پاکستان کی ا سٹریٹجک اہمیت 

پاکستان کی ا سٹریٹجک اہمیت 
پاکستان کی ا سٹریٹجک اہمیت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعلقات نہ صرف دوستانہ ہیں بلکہ برادرانہ بھی ہیں۔ پاکستان کا شاذ ہی کوئی ایسا وزیرِاعظم ہوگا جس نے اپنے پہلے خارجی دورے کی ابتداء سعودی عرب سے نہ کی ہو۔ پاکستان میں ہر نو مُنتخب وزیر اعظم انتخابات جیتنے کے بعد عُمرے کے فریضہ کو ادا کر نا اپنا اوّلین فرض تصور کرتا ہے۔شاہ فیصل کے زمانے ہی سے سعود خاندان کی نظرِ کرم پاکستان پر ہے۔ سعودی عرب نے ہر حال میں پاکستان کی کبھی مالی اور پٹرول اُدھار دے کر مدد کی ہے۔ اور پاکستان نے بھی سعودی عرب کو اپنا برادر مُلک تسلیم کیا ہے۔ مکہ اور مدینہ کی وجہ سے حکومتِ پاکستان اور عوام میں سعودی عرب کی بہت زیادہ عزت اور تکریم پا ئی جاتی ہے۔ بلا شُبہ پاکستان کا سیاسی موقف یہ ہے کہ حکومت پاکستان تمام مُسلم برادر ممالک میں صُلح کروانے کے لئے ایک غیر جانبدارانہ ثا لث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے لیکن اگر کسی بھی مُلک کی جانب سے سعودی عرب میں واقع پاک مقامات پر حملہ کیا جاتا ہے تو پاکستان کی حکومت،عوام اور فوج تمام سیاسی مصلحتوں کو چھوڑ چھاڑ کر سعودی عرب کی حفاظت کے لئے نکل آئیں گے۔ کیونکہ پاکستان کی حکومت اور عوام کا سعودی عرب کے سا تھ مذہبی اور جذباتی رشتہ قائم ہے۔ جو کہ ہر طرح کے حالات میں مستحکم رہا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر گو اتنا طاقت وار نہیں تاہم پاکستان کے پاس تعلیمی استعداد، جاندار اور مضبوط فوج ایٹمی ہتھیاروں سے لیس، موجود ہے۔ دوسرے مُسلم برادر ممالک کے پاس تیل کی وافر مقدار موجود ہے۔ وُہ دُنیا کی ہر چیز خرید سکتے ہیں لیکن تمام تر صلاحیت ہو نے کے باوجود وُہ اپنے ذرایع سے ایٹم بم نہیں بنا سکتے۔ اِس لئے سعودی عرب پاکستان کی ہر دور میں مدد کرتا ہے کہ پاکستان کی افواج کو سعودی عرب کے دفاع کے لئے کبھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی فوج اور عوام کا مذہبی اور جذباتی لگاؤ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت ،فوج اور عوام سے ہمشیہ و فا داری کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔
اُدھر امریکہ پاکستان کی طاقت اور پاکستان کی فوج کی صلاحیت سے اچھی طرح واقف ہے۔ افغانستان کو روس سے آزاد کروانے کے لئے امریکہ اور پاکستان کی افواج ایک دوسرے سے عملی طور پر تعاون کر چُکی ہیں۔ امریکہ پاکستان کے سیاسی اثرو رسوخ سے بھی واقفیت رکھتا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ افغانی مجاہدین پاکستان کی فوج اور قیادت سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان کی مرضی کے بغیر امریکہ افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ لہذا امر یکہ کبھی سیاسی دباؤ ڈالا کر ، کبھی پیسہ دے کر پاکستانی حکومت اور فوج کی حمائت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وُہ امریکہ جیسی سُپر طاقت سے تعلقات نہ بگاڑے۔ کیونکہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات لگ بھگ سات دہائیوں سے قایم ہے۔ پاکستان کی فوج کے پاس زیادہ تر اسلحہ امریکی ہے۔ پاکستان کو مالی امداد کے لئے امریکہ یا اُسکے حواری ممالک کے پاس جانا پڑتا تھا۔ یا پھر پاکستان کے قرضوں کی فراہمی بین الااقوامی مالیاتی اداروں سے کر وائی جاتی تھی جہاں پر بڑے ممالک کی چودھراہٹ ہوتی ہے۔ لہذا پاکستان کو اپنی اقتصادی ضروریات کے لئے امریکہ اور نیٹو ممالک کی ہر حال میں سُننی پڑتی تھی۔ باالفاظِ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک ا یسے چکر میں پھنس چُکا تھا کہ پاکستان کی معشیت کا پُور ا انحصار امریکہ اور یورپین ممالک پر تھا۔ امریکہ کا طوطی بولتا تھا۔ اُس کے سامنے انکار کرنے کی ہمت کا سیدھا سیدھ مطلب یہ تھا کہ ہم امریکہ سے بغاوت کر رہے ہیں۔
۱۹۶۵ میں بھارت اور پاکستان کی جنگ میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ امریکہ پاکستان کا مُخلص دوست نہیں بلکہ وُہ اپنی مصلحتوں کا دوست ہے۔ وُہ پاکستان کو فوجی اسلحہ دینے سے انکاری تھا، یہاں تک کہ پاکستان کو اپنی ہوائی فوج کو متحرک اور فعال رکھنے کے لئے فوجی طیاروں کے لئے کل پُرزے چاہئے تھے۔ لیکن امریکہ نے بھارت کو فائدہ پہہچانے کی خاطر پاکستاں کو جنگی ساز و سامان دینے سے انکار کر دیا اور خاص طور فوجی طیاروں کے لئے درکار کَل پُرزے بھی دینے سے منع کر دیا۔ شائد یہ وجہ تھی کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ چھڑی جنگ کو بند کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
قارئین یہ وُہ زمانہ تھا جب ایوب خاں مُلک کے صدر اور بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے۔ ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد حکومت پاکستان کو احساس ہُوا کہ امریکہ کے علاوہ بھی پاکستان کو کسی ایسے مُلک کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئے جو پاکستان کی مُشکل حالات میں ہر طرح سے مدد کر سکے۔ چین سے تعلقات قایم کرنے اور بڑھانے میں صدر ایوب خان اور بھٹو صاحب کو بہت بڑا حصہ ہے۔ نواز شریف، شہاز شریف اور زرداری چین سے بہتر تعلقات کا کریڈٹ لینے کی کو شش کرتے ہیں لیکن حقیقت ا س سے قطعی مُختلف ہے۔ چین کے وزیر اعظم چوُ این لائی اور چئیر مین مُوزے تُنگ نے پاکستان سے خاص تعلقات قایم کرنے کا فیصلہ کیا۔امریکہ ، رُوس اور یورپین ممالک کو یہ بات پسند نہ تھی لیکن پاکستان اور چین تمام دُنیا سے ہٹ کر اپنے تعلقات بڑ ھاتے رہے۔ ان تعلقات کی مضبوطی کو د یکھتے ہوئے امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی کہ وُہ امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی تعلقات کو قایم کروانے میں امریکہ کی مدد کرے۔ لہذا قارئین کی دلچسپی لئے عرض ہے کہ امریکہ کے وزیر خا رجہ ہنیری کسنجر نے پاکستانی حکام کے ساتھ پہلی بار چین کا دورہ کیا تھا۔ امر یکہ اور چین کے درمیان تعلقات قایم کروانے کا کریڈت پاکستا ن کو جاتا ہے۔ دونوں ممالک نے کافی حد تک ایک دوسرے مُلک کی منڈیوں میں مال بیچنے سے استفادہ کیا۔تاہم امریکہ پاکستان اور چین کے درمیان خُصوصی تعلقات کو دیکھ کر پریشان ہے۔ کیونکہ چین اور پاکستان دونوں ہی مُلک ایٹمی اسلحہ سے لیس ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے دوستانہ اور تجارتی تعلقات موجود ہیں۔ دونوں مُلکوں کے پاس افرادی قوت موجود ہے اور اس کے ساتھ صلاحیت اور ذہنی استعداد بھی۔ اب کئی سالوں بعد رُوس اور چین کے درمیان تعلقات بہتر ہوُچکے ہیں۔ بھارت ، امریکہ اور یورپین ممالک کو رُوس ، چین اور پاکستان کے گہرے تعلقات پر تحفظات حاصل ہیں۔
دوسرے تمام پاکستانی لیڈروں کی طرح عمران خان نے بھی چین کا دورہ کرنے کو ترجیح دی۔ سعودی عرب سے وُہ چھ ارب ڈالر لے چُکے تھے۔ اب انہوں نے چین کی قیادت سے مُلا قات کرکے مالی امداد چاہی۔ پاکستانی عوام بہت جذباتی ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ چین عمران خاں کی درخواست سُن کر ایکدم اپنی تجوریوں کا مُنہ کھول دے گا۔ اخبارات کی سرُخیوں سے بھی قرض ملنے کے اشارے مل رہے تھے لیکن پچھلے ہفتہ چین کے سفیر نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ چین پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے قرض دینے کی بجائے پاکستان صعنت کاروں کے ساتھ تجارتی معاہدے کریگا۔ پاکستان اور چین اپنی با ہمی تجارت اپنی اپنی کرنسی میں کریں گے ۔ جس سے پاکستان کی معیشت کو ترقی ملے گی اور پاکستان کو سُود کی شکل میں بھاری رقوم ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔ وُہ پاکستان کے دوست سعودی عرب کے ساتھ سی پیک پر تعاون کرکے خوشی محسوس
کر تا ہے۔پاکستان کی اپوزیشن کا خیال تھا کہ پاکستان میں عمراں خاں کے اقتدار میں آ جانے سے سی پیک رول بیک ہو جائے گا۔ لیکن عوام نے دیکھا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات سڑیٹجک معاہدے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ جو ایک خُوش آئندہ بات ہے لیکن کیا اندھا دُھند چین کے ساتھ تعلقات قایم کرنا واقعی مملکت پاکستان کے حق میں سُود مند ہے؟ یہ سوال بعض حلقوں میں تشویش کے ساتھ اُٹھایا جا رہا ہے۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔

مزید :

بلاگ -