معروف شاعر، براڈکاسٹر ناز خیالوی کا یومِ وفات(12دسمبر)

ناز خیالوی
ناز خیالوی کے نام سے شہرت پانے والے اس منفرد شاعر کا اصل نام محمد صدیق تھا۔ انہوں نے فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کے گاؤں”خیالی دی جھوک” میں 7 مئی 1937ء میں آنکھ کھولی۔ اسی وجہ سے اپنے تخلص ناز اور چک خیالی سے تعلق کی مناسبت سے ناز خیالوی کہلائے۔ شاعر کا ملکہ انہیں فطرت کی طرف سے ودیعت ہوا تھا۔ اسیِ فطری عطا کی وجہ سے ان کی موزدنیٔ طبع کے جوہر بہت جلد کھلنا شروع ہوگئے۔ احسان دانش, شورش کاشمیری اور ساغر صدیقی کی مسلسل محبتوں سے بھی فیض یات ہوتے رہے۔ چھوٹی موٹی ملازمتیں بھی کیں۔ ریڈیو پاکستان، فیصل آباد ایف ایم۔93 کے معروف پروگرام ”ساندل دھرتی” کی قریباً ربع صدی اور ”دبستان” کی میزبانی کرتے رہے۔ دریا دل اور یار باش انسان تھے محفلوں میں ان کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔
ناز خیالوی کی زندگی میں کافیوں پر مشتمل صرف ایک ہی پنجابی کلام کا مجموعہ” سائیاں وے” کے نام سے 2009ء میں منظرِ عام پر آیا۔ ان کی وفات کے بعد ضخیم اُردو مجموعۂ کلام ”تم اک گورکھ دھندہ ہو” زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے، جس میں بیشتر اردو کلام اکھٹا ہوگیا ہے۔
12 دسمبر 2010ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے اور تاندلیانوالہ کے ہی ”بڑے قبرستان”کے نام سے مشہور قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
شاعر: ناز خیالوی
Kabhi Yahan Tumhen Dhoonda Kabhi Wahan Pahuncha
Tumhaari Deed Ki Khaatir Kahan Kahan Pahuncha
Ghareeb Mit Gaey , Pamaal Ho Gaey Lekin
Kisi Talak Na Tera Aaj Tak Nishaan Pahuncha
Ho Bhi Nahen Aor Har Ja Ho
Tum Ik Gorakh Dhanda Ho
Tum Ik Gorakh Dhanda Ho
Har Zarray Men Kiss Shaan Say Tu Jalwa Numa Hay
Hairaan Hay Magar Aql Men Kaisa Hay Tu Kaya Hay
Tujhay Dair-o-Haram Men Main Nay Dhoonda Tu Nahen Milta
Magar Tashreef Farma Tujh Ko Apnay Dil Men Daikha Hay
Jab Bajuz Teray Koi Doosra Nahen Maojood
Phir Samjh Nahen Aata Tera Parda Karna
Tum Ik Gorakh Dhanda Ho
Koi Saf Men Tumhaari Kho Gaya Hay
Isi Khoay Huay Ko Kuchh Mila Hay
Na But Khaanay Men Na Kaabay Men Mila Hay
Magar Tootay Huay Dil Men Mila Hay
Adam Ban Kar Kahen Tu Chupp Gaya Hay
Kahen Tu Hast Ban Aa Gaya Hay
Nahen Hay Tu To Phir Inkaar Kaisa
Nafi Bhi Teray Honay Ka Pata Hay
Main Jiss Ko Keh Raha Hun Apni Hasti
Agar Wo Nahen To Aor Kaya Hay
Nahen Aaya Khayaalon Men Agar Tu
To Phir Main Kaisay Samjha Tu Khuda Hay
Tum Ik Gorakh Dhanda Ho
Poet: Naz Khayalvi