اک شخص سارے عالم کو ویران کر گیا(1)

اک شخص سارے عالم کو ویران کر گیا(1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

9ربیع الاول 1440 بمطابق 18نومبر 2018ء بروز اتوار صبح ایک عظیم حادثہ اور اہلِ اسلام اور دین اسلام کی اشاعت کی فکر رکھنے والے ہر شخص پر یہ اندوہناک خبر آسمانی بجلی بن کر گری کہ طلوعِ آفتاب سے قبل، آفتاب ہدایت اور ماہتاب دین اِس دُنیا کے باسیوں کو داغِ مفارقت دے کر جا چکے ہیں۔

جنہوں نے دُنیا بھر میں اپنی تمام تر قوتوں، صلاحیتوں اور تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دین اسلام کی روشنی اور مسلمانوں میں دین پر چلنے کی عملی کوشش اور صلاحیت پیدا کرنے کا جذبہ اور درد بیدار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہر آنے والے شخص کے لئے اور ہر جانے والے شخص کے لئے ایک ہی پیغام تھا:
’’اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہو نے کا یقین‘‘
ہماری زندگی کا عملی حصہ بن جائے۔ دعوت و تبلیغ کے نام سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد کم و بیش ایک صدی پر محیط ہے۔ تاریخ دعوت و تبلیغ بقول حضرت سید سلیمان ندویؒ کے۔۔۔1921ء میں ہندوستان میں آریوں کی کوشش سے جاہل نومسلم دیہاتی علاقوں میں ارتداد کی آگ پھیلی،اس آگ کو بجھانے کے لئے ہر چار طرف مسلمان کھڑے ہو گئے۔

بہت سی تبلیغی انجمنیں بنیں، ہزاروں روپے کے چندے ہوئے، مبلغین جگہ جگہ پھیلائے گئے، مناظرین اسلام نے بحث و مناظرے کے میدان گرم کئے اور کئی سال تک یہ کام بڑی دھوم دھام سے ہوتا رہا۔ آخر آہستہ آہستہ جوش و خروش کم ہوتا گیا۔ ایک ایک انجمن ٹوٹ گئی، چندوں کی کمی سے مبلغین چھٹتے گئے، مبلغین کے بلاوے بھی گھٹتے گئے اور بالآخر سمندر میں سکون پیدا ہو گیا۔

اس ناکامی کی وجوہ کیا تھیں؟ یہ سارا تماشا کام کرنے والوں کے دِل کی لگن کا نتیجہ نہ تھا اور نہ مبلغین و مناظرین و داعیان کے دِلوں میں دین کی دھن تھی اور دینی دعوت اور باطنی ارشاد و تبلیغ بازار کی قیمت سے خریدی نہیں جا سکتی۔

اسی صدی کے تیسرے عشرے میں ایک طرف آریوں کی کوشش سے ارتداد پھیل رہا تھا تو دوسری طرف برصغیر پر قابض انگریز بھی اپنے عیسائی مبلغین اور پادریوں کے ذریعے مسلمانوں کو دینِ اسلام سے ہٹانے کی کوشش میں مصروف تھے، چونکہ دین اسلام کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے قیامت تک اپنے ذمے لے رکھا ہے،جس کے لئے مختلف مواقع پر اللہ ایسی صورت پیدا کر دیتا ہے،جو اسلام کے لئے نئے سرے سے آبیاری کا کام دیتی ہے۔

جیسے فتنہ تاتار کی اسلام کے خلاف تباہ کر دینے والی صورتِ حال کے بعد اللہ نے انہی میں سے اسلام کے محافظ پیدا کر دیئے۔ اسی طرح برصغیر میں اسلام کی حفاظت اور اس کی آبیاری کے لئے جہاں اور بہت سی شکلیں مدارس اور خانقاہوں کی صورت میں چل رہی تھیں اور بڑے بڑے علماء جن میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔

جیسے خاندان ولی اللہ کا ایک طویل سلسلہ جس میں مصنفین، مفسرین اور محدثین کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور آگے چل کر حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور حضرت سید سلیمان ندویؒ اور اکابر علمائے دیو بند اور علمائے ندوۃ العلماء وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔
لیکن ایک ہر اعتبار سے کمزور اور ناتواں شخصیت جو ظاہر کے اعتبار سے کمزور سے کمزور تر اور روحانی قوت کے اعتبار سے مضبوط تر تھی،یعنی حضرت مولانا محمد الیاسؒ ، ان سے اللہ نے صحیح ورثتہ الانبیاء اور صحابہ والا دعوت و تبلیغ کا جو کام لیا اس نے اپنے اثرات پورے عالم کے ہر ایک خطہ میں ڈالے۔ اسی کام میں حصہ لینے کے لئے ہمارے شیخ اور ہمارے بزرگ حضرت حاجی عبدالوہاب صاحبؒ جنوری 1944ء میں ہندوستان کے شہر دہلی پہنچے۔ حضرت حاجی صاحب ؒ 7جون1922ء کو انڈیا کے علاقے سہارنپور میں پیدا ہوئے۔

آپ کا آبائی گاؤں راؤ گمتھلہ تحصیل نیسر ضلع کرنال انبالہ ڈویژن ہے۔ ہجرت کے بعد آپ پہلے اپنے خاندان سمیت پھلروان ضلع سرگودھا منتقل ہوئے، جہاں پر اکثر و بیشتر آپ کے خاندان کے لوگ کاروبار زمینوں میں سیٹ ہو گئے، تاہم حاجی صاحب کے والد اور بھائیوں کو ضلع وہاڑی تحصیل بورے والا کے چکEB331 ٹوپیاں والا میں جگہ الاٹ ہوئی۔

ابتدائی تعلیم انبالہ کے سکول سے حاصل کی۔ گریجویشن اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے کی، جہاں پر دوران تعلیم آپ میں مذہبی رجحانات فروغ پاتے رہے اور طلبہ میں کلمہ و نماز کی محنت کرتے رہے، چنانچہ اسی دوران کا واقعہ ہے کہ اپنے ایک دوست سے جو آگے چل کر امریکہ منتقل ہو گئے تھے(اور نماز نہیں پڑھتے تھے) ان کے پاس جا کر رو پڑے کہ بھائی تو نماز کیوں نہیں پڑھتا اور فجر سے قبل ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج، لاہور سے شیرانوالہ پیدل حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی خدمت میں فجر کی نماز باجماعت پڑھ کر درس قرآن سنتے اور واپس آ کر غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر کلاسوں میں حاضر ہوتے تھے۔

فراغت کے بعد کچھ عرصہ ملازمت کی۔ پھر 7جنوری 1944ء میں دینی فکر اور جذبہ لے کر نظام الدین مولانا الیاس صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا پر ہر آنے والے شخص کو دعوت و تبلیغ والی محنت میں جوڑنے کا جذبہ سوار تھا۔اسی کو مولانا نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔ حضرت حاجی صاحب نے بھی اپنے آپ کو مولانا والی فکر میں ڈھال لیا۔

کچھ عرصہ کراچی میں ملازمت کے دوران دفتر آتے جاتے تو اسی نیت سے آتے جاتے کہ آج فلاں سے ملنا ہے اور اسے اس طریقے سے دین کی طرف لگانا ہے۔ الغرض وقت گذرتا گیا۔
تقسیم ہند1947ء کے وقت جبکہ حاجی صاحب نظام الدین میں تھے اس وقت کے امیر حضرت مولانا محمد یوسفؒ نے آپ کی جماعت بنا کر دہلی سے لاہور کی طرف روانہ کیا۔بقول حاجی صاحب کے گاڑی میں جتنے سوار تھے، کم و بیش سب ہی ہندوؤں، سکھوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ آپ کے ساتھ اس موقع پر بھائی اکرام صاحب، ارشاد صاحب اور بھائی ادریس صاحب لاہور والے تھے،جنہوں نے ایک موقع پر کہا کہ باہر چلتے ہیں،آپ نے فرمایا نہیں،یہ جہاد نہیں فساد ہے، آپ نے تعلیم کے حلقے قائم کرتے ہوئے اور اللہ نے وظائف اور دیگر معمولات پڑھنے کی بناء پر ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت فرمائی اور سب ساتھی بحفاظت لاہور سٹیشن پہنچ گئے۔

ابتداء میں رائیونڈ کی مختلف مسجدوں کو اپنا مسکن بنایا۔ تاہم بعدازاں میاں جی محمد عبداللہؒ کی طرف سے کچھ زمین مرکز کے لئے وقف کر دینے پر اسی جگہ کو اپنا ڈیرہ بنا لیا، جہاں پر تبلیغی جماعتوں کی آمدورفت اور دیگر تبلیغی مصروفیات شب و روز کا مشغلہ تھیں۔ حاجی صاحب میں علماء اور اہل علم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

ہر آنے والے کی خبر گیری کرنا اور کام میں لگے ہوئے ایک ایک شخص کا حال معلوم کرنا اور اس کے بچوں کو اور گھر کے افراد کو یاد رکھنا۔ اللہ نے آپ کو خاص ملکہ عطاء فرمایا تھا۔

حاجی صاحب کے پاس آنے والا ہر شخص محسوس کرتا تھا کہ حاجی صاحب کو مجھ سے ہی خاص تعلق ہے۔ حاجی صاحب کی اس ادا نے ہی انہیں ہر خاص و عام کی نظروں میں محبوب بنا دیا تھا۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -