موسم سرما کی بارش، جڑواں شہروں کا موسم بہتر، امراض میں کمی ہو گی
اسلام آباد سے سہیل چوہدری
دارالحکومت کے موسم میں تبدیلی آرہی ہے ، سرد موسم سرد تر کی جانب بڑھ رہاہے ، موسم سرما کی بارشوں کے سلسلہ کا آغاز ہوگیا ہے جس کی بناء پر وفاقی دارلحکومت کی عمارتیں اور گرد آلود درخت دھل گئے ہیں اور اسلام آباد نکھر ا نکھرا نظر آرہاہے ، آلودگی میں نمایاں کمی نظر آرہی ہے، گلے اور سانس کی بیماریوں میں نمایاں کمی متوقع ہے، جڑواں شہروں میں بارشوں کی کمی کے باعث گلے اور چھاتی کے انفیکشن و الرجی کے مریضوں میں اضافہ ہورہاہے ، لیکن بارشوں کے حالیہ سلسلہ سے ایسے مریضوں کو ریلیف ملا ہے ، فضائی آلودگی اور درجہ حرارت دونوں میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ملکہ کوہسار مری میں سیزن کی پہلی برف باری کا آغاز ہوا،لیکن بصد افسوس سیاسی آلودگی میں کمی ہوئی نہ ہی سیاسی کشیدگی کے پارے کی اونچائی میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے ، سیاسی رواداری کا کلچر گہنا گیاہے نوزائیدہ جمہوریت میں جو چھوٹی موٹی پارلیمانی روایات نے جڑ پکڑی تھی وہ ناپید ہوتی نظر آرہی ہیں ،نئے پاکستان کے دارلحکومت میں سیاسی طورپر اضطراب ، معاشی بے سکونی اورسماجی طورپر بے چینی کی فضاء میں اضافہ ہوتا نظر آرہاہے ، اعظم سواتی کا بطور وفاقی وزیر اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ حکومت کے ’’نئے پاکستان ‘‘کے دعویٰ میں ایک ٹیسٹ کیس تھا جس میں حکومت کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دی بالاخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہی حکومت کو اعظم سواتی کے سکینڈل کے مخمصے سے باہر نکالا ، حکومت نے ’’دیر کردی مہرباں آتے آتے‘‘ کے مصداق تاخیر سے فیصلہ کیا جس کے سیاسی مضمرات حکومت کو سمیٹنے پڑے ، قومی اسمبلی میں صورتحال جوں کی توں ہے ، حکومت پارلیمانی روایت کے مطابق اپوزیشن رہنما شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی صدارت دینے کیلئے آمادہ نہیں جبکہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس ایشو پر ڈٹ گئی ہیں ، جس کی بناء پر سٹینڈنگ کمیٹیوں کا کام بھی کھٹائی میں پڑا ہواہے ، اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس ڈیڈ لاک کے توڑنے میں کیا تدبیر اختیار کرتی ہے ، لیکن اس ڈیڈ لاک کی بناء پر قانون سازی کا عمل متاثر ہورہاہے اس تناظر میں ایوان کی سو دنوں کی کارکردگی قابل فخر نہیں سمجھی جا سکتی۔ معاشی محاذ پر کوئی قابل ذکر کامیابی نہ ملنے کے الزامات کے سائے میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی وزارت کی تبدیلی کی اطلاعات بھی تاحال قیاس آرائیوں کے ماحول میں ہیں، وفاقی وزراء کی سو روزہ کارکردگی جانچنے کیلئے وفاقی کابینہ کا طویل ترین اجلاس ہوا لیکن عوام اور اپوزیشن کی توقعات کے برعکس اس کا نتیجہ سامنے آیا ، اگرچہ فرزند راولپنڈی اس ملاکھڑے میں اول آئے لیکن عوام کی نظروں میں فیل ہونے والوں کو بھی پاسنگ مارکس مل گئے ، نئے پاکستان میں حکومت کے احتساب کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے نعرے تاحال دعوے ہی نظر آرہے ہیں،
ایوان صدر کے دروازے عام آدمی کے لئے کھول دیئے گئے ہیں، صدر عارف علوی خود بھی عام آدمیوں میں گھل مل گئے ، عادم آدمیوں کو خوابوں سے ہٹ کر حقیقت میں بھی صدارتی محل کو اندر سے دیکھنے کو موقع مل گیا ، لیکن سیاسی مخالفین اور اپوزیشن جماعتیں منتظر ہیں کہ کب پی ٹی آئی حکومت کے دلوں کے دروازے کھلیں گے تاکہ ملک سیاسی انتشار کی کیفیت سے باہر آسکے اور ملک کے سیاسی حالات معمول پر آسکیں اور پاکستان ایک نارمل ملک بن سکے ، گزشتہ ہفتے پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی پاکستان کے ایک نارمل ملک بننے کے حوالے سے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا تھا ، انہوں نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک بھر پور پریس کانفرنس کی تھی جس میں ملک کو داخلہ اور خارجہ محاذ پر درپیش چیلنجز کا احاطہ کیا گیا تھا ، جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس اگرچہ کافی عرصہ بعد ہوئی تھی تاہم ان کے زور بیان کی بازگشت تاحال جاری ہے ، انہوں نے دو ٹوک اندازمیں بھارتی آرمی چیف کے پاکستان سے متعلق بیان پر بھرپور رد عمل دیا اور ان کے خوب لتے لئے ویسے یہ دلچسپ امر ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے بھی سیاسی بیانات دینا شروع کر دیئے ہیں ، بھارتی آرمی چیف نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان پہلے سیکولر ملک بنے پھر اس سے مذاکرات ہونگے یہ انوکھا مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب بھارت جیسے آئینی طورپر سیکولر ملک میں ہندو انتہاء پسندی کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے ، بھارت میں مذہبی اقلیتی ریاستی پالیسی کے تحت شدید خطرے میں ہیں ، ترجمان پاک فوج جنرل آصف غفور نے قوم کو متنبہ کیا کہ ہم اس وقت واٹر شیڈ پر کھڑے ہیں اس سے آگے حالات بہت بہتر بھی ہوسکتے ہیں اور بہت خراب بھی ، درحقیقت انہوں نے حکومت اور اپوزیشن سمیت پوری قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ، انہوں نے اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی قوم کے نام پیغام دیا کہ ملک کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ تعمیر کررہے ہیں اور اپنا وژن بیان کیا کہ ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور طاقت کے استعمال کا استحقاق صرف ریاست کے پاس ہو، جبکہ کوئی شخص ادارے اور کوئی ادارہ ملک سے بالا تر نہ ہو ، بہتر ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس پیغام کی سنجیدگی کا ادراک کریں اور مل جل کر افہام و تفہیم سے ملک کو در پیش بحرانوں سے باہر نکالیں ، حکومت کی ذمہ داری اپوزیشن سے زیادہ ہے۔ جنرل آصف غفور نے پشتوں تحفظ موومنٹ کے جذبات کو کسی حد تک جائز قرار دیتے ہوئے ان کے ازالہ کے لئے اقدامات کا بھی ذکر کیا لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے وارننگ دی کہ ریڈ لائن کو عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ، پاک فوج کے ترجمان نے میڈیا سے بھی اپیل کی کہ صرف 6ماہ مثبت خبروں کو جگہ دے تو حالات بدل جائیں گے ، انہوں نے میڈیا انڈسٹری کو درپیش مشکلات کے ازالہ کے لئے اپنے کردار سے بھی آگاہ کیا ، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ افغان مسئلہ کے حل کے لئے پاکستان جتنا کردار ادا کرسکتا ہے کرے گا۔وزیراعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ سے ایک انٹرویو میں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے دو ٹوک موقف اپنایا ہے انہوں نے واضح کیا کہ ’’کوئی دوست ملک ڈرون حملے نہیں کرتا!انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ سے چین جیسے تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے کرائے کے قاتل ہیں نہ امریکہ کی بندوق بنیں گے ‘‘درحقیقت پاکستان نے واضح کیا ہے کہ قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اب امریکہ کو بلیم گیم سے نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں افغان ایشو کو دیکھنا پڑے گا، کیونکہ بلیم گیم دباؤ کا ایک ہتھکنڈہ ہوسکتاہے مسئلے کا حل نہیں ہے۔
امریکہ نے نہ صرف افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کا آغاز بھی کر رکھا ہے، ماضی میں امریکہ کا سخت موقف تھا کہ وہ افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا، تاہم کابل انتظامیہ کو افغان طالبان سے مذاکرات کی ذمہ داری دے رکھی تھی، جبکہ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ کابل کی کٹھ پتلی حکومت سے نہیں بلکہ امریکہ سے براہ راست بات چیت کرینگے ، اب امریکہ کے موقف میں لچک پیداہوئی ہے جبکہ امریکہ نے اس ضمن میں خطے کے دیگر ممالک بشمول روس اور چین کے کردار کو بھی تسلیم کر لیا ہے ، امریکی رویہ میں اس تبدیلی کا کریڈٹ پاکستان کو جاتاہے۔