راوین تاریخ نگار:خالد مسعود صدیقی(3)

راوین تاریخ نگار:خالد مسعود صدیقی(3)
راوین تاریخ نگار:خالد مسعود صدیقی(3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


انٹرمیڈیٹ میں اختیاری مضمون کے طور پر تاریخِ پاک و ہند کے وہ اسباق ابھی نہیں بھولے جن میں ایشوری پرشاد، جادو ناتھ سرکار، وی۔اے۔ سمتھ اور لین پُول کی کتابوں کے ا قتباس بار بار پڑھنے کو ملتے۔ جی سی(یو) لاہور کی تاریخ میں جس کی تحقیق و تدوین انگریزی ادب کے نامور استاد پروفیسر کے۔ایم۔ صدیقی نے کی، حوالہ جات کے اِسی رکھ رکھاؤ سے کام لیا گیا ہے۔ پھر بھی یہ طے ہے کہ تاریخ نگاری اپنے متن، مجموعی طرزِ فکر اور اسلوب کے لحاظ سے اگر مخصوص مہارتوں کا مطالبہ کرتی ہے تو سچائی کا دامن پکڑے ہوئے صحافت کو خواندنی تحریر کے دائرے سے باہر نہ نکلنے دینا بجائے خود ایک اَور طرح کی فنکاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جی سی(یو) کے مورخ نے ذاتی پسند یا ناپسند کو اپنی معروضی سوچ پہ اثر انداز نہیں ہونے دیا، وہیں آپ کا کالم نگار تاریخی واقعات کے کسی ایسے پہلو کو تشنہء اظہار چھوڑ دینے کے حق میں نہیں، جس سے قارئین پر رُعب ڈالنے کا موقع اُس کے ہاتھ سے نکل جائے۔


احتیاط کے باوجود پچھلی قسط میں عوامی پرنسپل، ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی سناتے ہوئے خفیف سی چُوک پھر بھی ہو گئی اور ڈاکٹر صاحب کے بعد از ریٹائر منٹ تخلیقی کارناموں کا ذکر نہ ہو سکا۔ جیسے سید بابر علی کے ایما پر بابا فرید شکر گنج، شاہ حسین، سلطان باہو اور بابا  بُلھے شاہ کے منتخبہ کلام کی ترتیب و ادارت،اِس کے علاوہ حضرت امام حسین کی شان میں اُن کا منظوم ہدیہء عقیدت جس کا کوئی چرچا نہیں۔ یہ الگ بات کہ مَیں اپنے ممدوح کے۔ایم۔ صدیقی کے برعکس یہاں دستاویزی شہادتوں کی بجائے ڈاکٹر صاحب کے حق میں ایک ایسی ہستی کی شخصی  ضمانت پیش کروں گا جو اب دنیا میں نہیں۔ مراد ہیں کالم نگار کے ماموں اور ایک وقت میں دربار داتا صاحب  کے مقبول نعت خواں حاجی محمد سعید اور ہم نوا، جن سے  ڈاکٹر صاحب کے یہ اشعار لحن سے سُنے:
سایہئ مصطفےٰ حسینؓ، مایہئ مرتضے حسینؓ
حُسن کی ابتدا حسینؓ، عشق کی انتہا حسینؓ
باغ و بہارِ زندگی، نقش و نگارِ زندگی
آئینہ دارِ زندگی، کُشتہء کربلا حسینؓ
سر کو جھُکا کے پا لیا سایہء عرشِ کبریا
سجدے میں گِر کے بن گیا کعبہ ء اولیا حسینؓ
ڈاکٹر نذیر احمد کے جانشین پر جی سی (یو) کی زیر ِنظر تاریخ کا تعارفی بیانیہ اِن  نپے تُلے الفاظ میں ہے کہ اکنامکس کے صدرِ شعبہ پروفیسر محمد رشید گورنمنٹ کالج کے سابق طالب علم نہ ہوتے ہوئے بھی اِس ادارے کی روایات و اقدار سے بخوبی آشنا تھے۔ اِسی سبب اُنہیں کالج میں نظم و ضبط کا وہ کڑا معیار بحال کرنے کی کوششوں میں مدد ملی جسے اُن کے پیش رو ’عوامی‘ پرنسپل کے دَور میں ضعف پہنچا۔ اِس ضمن میں کالج کے چیف پراکٹر کے طور پر اُن کا طویل تجربہ بھی کام آیا۔ مورخ  کے۔ ایم۔ صدیقی نے اِس ضمن میں پروفیسر رشید کے پرنسپل بننے پر جی سی کے مجلہ ’راوی‘ کا ایک کارٹون یاد دلایا ہے۔  منظر ہے ایک سرو قد درخت کا، جس کے بالکل ساتھ ہے ایک جھُکا ہوا پیڑ۔ اوپر نیم انگریزی میں ایک عبارت درج ہے جس کا آزاد ترجمہ ہوگا: ”اوئے سِدھا  کھلو جا، تکدا نئیں پروفیسر رشید پیا آؤندا اے۔“ 


مزاحیہ انداز میں سہی، لیکن نظم و ضبط بحال کرنے کی کوششوں کے بارے میں یہ بہرحال ایک تاریخی حقیقت کا اظہار ہے۔ پھر بھی  آپ کے کالم نویس کو ہر کتاب میں اپنی مرضی کا کوئی نہ کوئی نکتہ ابھارنے کی ترغیب مِل ہی جاتی ہے۔ یوں شروع ہوتی ہیں اُس کی وہی صحافیانہ فنکاریاں جیسے شاہی قصیدوں کی شاعری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ سب سے پہلے تمہید یا تشبیب، تشبیب کے بعد گریز، پھر مدح اور آخر میں اظہارِ مدعا۔ ہمارے مورخ نے پروفیسر رشید کی قلمی تصویر بناتے ہوئے آج کا ڈیجٹل کیمرا نہیں برتا بلکہ مصور کے موقلم سے کام لیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”خوبرو اور خوش لباس، پروفیسررشید جاذبِ نظر  شخصیت کے مالک تھے اور اِس جاذبیت سے آگاہ بھی۔ کبھی کبھار پروفیسر صاحب  کے شاگرد کلاس میں اُن کی زبان سے اپنی بیگم کے بارے میں یہ سُن کر محظوط ہوتے کہ موصوفہ کے نین نقش مجھ سے کم دلکش ہیں۔“ 
خود مجھے پروفیسر رشید کے نین نقش قریب سے دیکھنے کا موقع 1980 ء  کی دہائی کے آخری برسوں میں لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ ایفریقن سٹڈیز میں  مِلا۔ یہ فیض احمد فیض کی یاد میں ہونے والا دوسرا بین الاقوامی سمپوزیم تھا، جس کا اہتمام حسب ِ سابق فیض اکیڈمی کے زیرِ اہتمام  پاکستانی نژاد بیرسٹر مجاہد ترمذی نے کیا۔ ایک کیسٹ پہ محفوظ  اجلاس کی کچھ صوتی جھلکیوں میں میرے پاس محترمہ ایلس فیض کی تقریر کا ٹکڑا بھی ہے اور روسی اردو داں لوڈ مِلا ویسلییونا کی آواز میں فیض کی نظم بھی کہ  ’بہار آئی تو کھُل گئے ہیں نئے سرے سے حساب سارے۔‘  اختتامی تقریب میں چائے کے دوران پروفیسر رشید کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ اِنہیں پہچاننے میں غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ خوب یاد ہے کہ بی بی سی کے پروگرام ’سب رس‘ کے لئے فیض پہ انٹرویو ریکارڈ کرتے ہوئے اُن کے مشفقانہ لہجے نے ذاتی رعب داب کی اجنبیت پل بھر میں رفع کردی تھی۔ پھر بھی خوف دُور ہوجانا ایک بات ہے اور جھاکا اترنا ایک مختلف تجربہ۔ 


کچھ کچھ جھاکا اترا ہے رواں صدی شروع ہونے سے پہلے میری مستقل پاکستان واپسی پر جب لاہور ہائی کورٹ میں ایک دیوانی معاملے کے الجھاؤ نے مجھے گورڈن کالج میں استادوں کے استاد نصر اللہ ملک کے اَور قریب کر دیا تھا۔ اِسی توسط سے میری رسائی پروفیسر رشید کی دوستانہ محفلوں تک ہوئی۔ یہ فیاضانہ میزبانی اُن کی صاحبزادی روبینہ رشید نے اپنے شوہر شاہد مجید کے ساتھ مثالی خوش دلی سے سنبھال رکھی تھی۔ مقدمے کی ابتدا کیسے ہوئی اور فیصلے میں تاخیر کا سبب آبائی اراضی کے مالک کے طور پر کیا ملک صاحب کی سادہ طبعی تھی یا ہمارا فرسودہ  عدالتی نظام؟ یہ کہانی شخصی خاکوں کی اپنی اولین کتاب ’یار سرائے‘ میں مزے لے لے کر بیان کر چکا ہوں۔ یہاں تو تان ٹوٹے گی پروفیسر محمد رشید پر جن سے شام کی ملاقاتیں عام اُستادی شاگردی  سے ذرا آگے کی چیز تھیں۔  


یہ ا،س لئے ممکن ہوا کہ پروفیسر رشید کے دوست اور ہمارے اصلی تے وڈے نصراللہ ملک ہر ہفتے دو ہفتے بعد اسلام آباد سے لاہور آتے اور ہائی کورٹ میں مقدمے کی پیروی بھی سنجیدگی سے کی جاتی۔ البتہ اگلی تاریخ پڑتے ہی ایک خوشی کی لہر دوڑتی کہ چلو ایک ناخوشگوار فریضہ تو ادا ہوا۔ کمرہء عدالت سے نکلتے ہی دھیان اِس طرف ہوتا کہ کیا آج کابقیہ دن پرانے گورڈونین اور عہد ساز ٹی وی آرٹسٹ شجاعت ہاشمی کی میزبانی میں گزرے گی یا لاہور کینٹ میں چہیتے شاگرد شاہد مجید ’گُوچی‘ کے گھر کا رخ کیا جائے۔ اپنی بیگم، روبینہ رشید کی طرح جو انگلش لٹریچر کی نامور استاد ہیں، یاروں کے یار اور مشاق شکاری شاہد مجید بھی بقول شخصے ’فالتو‘ تعلیم حاصل کرکے تربیتی اداروں کے ٹرینر اور پھر سربراہ رہے۔ دیگر شرکا کی موجودگی میں پروفیسر ایم رشید سے نصر اللہ ملک کا فکر انگیز مکالمہ خاصے  کی چیز ہوتا کہ دونوں بزرگ ہر معنی خیز جملے کا اختتام ’ہروفیسر کے لفظ پر کرتے اور اِس مرحلے پر ایک دوسرے کو انگریز ایکٹروں کی طرح غور سے دیکھتے۔ (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -