ملائشیا کی اقتصادی صورت حال اور پاکستان
اس وقت ہر طرف پاکستان کی کمزور معیشت کی بات ہو رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان اپنے ہر خطاب اور ہر اجلاس میں ہی ملکی معیشت کی ترقی اور قرضوں کی ادائیگی کی بات کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے وزیر خزانہ اسد عمر بھی دن رات پاکستان کے اقتصادی اور معاشی حالات کو بہتر کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
ان دنوں جناب عمران خان نے چین، سعودی عرب، ملائشیا، امارات کے کامیاب دورے کئے ہیں اور ان ممالک کی اقتصادی ترقی کے ماڈل کا بغور مشاہدہ اور ان کا اپنے ملک پاکستان میں نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ خصوصاً ملائشیا کے دورے میں انہوں نے ملائشیا کی اقتصادی ترقی کو سراہتے ہوئے پاکستان میں بھی اس ماڈل کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے تقریباً دس سال بعدایشیا کے جنوب مشرق میں 14ریاستوں پر مشتمل ایک ملک آزاد ہوا، شدید جنگ اور کمزور ملکی معیشت کے باوجود حالات یہ ہیں کہ ملائشیا کا جی، ڈی، پی 2014ء میں 338ملین ڈالر تھا۔
ایک وقت تھا، جب پنجاب یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں ملائشیا کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے اور پاکستان دوسرا خصوصاً تیسرا پانچ سالہ منصوبہ نہ صرف ملائشیا میں پڑھا یاگیا، بلکہ ان کا نفاذ بھی ہوا۔ ملائشیا کی معیشت نے کئی اقتصادی بحران بھی دیکھے، لیکن لیڈر شپ کا مخلص اور محب وطن ہونا اور احتساب کا عمل بہترین ہونا اور درست پالیسیاں ملائشیا کو آج ایک عظیم ملک کی جانب لے گئی ہیں، مہاتیر محمد جن کو اگر عظیم راہنما کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
اپنے عظیم فیصلوں کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں، ملائشیا نے عالمی سطح پر اسلامی بینکنگ کا نفاذ کیا اور اسلامی دنیا میں پہلا اسلامی ملک بنا، جس نے اسلامی فنانس پیکج جاری کیا۔1983ء میں جاری ہونے والا پیکج مغربی دنیا خصوصاً برطانیہ میں بہت سراہا گیا اور اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2012ء میں اپنے ملک میں بھی اس نظام کی حمایت کی، جس سے برطانیہ جیسے ملک کی 1.2ملین پاؤنڈ کی ملائشین جیسے ملک میں سرمایہ کاری ہوئی اور بینک میں اسلامی ہولڈ اور شرعی نظام نافذ ہوا۔
اگر ہم سو دن نظام کی بجائے اپنے وطن عزیز میں یہی نظام ہی نافذ کردیں تو ہم مضبوط معیشت کی جانب جاسکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملائشیا نے سرمایہ کاری اور سرمایہ دارانہ نظام سے ہی ملکی ترقی حاصل کی اور 2018ء میں ملائشیا کا جی، ڈی، پی 54فیصد بڑھنے کا عندیہ ہے۔ ملائشیا نے نجی شعبۂ پر خصوصاً سرمایہ کاری کی 1997ء کے اقتصادی بحران کے موقع پر جبکہ سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری بڑھی، تب بھی مہاتیر محمد نے IMFکی ملائشیا میں عمل دخل کی سختی سے مخالفت کی، جو کہ ایک سخت فیصلہ تھا، انہوں نے اس موقع پر بھی نجی شعبۂ اور اپنے ملک کی کمپنیوں پر انحصار کیا اور اس فیصلے کی ترقی کی جانب مثال آج تک نہیں ملتی۔
دوسرا ملائشیا میں پراپرٹی اور زمینوں کا بہترین نظام بنایا گیا جوکہ ایک مضبوط مالی نظام بنا، جس میں ملائشین اور غیر ملائشین کی روایات کو توڑا گیا اور آمدنی کے عدم توازن کو بھی درست کیا گیا اور مزدوروں کی آمدنی کو درست کیا گیا، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔
معاشی اخراجات کو قابو میں رکھا گیا اور ٹیکس اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنایا گیا، پنشن کے نظام اور تعلیمی نظام پر توجہ دی گئی، جس سے آج ملائشیا کی یونیورسٹیوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ دوسری دنیا اور مغرب سے طلبہ آتے ہیں۔
اپنے وسائل یعنی کوئلہ، جنگلات اور سیاحت وغیرہ پر توجہ دی گئی، ملائشیا آج پام آئل کی عالمی مارکیٹ میں سب سے بڑا ملک ہے، ملائشیا آج کل اپنے گیارہویں پلان 2020ء پرعمل پیرا ہے۔
غرض پاکستان کو بھی ملائشیا کے ان نکات پر عمل کرنا چاہئے، ملائشیا کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے اور ملائشیا سے مضبوط سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات بنائے جائیں، ہم ملائشیا کو ان کی افواج اور دفاعی نظام میں مدد کر سکتے ہیں۔ غرض اس تجارت سے ہمیں بھی فائدہ ہوگا اور ملائشیا کو بھی، محب وطن حکمرانوں اور درست پالیسیوں کا ہونا اب پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔