نوجوان وکلاء برداشت سے کام لیں ، جج اتھارٹی نہیں ذمہ داری کا نام ہے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
ملتان (خبر نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملتان انوارالحق نے کہا ہے کہ جج کی ایک ہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ جج بننے کے بعد منہ چھوٹا اورکان بڑے کر لے اب ہر جج کا پہلے سے بار سے تعلق ہوتا ہے اور وہ بار کے مسائل سے واقف ہوتا ہے اور ایسی خلیج نہیں ہے کہ کسی کو مسائل سے آگاہ کرنے کے لئے سمجھانا پڑے جبکہ بار کے مسائل براہ راست سائلوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور وکلاء کبھی بھی اپنے لئے جھگڑا نہیں کرتے ہیں اور 40 سالہ تجربے میں(بقیہ نمبر14صفحہ12پر )
ایک کیس ایسا نہیں آیا ہے کہ جج اور وکیل کا اپنی وجہ سے جھگڑا ہوا ہے اور یہ جھگڑے صرف رویوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جو ہم ماں کی گود سے ہی سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہائیکورٹ بار ملتان میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب جج اس منصب پر فائض ہوں تو اپنے رویوں کو بھی تبدیل کرنا چاہئیے کیونکہ وکیل کا اعتراض فیصلے پر نہیں بلکہ سنے نہیں جانے اور بہتر رویہ اختیار نہیں کرنے کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان وکلاء سے کہتے ہیں کہ صرف تھوڑے سے برداشت سے کام کرنا ہے جبکہ حوصلے کی توقع جج سے ہوتی ہے تاہم عمر میں بڑے ہونے کا احترام کرنا سب پر واجب ہے اور اگر دونوں طرف سے اس بات کا ہی خیال رکھ لیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے لئے اس عہدے کی مراعات سے زیادہ یہ بات قابل فخر ہے کہ عمر میں بڑے بھی احترام سے پکارتے ہیں اور اپنا مسلۂ بیان کرتے ہیں اور یہ عزت بہت ہے جبکہ جج اتھارٹی نہیں بلکہ ذمہ داری کا نام ہے کیونکہ جج نے سب کی سننی ہے اور انصاف کے تقاضے اپنے قلم اور فیصلے سے کرنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بطور جج کبھی خارج کا لفظ استمعال نہیں کیا ہے بلکہ مسکرا کر سوری کہا تو جواب میں بھی مسکراہٹ ملی ہے کیونکہ ضروری نہیں ہے ہر درخواست میں دادرسی ملے اس لئے اس پر تکرار نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جج کے لئے سب سے بڑی دعا یہ ہے کہ وہ لوگوں کیکام آئے اور فائل سے میں سے دادرسی ڈھونڈ کر دینے والا جج اس جج سے بہتر ہے جو وکیل اور سائل کو کھپا کر ریلیف دے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کو حل کرنے کے لئے صرف تھوڑی سے توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور مسلۂ کے حل کے لئے اس کی تہہ تک جانا ہوتا ہے اور یہ صرف وہی کر سکتا ہے جو تمام مراحل سے گذرا ہو جس طرح چیف جسٹس بننے کے بعد 1997ء سے چلی روایت کو ختم کر کے معمولی منشیات کے مقدمات ڈویزن بینچ کی بجائے سنگل بینچ کو بھجوائے گئے اور وقت کم ہونے پر اندر سے زیادہ طاقت ملنے کی تجربے پر اپنے دور میں کام کرنے کی کوشش کی اور ہر روز ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ بار کی جانب سے لائف ٹائم ممبر شپ دے کر انہیں محبتوں کی زنجیر میں باندھ دیا ہے اور اس اعزاز پر جتنا فخر کریں وہ کم ہے۔ قبل ازیں خطاب کرتے ہوئے صدر ہائیکورٹ بار خالد اشرف خان نے کہا کہ بار کے تمام مسائل حل کئے جائیں تاکہ انصاف کی فراہمی کے لئے احسن طریقے سے سرانجام دئیے جا سکیں۔ تقریب میں نظامت کے فرائض جنرل سیکرٹری ملک عثمان بھٹی نے انجام دئیے جبکہ تقریب میں ملتان بینچ کے جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس شمس محمود مرزا، جسٹس شاہد مبین، جسٹس فیصل زمان، جسٹس سردار احمد نعیم، جسٹس مجاہد مستقیم، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس انوارالحق پنوں، جسٹس جواد حسن اور جسٹس صادق محمود خرم، ممبر الیکشن کمیشن پنجاب جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی، لاء افسران، ممبران پنجاب بار کونسل اور مرد و خواتین وکلاء کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ہے۔ تقریب میں ہائیکورٹ بار کی جانب سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بار کی لائف ٹائم ممبر شپ، سونیئر اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا۔لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے معمولات کا آغاز کورٹ نمبر ون میں عدالتی امور سرانجام دئیے ۔ اس دوران عدالت میں مختلف نوعیت کے تین مقدمات پیش کئے گئے جن میں 2 مقدمات میں نوٹس جاری کئے گئے جبکہ ایک مقدمہ کو داخل دفتر کیا گیا ہے۔ فاضل عدالت میں خانیوال اسلام پارک کے محبوب احمد نے کونسل رانا محمد آصف سعید کے ذریعے موقف اختیار کیا تھا کہ خانیوال سٹی میں اس کی وراثتی دکان اس کے زیر قبضہ ہے اور کئی سالوں سے وہاں کاروبار کررہا تھا جبکہ دیگر وارثان نے سول کورٹ میں دعویٰ دائر کر رکھا ہے جس میں سٹے آرڈر بھی جاری ہوچکا ہے تاہم مخالفین ایس ایچ او پولیس تھانہ سٹی خانیوال نے دکان بند کرکے تالے لگواکر چابیاں اپنی تحویل میں لے لی ہیں۔ عدالت نے ایس ایچ او پولیس تھانہ سٹی خانیوال کو نوٹس جاری کرکے سماعت آج 12 دسمبر کیلئے مقرر کی ہے۔
چیف جسٹس