچ ATR-72 طیارے ہیں۔ اس حادثے کی مکمل انکوائری کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ کیا اس ATR-42 میں کوئی فنی خرابی تھی یا یہ پائلٹ (یا انجنیئر) کی کوتاہ اندیشی یا غفلت تھی جو حادثے کا سبب بنی۔۔۔(جاری ہے)*