ڈیم کا چندہ اور آبادی کا فنڈہ

ڈیم کا چندہ اور آبادی کا فنڈہ
ڈیم کا چندہ اور آبادی کا فنڈہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محترم چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے ڈیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی کنٹرول کرنے کا بیڑہ بھی اٹھا لیا ہے۔اپنے ان مقاصد میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ڈیم فنڈ میں اب تک نو ارب روپے جمع ہوچکے جو دیکھنے میں تو ایک بڑی رقم ہے مگر ڈیم جیسے بڑے منصوبے کے لئیے اسکی اہمیت اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے۔
اب چیف جسٹس صاحب بھی اسی نہج یر سوچ رہے ہیں جسکا ذکر بہت پہلے ان ہی صفحات پر ہو چکا ہے کہ صرف چندے کی مدد سے ڈیم کی تعمیر کا عمل ایک ناممکن سی بات ہے موبائل کارڈ یا لوڈ پر ڈیم ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے اور دیگر یوٹیلیٹی بلز میں اسکا مارجن رکھا جا سکتا ہے ۔بانڈز جاری کئے جا سکتے ہیں اس کے لئیے روڈ شوز ہو سکتے ہیں۔مالیاتی اداروں کا کنسورشیم بنایا جاسکتا ہے جو اس مقصد کے لئیے سرمایہ فراہم کر سکے۔اور سیز پاکستانیوں کو ترغیبات دے کر اس طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔حکومت وقت نے جو ڈالرز بطور عطیہ طلب کئیے تھے اسکے اعدادوشمار سامنے لائے جائیں تا کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترجیحات کا اندازہ ہو سکے ۔اصل المیہ یہ ہے کہ کسی بھی بڑے منصوبے کے لئیے دیرپا پالیسیوں اور ہوم ورک کا بہت فقدان ھے۔
اگر چیف جسٹس صاحب پانی کی قلت کے بڑے مسئلہ کو ہائی لائٹ نہیں کرتے تو شاید یہ ہمارے مین اسٹریم میڈیا کا موضوع سخن ہی نہیں بنتا اور روایتی سرکاری منصوبوں کی طرح کب کا دریا برد ہو چکا ہوتا۔پانی کا ڈیم بننے نہیں پا رہا تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی کا سیلاب ہر مثبت کام۔کو ڈبونے کے لئیے تیار ہے،جب وسائل کی قلت ہو اور اس سے مکمّل فائدہ نہ اٹھایا جا سکے تو ایسے ملک میں صرف افراد کا اضافہ ہوتا ہے باقی ترقی کا سفر تنزلی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔
یہ وہ مسئلہ ہے جسکا اشتہارات میں بھی ذکر ہوتا ہے اور وزارتِ بہبودِ آبادی کا باقاعدہ ادارہ بھی موجود ہے جسکی عملی کارکردگی میدانِ عمل میں نہ ہونے کے برابر ہے مگر سمجھنے کے لئیے سادہ سی بات ہے اگر ڈیم کی تعمیر اور آبادی کنٹرول کے معاملات چیف جسٹس دیکھیں گے تو کیا التوا میں پڑے ہزاروں لاکھوں مقدمات کا فیصلہ واپڈا یا بہبودِ آبادی کے دفتر میں ہوگا ؟یقیناً ایسا نہیں ہے مگر اداروں کی ترجیح تبدیل ہوجائیں تو کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو کر رہ جا تا ہے ۔سپریم کورٹ کے حکم یر ایکشن فوراً لیا جاتا ہے ،کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے مثال سامنے ہے مگر متبادل پلان اور مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب اچھا ایکشن بھی بیڈ گورننس کی مثال بن کر رہ جاتا ہے۔
بحیثیت مسلم ملک آبادی کے حوالے سے تحفظات کو مذھبی فکر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں خودساختہ تشریحات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو متنفر کیا جاتا ہے۔آبادی کے بڑھنے کا سلسلہ تو جاری ہے مگر وسائل کا درست استعمال نہ ہونے سے لوگوں کی اکثریت درجہ غربت یا اس سے بھی نیچے چلی گئی ھے۔متعلقہ محکمے اس حوالے سے واضح گائیڈ لائن دینے میں ناکام ہیں۔ 
ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی مسائل کا باعث بنتی ہے مگر یہی آبادی چین اور ہندوستان کی ھو تو کنزیومر کی بڑی مارکیٹ بن جاتی ہے اور وہ ملک ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جنت بن جاتا ہے۔آبادی کے سیلاب پر بند باندھنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس سیلاب کی رستے میں کسی بھی حکومت نے پلاننگ اور ہوم ورک کا کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا ہے اور یہ وہ ڈیم ہے جسکی تعمیر مالی چندے سے تو مستثنیٰ ہے مگر شعور کی روشنی کے بغیر یہاں صرف بڑھتا ہوا شور ہے کیونکہ شعور علم کی نمائندگی کرتا ہے اور علم کے بغیر تو شعور بھی شور بن جاتا ہے۔جو سماعتوں کو بھی گراں گزرتا ہے اور قوت فیصلہ سے بھی عاری کر دیتا ہے ۔پھر لوگ بہبودِ آبادی کے سلوگن بچے دو ہی اچھے کے چکر میں بچوں کی فوج ظفر موج لگا دیتے ہیں۔ صرف اس امید کے ساتھ شاید دو ہی اچھے نکل آئیں اورزندگی کا سہارا بن جائیں۔آنکھوں دیکھا حال ہے کہ اولادِ نرینہ کی آرزو میں بیٹیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور اگر کہیں سات بہنوں کے بعد بیٹا ہو بھی جائے تو بہنوں میں رہ رہ کر وہ بھی آٹھویں بہن کا درجہ پا لیتا ہے۔
ڈیم کی تعمیر ہو یا آبادی کے مسائل ،حکومت وقت ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ پاکستان کا ترقی کی جانب سفر شروع نہیں ہوگا۔آبادی کا سیلاب پانی کے سیلاب سے زیادہ خطرناک ہے۔سوال پانی کا ہو یا وسائل کا بڑھتی ہوئی آبادی کا اہم کردار ہوتا ہے۔اگر صحتمندانہ معاشرہ چاہیے تو حکمت عملی کے ساتھ آبادی پر بند باندھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہوگی۔

.

نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔

مزید :

بلاگ -