بھارتی جرنیل کا اعترافِ حقیقت

بھارتی جرنیل کا اعترافِ حقیقت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے جی او سی لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھٹ نے مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لئے کشمیریوں سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کا ایک محدود کردار ہے، کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو اچھے نظم و نسق اور سیاسی مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے، جس طرح اٹل بہاری واجپائی کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ بھارتی جنرل نے اعتراف کیا کہ تحریک آزادئ کشمیر کو عوام کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔انہوں نے اِن خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔بھارت کے بہت سے سیاسی رہنما اور کشمیر کی تقریباً ساری قیادت وقتاً فوقتاً کشمیر کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتی رہتی ہے، خود حکومت کے اندر بھی بہت سے حلقے نریندر مودی کو خبردار کرتے رہتے ہیں کہ اگر کشمیر میں جبرو تشدد کی کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں اور کشمیریوں کو طاقت کے ذریعے دبانے کی روش ترک نہ کی گئی، تو کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا،بھارت کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے جتنے بھی وفود بھیجے اُن سب نے واپس آ کر یہی رپورٹ دی کہ کشمیر میں تشدد کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن بھارتی وزیراعظم کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی اور وہ طاقت کے استعمال کے راستے پر بھگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں۔
اب بھارتی فوج کے ایک تھری سٹار جرنیل نے بھی کشمیر کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر زور دیا اور یہ تک تسلیم کر لیا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے اِس سے پہلے بھی بعض جرنیل اِس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں،حالانکہ بھارتی آرمی چیف تو اکثر و بیشتر پاکستان کو دھمکیاں دینے سے نہیں چوکتے ’’ایک اور سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں۔البتہ اب تک یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ ’’پہلا سرجیکل سٹرائیک‘‘ کب اور کہاں ہوا تھا۔ بھارتی آرمی چیف کی اِن دھمکیوں کے علی الرغم اگر اُن کا ماتحت ایک جرنیل اپنی حکومت کو مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیتا ہے اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو وہاں کے عوام کی اکثریت حاصل ہے تو اِس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہو جاتا ہے کہ کشمیر کے زمینی حقائق وہاں کے جرنیلوں کو بھی اعترافِ حقیقت پر مجبور کر رہے ہیں۔ بھارتی جرنیل سے یہ امید تو نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی سیدھے سبھاؤ حمایت کر کے اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال دیتے یا پھر غداری کے مقدمے کا سامنا کرتے، لیکن ایک حاضر سروس جرنیل کا یہ کہنا بھی کافی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سیاسی طور پر ہی حل کرنا چاہئے، اس میں یہ مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ طاقت کے زور پر مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جا سکتا۔
جب بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی بات ہوتی ہے اور مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تو بھارتی حکمران بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ کشمیر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں جس پر مذاکرات کئے جائیں، کیونکہ وہاں باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں جن میں عوام کی رائے سامنے آ جاتی ہے،لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان نام نہاد انتخابات میں کتنے فیصد ووٹ پڑتے ہیں، دو فیصد یا ڈھائی فیصد، ابھی حال ہی میں ریاست میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوئے ہیں،جن میں ایسے پولنگ سٹیشن بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، جہاں ایک ووٹر بھی ووٹ ڈالنے نہیں آیا، کئی مراحل پر پھیلے ہوئے ان انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ عام انتخابات سے بھی کم تھا، اِس لئے یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات، رائے شماری کا متبادل ہیں اور ان کی بنیاد پر یہ دعویٰ محلِ نظر ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تو سرے سے موجود ہی نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں حالات جس نہج پر جا چکے ہیں اور کشمیری عوام شہادتوں کے ذریعے جو نئی تاریخِ حریت رقم کر رہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی ہوش مند یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا کہ طاقت کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی اس جدوجہد کو دبایا جا سکتا ہے، ریاست میں کشمیریوں کی تحریک کا ایک تسلسل ہے اور آزادی کی عالمی تحریکوں کی طرح یہ مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے، لیکن جو چیز کشمیریوں کی اِس تحریک کو دُنیا کی ساری تحریکوں سے ممیز اور ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ تیس سال کے عرصے میں کوئی ایک مرحلہ بھی ایسا نہیں آیا جب یہ تحریک دب سکی ہو، دنیا کی کوئی تحریک اتنے لمبے عرصے کے لئے نہیں چل سکی۔ اِس وقت تو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس میں پیش پیش ہیں اور سینے پر گولیاں کھا کر ہر روز آزادی کی کتاب میں نئے درخشاں باب لکھ رہے ہیں، غالباً ایسے ہی حالات نے بھارتی جرنیل کو بھی اعترافِ حقیقت پر مجبور کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے اندر اُٹھنے والی ہوش کی اِن آوازوں کو سننے والا بھی کوئی ہے یا نہیں؟ مودی نے اگلے برس ہونے والے انتخابات بھی مسلم دشمنی کی بنیاد پر جیتنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور ابھی سے مسلم مخالف جذبات کو ہوا دے کر انتہا پسند ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے کسی بھی مظاہرے کا مثبت جواب دینے کے لئے آمادہ نہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی سکھوں کے مطالبے پر کرتارپور کوریڈور کھولنے کی تیاریوں کے سلسلے میں منعقدہ تقریب میں جن دو مرکزی وزراء نے شرکت کی، انہوں نے بھی واپس جا کر مودی کی خوشنودی کے لئے نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف بیان بازی کی،یہاں تک کہ انتہا پسندوں نے انہیں قتل کرنے کے لئے ایک کروڑ روپے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی ہے۔
سدھو نے اگر راہداری کھولنے کے اقدام پر پاکستان کی تعریف کر دی تو یہ کوئی ایسا کام نہیں تھا،جس پر اُنہیں قتل کی دھمکیاں دی جاتیں۔یہ تو ایسا اقدام تھا،جس کی بنیاد پر بھارت مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے تنازعات کے تصفیہ کی راہ ہموار کر سکتا تھا،لیکن اُس نے اِس سے بھی فائدہ نہیں اُٹھایا، اُلٹا اپنے ہی ایک ریاستی وزیر کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے لئے انتہا پسندانہ آوازوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،جہاں تک بھارتی آرمی چیف کی سرجیکل سٹرائیک دھمکیوں کا تعلق ہے اِس کا ایک شافی جواب تو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ جب بھارت حملہ کرنے آئے گا اُس وقت اُسے عملی جواب مل جائے گا۔ البتہ بھارتی جرنیل نے کشمیریوں کے ساتھ سیاسی مذاکرات کی جو بات کی ہے اِس سے اتنا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ بھارتی فوج کے سارے جرنیل اپنے چیف جنرل راوت کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتے اور اِس کے برعکس خیالات کا اظہار بھی بلا خوف و خطر کر دیتے ہیں۔اِن حالات میں بھارتی قیادت کو انتہا پسندانہ سوچ ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہئے اور نہ صرف کشمیریوں کے ساتھ،بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی پُرامن تصفیے کے لئے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -