سموگ کے دور رس اثرات۔موسمیاتی تغیر یا انسانی کوتاہی
ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئلہ جب جلتا ہے تو اس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت دیگر گیسوں کااخراج ہوتا ہے اور جب دُھند کے ساتھ ملتی ہیں تو اس سے اسموگ بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں پانی سے جو بجلی بن رہی ہے اس سے کوئی فضائی آلودہ نہیں ہوتی جو پلانٹ گیس پر چلتے ہیں اُس سے کوئلے کے مقابلے میں دس حصّے کم آلودگی ہوتی ہے اور صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی بنتی ہے ۔ملک میں بجلی کی کل پیداوار کا 16فیصد حصہ کوئلہ سے بنایا جا رہا ہے لیکن اس سے آلودگی پھیل رہی ہے ،جتنا زیادہ کوئلہ جلے گا اُتنی ہی آلودگی ہوگی ،کم آلودگی کیلئے پانی سے بجلی بنانا ہوگی۔
موسمی تغیرات انسانی کوتاہی کے سبب ہیں اسکی موجودہ مثال اسموگ ہے جس سے حیات انسانی کو درپیش مشکلات و خطرات کے اعدادوشمار اور ان سے بچنے کے لیے فوری اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ،جنگلات کی کٹائی کم سے کم درجہ حرارت کے اضافہ کا باعث ہے ،درخت کی کمی سے کاربن اور دیگر گیسس کی مقدار فضا میں بڑھ رہی ہیں اور فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہیں ، آب و ہوا کو بہتر کرنے کے لیے انفرادی سطح پر عملی کام کرنا ہوگا اس سلسلے میں درخت لگانے کو ترجیح دینا ہوگی۔صنعتی سطح پر اور ٹرانسپورٹ کے حوالے سے آلودگی پر قابو پانا ہوگا ،ذرخیز زمینوں پر سوسائٹیز اور کالونیاں بنانے کی بجائے بنجر زمین کو استعمال میں لانے کو ترجیح دینا ہوگی۔
گذشتہ دنوں ’’اسموگ کے دور رس اثرات۔موسمیاتی تغیر یا انسانی کوتاہی‘‘کے موضوع پر شوریٰ ہمدردکااجلاس ہمدرد مرکز لاہور میں جس میں چیف میٹرولوجسٹ محمد ریاض،ماہر ماحولیات ہارون اکرم گل،ترجمان محکمہ ماحولیات نسیم الرحمن ، بشریٰ رحمن، ابصارعبدالعلی،جنرل(ر)راحت لطیف، بریگیڈیر(ر) محمد سلیم ، میجر(ر) صدیق ریحان، انجنیئر جاوید یونس اوپل، ثمر جمیل خان، خالد جمیل چوہدری، راشد حجازی، پروفیسر نصیر اے چوہدری،رانا امیر احمد خان ،ایڈمرل جاوید اقبال و دیگر شامل تھے۔اس موقع پر سموگ کو خوب ڈسکس کیا گیا۔ بشریٰ رحمن کا کہنا تھا کہ اسموگ و موسمیاتی تغیر کے ہم بھی ذمہ دار ہیں ،قدرت نے بنی نوع انسان کے لیے ایک خوبصورت ماحول تخلیق کیا ہوا ہے جسکی حفاظت ہم لوگوں نے ہی کرنی ہے ہمیں نظام قدرت کو خراب ہونے سے بچانا ہے جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ درختوں کی کٹائی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرے اور ماحول کو آلودہ کرنے والی ٹیکنالوجی اور صنعت کاری کو بہتر انداز سے تبدیل کرے ۔ چیف میٹرولوجسٹ محترم محمد ریاض نے بتایا کہ بے انتہا تعمیری کام کی گَرد ،فیکٹریوں ،بھٹوں اور کوڑا جلانے کا دُھواں سے پیدا ہونے والی آلودگی وگیسوں کے سبب بننے والی اسموگ جو دُھند کی آمیزش سے وجود میں آتی ہے ۔آلودگی کا یہ غلاف گزشتہ دو سالوں سے شدت اِختیار کر گیا ہے جس سے عوام الناس کئی تکالیف و بیماریوں سے دوچار ہے ۔ کائنات میں درجہ حرارت ایک ایسا عنصر ہے جو تبدیل ہو جاتا ہے اور اُسکی تبدیلی گرمی ،سردی ،ہواکی سمت ،بارش ،بادل کی صورت میں ہوتی ہے یہ سب آب و ہوا کے عناصر ہیں ،ملکی سطح پر کم سے کم درجہ حرات کے بڑھنے کا رجحان زیادہ دیکھنے کو مل رہا ہے ،جسکی بنیادی وجوہات میں آبادی میں اضافہ ،جنگلات کی غیر ضروری کٹائی ،شجرکاری کا نہ ہونا،سائنس و ٹیکنالوجی کا انسان دوست نہ ہونااورٹرانسپورٹ کا دُھواں شامل ہیں ۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ماہر ماحولیات ہارون اکرم گل کے مطابق اسموگ کی وجوہات میں گاڑیوں اور فیکٹریوں کا زہریلا دھواں اور غیر معیاری ایندھن کا استعمال بڑھنا ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ درختوں کا کم ہونا اور جنریٹرز کا استعمال بھی بڑی وجوہات ہیں ۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کرے اورہمیں بھی اپنا اپناکردار ادا کرنا ہوگا ۔ہمیں اپنی ٹرانسپور ٹ میں ایسے آلات کو ہر صورت درست رکھنا ہے جو گاڑیوں کے دھوئیں کے مضر صحت عناصر کو ختم کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعی و انفرادی سطح پر اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے شعورو آگہی مہم چلائی جائے ۔ترجمان محکمہ ماحولیات نسیم الرحمن نے کہا کہ پرانی صنعتوں ،بھٹے،جنگلات اور درختوں کی کٹائی ،گاڑی اور مشینوں کا بے انتہا استعمال ،معدنیاتی اورتیل کوئلہ کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیسس جن میں سب سے بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہے جواسموگ کی تخلیق کاایک بہت بڑا سبب ہے انسانی کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے مذکورہ مسائل سے متعلق حکومتی ادارے کم وسائل و بجٹ میں رہتے ہوئے اپنی بہترین ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ،اس وقت ہم بھٹوں کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا تجربہ کر رہے ہیں کچھ بھٹوں میں نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جسکو بعد از مشاہدہ بہتر انداز سے ترتیب دیا جائے گا اسی طرح دوسرے صنعتی اداروں پر بھی کام ہو رہا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کے حوالے 2005 ء سے کام ہو رہا ہے جس میں اولین ترجیحات میں 2اسٹروک رکشہ و موٹرسائیکلز اور بسز وغیرہ کو ختم کر کے نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ متعارف کروایا جائے اور اس پر کافی کام ہو چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے ، ایسا کرنے سے ڈیزل سے ہونے والی فضائی آلودگی میں کمی آئے گی۔ درختوں کی کمی سے کاربن اور دیگر گیسس کی مقدار فضا میں بڑھ رہی ہیں اور فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہیں ،آب و ہوا کو بہتر کرنے کے لیے انفرادی سطح پر عملی کام کرنا ہوگا اس سلسلے میں درخت لگانے کو ترجیح دینا ہوگی اورٹرانسپورٹ کی خریداری کے وقت احتیاط کرنا ہوگی۔ راشد حجازی نے کہا کہ پوری دُنیا میں کوئلے اور گیس کے پلانٹ بند ہو رہے ہیں اور ناقص پالیسیوں کے تحت اب پاکستان میں یہ پلانٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں ،درخت انسان دوست ہیں ان کو مت کاٹیں بلکہ اسمیں اضافہ کریں۔اجلاس کے اختتام پر اراکین شوریٰ نے مزید تجاویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ ٹرانسپورٹ اور صنعتی اداروں کے ذریعے ہونے والی ماحولیاتی آلودگی پر قابوپانے کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے جائیں ۔ ہمارے پاس پانی کے ذخیرے محدود ہیں ان ذخائر میں اضافے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تاکہ بروقت ضروری استفادہ کیا جاسکے۔محفوظ اور آلودگی سے پاک وطنِ عزیز کے مستقبل کی خاطر نہ صرف یہ کہ بھرپور آگہی مہم کا فوری آغاز کیا جائے بلکہ ضروری قانون سازی کی طرف توجہ بھی دی جائے اورآئندہ کے لیے اسموگ کے منفی اثرات کے خاتمے کے لیے سدِ باب کیے جائیں ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔