پرندے کدھر گئے
میرے دوست شاہد شیخ ملک کے ممتاز سپورٹس رپورٹر ہیں،ان چند خوش نصیب اخبار نویسوں میں سے ہیں، جنہوں نے بہت سی کھیلوں کے عالمی میلوں میں شرکت کی۔کئی ایک اولمپک دیکھے اور ان پر تبصرے کئے۔کچھ دن قبل بے چینی کے عالم میں صحافی کالونی کی ایک گذر گاہ پر ملے، کہنے لگے ایک لڑکا یہاں ائر گن لئے گھوم رہا ہے، اُسے دیکھ رہا ہوں، پرندے تو ویسے ہی ہماری بستیوں کو خیر باد کہہ رہے ہیں،نہ جانے ان کی ہجرت کی سمت کون سی ہے،اس پر بھی لوگ معصوم پرندوں پر بندوق تانے نظر آئیں تو دِل میں ملال زیادہ بڑھ جاتا ہے۔صحافی کالونی شہر سے قدرے دوری پر اور ختم ہوتے دیہات کے قریب واقع ہونے کے سبب ماحول میں مضافاتی رنگ لئے ہوئے ہے، اس کے باوجود وہاں پرندوں کا گذر ہوتا ہے۔ کبھی لاہور کی مرکزی سڑک مال روڈ کے دونوں طرف دو طرفہ درختوں کی قطار ہوتی تھی، ان قطاروں میں ایستادہ پیپل اور شیشم کے درختوں پر نومبر آتے ہی بلبوں، طوطوں اور رنگ برنگی چڑیوں کے غول اِدھر سے اُدھر شور مچاتے نظر آتے تھے۔طوطے ایسی ایسی خوبصورت چہچہاہٹ کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوتے کہ اکثر مقامات پر راہ چلتے مسافر انہیں دیکھنے کے لئے رُک جاتے۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب ابھی مال روڈ کے درختوں پر پہلی تلوار نہیں چلی تھی،جب ایوب خان کے عہد ِ ”زریں“ میں پہلی مرتبہ مال روڈ کی کشادگی کے نام پر درختوں پر تلوار چلائی گئی، تو لاہور کے ادیبوں اور دانشوروں نے پاک ٹی ہاؤس میں ایک دستخطی مہم کا آغاز کیا،جس میں درختوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا اور سڑک کی کشادگی کے لئے دوسرے ”آپشن“ اختیار کرنے کی اپیل کی گئی،لیکن حکومت نے ایک نہ مانی اور پھر مال روڈ پر درختوں اور پرندوں کے گھونسلوں کے انبار لگ گئے۔
پاکستان کی نوکر شاہی تو پہلے ہی حسن وجمال سے محروم تھی،اس نے اپنی نو آبادیاتی مادیت پسندی کو کام میں لا کر لاہور میں جہاں کہیں خوبصورتی دیکھی،اسے ملیا میٹ کرنے کے لئے بڑھی۔ ہماری تاریخ میں انسانی اقدار نے وقت کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مراجعت اختیار کی۔دُنیا میں آنے والی حکومتوں نے اپنے ملک کے ماحول، زمین اور علاقوں کو خوبصورت بنانے کی کوشش کی۔ آہستہ آہستہ انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور عوام کے لئے زندگی کو آسان اور پُرکشش بنانے کو اپنا فرض سمجھا اور ہم نے آہستہ آہستہ نہیں،بلکہ تیزی کے ساتھ اس زمین پر زندگی کو مشکل بنانے کا کام کیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں،یعنی 1960ء کے ادوار میں جونہی فیروزپور روڈ پر ہم چونگی امرسدھو سے آگے بڑھتے تھے،ہر طرف سبزے کی ایک بہار نظر آتی تھی، کھیتوں کی ہریالی اور ہریالی کے درمیان جہاں جہاں پانی کے جوہڑ بنے ہوتے،وہاں پرندوں کی قطاریں،
صبح اور شام ڈھلے جوق در جوق اُترتی نظر آتیں۔ان میں مرغابی اور بگلے ایک اُدھم مچائے ہوتے۔لاہور سے مرغابی کے شکاریوں کو بہت دور نہیں جانا پڑتا تھا۔کاہنہ، جیا بگا اور رائیونڈ کا حالیہ جاتی امرا اِن پرندوں کے بڑے مرکز تھے۔ دوپہر کے وقت ہل چلاتے ہوئے کھیتوں میں کبوتر، فاختائیں، چڑیاں اور مینا اپنا الگ سے ایک میلہ بنائے رکھتیں،لیکن بہت تیزی سے جب پھانسی گھاٹ سجائے جانے لگے، تو ہر طرف بندوقوں اور منشیات نے سبزہ اکھاڑنا شروع کر دیا۔ شہروں کے مضافاتی کھیتوں میں سبزی کی بجائے کوٹھیاں اُگنے لگیں،پرندوں سے لے کر انسانوں تک دھڑا دھڑ پنجروں میں قید ہوئے۔
لوگ اپنے ملک سے ہجرت کو اولیت دینے لگے، بھوک اتنی بڑھ گئی کہ ایک تولہ گوشت کا چڑا بھی کڑاہی بن کر لوگوں کی زبان کے چٹخارے پورے کرنے لگا۔گوجرانوالہ اس معصوم تولہ بوٹی والے پرندے کی بھنائی کا مرکز بن گیا۔ہماری بھوک سے تنگ آ کر پرندے بھی ہجرت کرنے لگے۔پہلے وہ شہروں کی سڑکوں کے پہلو میں لگے درختوں کی شاخوں سے دور ہوئے۔پھر ہمارے کھیتوں سے بھی دور ہوئے کہ اب وہاں گوبھی کے پھول،مولی کے پتے اور گاجر کی مٹھاس والی کیاریوں کی جگہ سیمنٹ،ریت اور لوہے کے عفریت نے لے لی تھی، اب نہ کوئی پرندوں کی ہجرت سے اُداس ہے، نہ درختوں سے کے کٹنے پر۔گزشتہ روز شہباز شریف کی اورنج لائن ٹرین کا ایک فضائی جائزہ دیکھا،
پوری کی پوری لائن پر کوئی درخت نظر نہ آیا،ایسا نظر آ رہا تھا کہ کسی صحرا سے ٹرین گذر رہی ہے،ہم نے معصوم پرندوں کے شکار اور آہنی انتظام کے شوق میں لوگ تو لوگ پرندوں کو بھی اس ملک سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔اب ہمارے شہروں کی زمین پر پراپرٹی ڈیلروں اور آسمان پر چیلوں اور کوؤں کا قبضہ ہے۔ البتہ ہمیں اس بات پر مطمئن ہونا چاہئے کہ چیل اور کوئے بھی تو پرندے ہی ہیں،ہم نے کبھی بلبل، فاختہ، طوطے، مینا اور چڑیا کو نہیں،بلکہ شاہین ہی کو اپنا پسندیدہ پرندہ سمجھا ہے۔ ہمیں گیت گانے والی کوئل سے زیادہ شکار کرنے والا شاہین پسند ہے۔