بہتر ہے کہ نہ ڈالو ستاروں پہ کمندیں۔۔۔
گزشتہ دِنوں خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مریخ کی ساخت کا مشاہدہ کرنے کے لئے ان کا مشن انسا ئٹ پروب کامیابی سے مریخ کی سطح پر اُتر چکا ہے،جسے نہایت خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ مشن سائنس دانوں کو زمین سے کروڑوں میل دور کے سرخ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں بہت بڑی پیش رفت فراہم کرے گا۔
وہ وقت دور نہیں،جب انسان دوسرے سیاروں پر بسیرا کرکے وہاں کے وسائل سے بھی بھر پور استفادہ کر سکے گا اور یوں انسانی ترقی اپنی معراج کو جا پہنچے گی۔
اگر سائنسدان اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ اس صدی ہی نہیں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہوگا ، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو صورتِ حال نہایت مایوس کن نظر آتی ہے کہ عین اسی لمحے جب انسان منزلوں پہ منزلیں مارتا ہوا ستاروں پر بھی کمندیں ڈال چکا ہے، تب انسانیت سسک سسک کر مر رہی ہے ۔ بقول شاعر:
بہتر ہے کہ نہ ڈالو ستاروں پہ کمندیں
انساں کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک ارب سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جن میں 80فیصد سے زیادہ صحرائے اعظم کے جنوب افریقہ اور جنوبی ایشیا میں بستے ہیں ۔ اگر اعدادوشمار کے چکر میں نہ بھی پڑا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی ہماری زمین کے کتنے فیصد افراد بھوک اور ننگ و افلاس کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ صحت کے مسائل سے دوچار افراد کی تعداد کروڑوں سے بھی متجاوز کر چکی ہے، جس کی وجہ سے اَ ن گنت افراد مختلف بیماریوں میں مبتلاہو کر راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔دُنیا کی7بلین آبادی میں کئی ملین افراد ایسی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جن کی ابھی تک تشخیص ہی نہیں ہو سکی، علاج تو دور کی بات ہے اور لاتعداد بیماریاں ایسی ہیں، جن کا علاج تو دریافت ہو چکا ہے، لیکن عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔
مثال کے طور پردُنیا بھر میں ہر سال 14ملین افراد کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں سے 8ملین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ان میں سے 75فیصد کا تعلق غریب ممالک سے ہے، جن پر توجہ دینے کی اشدضرورت ہے، جس کے لئے میڈیسن کے شعبے میں ریسر چ کو مزید وسعت دی جائے اور نئے ریسرچ سنٹر بنا کر تحقیق کا دائرہ کار بڑھایا جانا نہایت ضروری ہے ۔
کتنے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قدر تیز رفتار ترقی کے باوجود کرۂ ارض پر کئی ممالک ایسے ہیں،جن کے باشندے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں، اچھی صحت ،اپنا گھر اور سوشل سیکیورٹی تو وہ لوازمات ہیں، جن سے آدھی دُنیا واقف ہی نہیں، المختصر بہتر معیار زندگی اربوں زمین واسیوں کے لئے خواب کی سی حیثیت رکھتی ہے، جو:
عصائے مرگ تھامے زندگانی
میرے سانسوں کا ریوڑ ہانکتی ہے
کے مصداق زندگی کی گاڑی کو کھینچ کھینچ کر اس قدر تھک ہار جاتے ہیں کہ بالآخر سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے اپنے سیارے کے لوگوں کی زندگی کو بہتر کیا جائے۔
اگر صرف تحقیق کا رخ مثبت سمت میں موڑ دیا جائے اور مناسب اقدامات اُٹھائے جائیں، تو بہت سارے عوامل ایسے ہیں کہ زمین نامی اس سیارے کے باسیوں کے لئے کافی بہتر حالات مہیا کئے جا سکتے ہیں ۔
باقی نئے سیاروں کی کھوج انسانی فطرت کا حصہ بن چکی ہے اور وہ اس وقت تک جستجو میں لگا رہے گا، جب تک کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پائے ۔اب یہ سب کچھ کسی عام انسان کے لئے تو فی الوقت صرف دلچسپی کا سامان ہے، لیکن سائنس دان کافی سنجیدہ ہیں۔
خیر راقم ذاتی طور پر سائنس کا سٹوڈنٹ ہے اور نت نئی ایجادات کا حامی، لیکن کسی دوسرے سیارے پر زندہ رہنے کے لئے زمین جیسا ماحول پیدا کرنا اگر ناممکنات میں شامل نہیں، تو ممکنات کے قریب ترین بھی نہیں، پھر ان چیزوں پر اتنا زیادہ وقت ضائع کرنا سمجھ سے بالاتر لگتا ہے ۔
بہرحال تھوڑے وسائل کا صحیح استعمال کر کے اگر اپنی زمین پر بہتری کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو زیادہ دور رس نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں اورکم از کم ہماری خواہش تو یہی ہے کہ اپنے سیارے کی خوشحالی پر توجہ دینے کے بعد کسی او ر نئی دُنیا کی تلاش کے لئے طویل مسافتوں کا سامان باندھا جائے ۔