گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی گئی،کسان کو نقصان ہو گا

گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی گئی،کسان کو نقصان ہو گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


شوکت اشفاق

وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی وسط مدتی انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے وزیر اعظم عمران خان کے اس حوالے سے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے وزیر خارجہ نے وفاقی وزراء کے قلمدانوں خصوصاً وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی تبدیلی کے امکان کو بھی رد کر دیا اور موجودہ معاشی صورتحال کو پچھلی حکومتوں کی کی ناکام کارکردگی قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ پاکستانی روپیہ جلد مستحکم ہو گا جبکہ ملک کو در پیش معاشی مسائل جلد حل ہوں گے ملتان کے دو روزہ دورے کے دوران مختلف تقاریب میں وزیر خارجہ نے پاک امریکہ تعلقات کو بہتر قرار دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو اپنا موقف قرار دیا اور کہا کہ امریکی صدر کو سمجھ آگئی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے انہوں نے کشمیر کے مسئلہ پر تمام ملکی سیاسی جماعتوں کا ایک موقف قرار دیا اور کہا کہ آئندہ برس 15 فروری کو لندن میں مسئلہ کشمیر پر دنیا کی توجہ کرانے کے لئے ایک اجتماع کیا جائے گا تاہم انہوں نے کرتار پور راہداری کھولنے کے فیصلے کو دنیا بھر کی سکھ برادری کی خوشی قرار دیا اور اس حوالے سے بخوت سنگھ سدھو کے متعلق بھارت میں منفی رد عمل کی مذمت اور افسوس کا اظہار کیا دوسری طرف مخدوم شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا اور کہا یہ ہمارے منشور کا حصہ ہے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان تینوں ڈویژنوں کی اپنی اہمیت ہے لیکن ملتان ہر لحاظ سے جنوبی پنجاب کا اہم شہر ہے جبکہ الگ صوبے کے قیام کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
معلوم نہیں کہ وفاقی وزیر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے کیا کہنا چاہتے ہیں کیونکہ اس وقت دو بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لئے قانون سازی میں مدد دینے کی غیر مشروط آمادگی ظاہر کر رکھی ہے نہ صرف یہ بلکہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے تو وزیراعظم عمران خان کو اس حد تک کہہ دیا تھا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں گے پیپلز پارٹی دو قدم بڑھائے گی، مسلم لیگ ن نے بھی اس حوالے سے قانون سازی میں مدد دینے کی حامی بھر لی ہے اب ایسی صورت میں تحریک انصاف کے پاس کوئی سیاسی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ قانون سازی کے لئے اپوزیشن کا اس انداز میں ساتھ دینے کے لئے آمادگی ظاہر کرنا ان کا اس مسئلے کے ساتھ سنجیدگی ظاہر کرتا ہے لیکن حکومتی بنچوں سے ڈھیلے بیانات سے الگ صوبے کے قیام کے کاز کو نقصان پہنچتا نظر آرہا ہے کیونکہ یہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے کسی اہم مسئلے پر حکومت کو غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی کرائی ہو اب تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی مثبت آمادگی پر قدم ااگے بڑھائے اور جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لئے قانون سازی کا کام عملی طور پر شروع کرایا جائے تحریک انصاف کی حکومت کے پاس یقیناًقانون سازی کو جاننے والے پارلیمنٹرین ضرور ہوں گے اگر ایسا نہ کیا گیا تو جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی حکومت ساز جماعت کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت بھی یہ علاقہ ملکی معیشت میں زراعت کے ذریعے اہم ترین کردار ادا کرتا ہے لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر کپاس کی درآمد کی اجازت، گنے کی کرشنگ شروع نہ ہونا اور کھاد سمیت دوسری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے اس علاقے کے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے انہیں توقع تھی کہ موجودہ حکومت ان کے لئے سود مند پالیسیاں سامنے لائے گی لیکن توقعات کے برعکس حالات نے کاشتکاروں کو پریشان کر دیا ہے جس کے لئے وہ حکومت سے توقع کر رہے ہیں کپاس کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لئے درآمدی پالیسی پر فوری نظر ثانی کی جائے جبکہ شوگر ملز مالکان کو سرکاری ریٹ پر بغیر کٹوتی کے گنا نقد خریداری پر پابند کیا جائے ورنہ کاشتکار اگلی فصل کاشت کے قابل نہیں رہیں گے۔ اب حکومت ان کے ان بنیادی مسئلے پر توجہ کرتی ہے کہ نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن دوسری طرف احتساب اور کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کی شرط پر عوام سے ووٹ حاصل کرنے والی حکمران جماعت نے پہلے ڈائریکٹر جنرل پنجاب انٹی کرپشن کو ’’بے دست پا‘‘ کر دیا اور اب ملتان کے ایک بڑے کرپشن سکینڈل میں ملوث تمام کرداروں کی آپس میں صلاح کے نتیجے میں ایک نڈر اور ایماندار افسر کو ڈائریکٹر انٹی کرپشن ملتان ڈویژن کے عہدے سے فوری پر ہٹانے اور انہیں او ایس ڈی بنانے جیسے واقعات نے کئی سوالات چھوڑے ہیں کیونکہ کرپشن کے یہ سرکاری اور غیر سرکاری کردار محض ایک جماعت نہیں،بلکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے مشترکہ ہیں جنہوں نے مفادات پر سمجھوتہ کر لیا ہے جس پر پنجاب حکومت کو اس طرح افسر کو او ایس ڈی نہیں بنانا چاہیے تھا یہ مقامی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پر پہچان کا حامل مسئلہ ہے جس میں جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے صحت کے ادارے کے ساتھ سیاسی کھلواڑ کیا گیا ہے اور اربوں روپے اس سکینڈل کو اس طرح سے چھپایا جا رہا ہے اس حوالے سے چیئر مین نیب سمیت وزیر اعظم عمران خان کو خود فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے اگر اس طرح کے واقعات کا اعادہ ہو گیا تو پھر تحریک انصاف کے کرپشن کے خلاف تحریکی نعرے پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا اور چیئر مین نیب اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنچائیں گے احتساب بلا امتیاز ہو گا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -