اپوزیشن خاموش تماشائی۔۔۔
ملکی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اپوزیشن حکومت کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع فراہم کررہی ہے۔ 06 دسمبر 2021 کو پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا جس میں پی ڈی ایم جماعتوں کی جانب سے سفارشات پیش کی گئیں۔ حکومتی پالیسیوں اور مہنگائی میں پسے عوام توقع کررہے تھے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بھرپور قسم کا پروگرام دیں گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے اجلاس سے قبل کافی شور و غوغا کررکھا تھا کہ 6 دسمبر کے اجلاس کے بعد حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے جائیں گے فلاں کردیں گے فلاں ہو جائے گا، حکومت کی ناک میں دم کردیں گے لیکن اپوزیشن کے سبھی دعوے سبھی تسلیاں صرف باتوں تک محدود رہیں۔
اپوزیشن اتحاد نے بڑھتی مہنگائی کیخلاف جو احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا ہے اس کے لیے بھی قریب چار ماہ کا وقت دے دیا گیا ۔ جبکہ اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کا معاملہ ایک بار پھر پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ چار ماہ کا طویل دورانیہ حکومت کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہی ثابت ہو گا ۔ حکومت کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق مہنگائی بھی کرے آرڈیننس بھی لائے الغرض کسی بھی معاملے میں حکومت پر اپوزیشن کا کوئی دباؤ نہیں ہو گا۔
اگر حقیقی جمہوری نظام کا جائزہ لیا جائے تو حکومت اور اپوزیشن جمہوری گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں جمہوری نظام اس قدر لاغر ہو چکا ہے کہ نہ تو حکومت کسی معاملے پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی زحمت کرتی ہے اور نہ اپوزیشن حکومت کو عوام کے مفاد میں ٹف ٹائم دینے کے لیے مربوط حکمت عملی بنانا گوارا کرتی ہے۔ اس طرح حکومت کو عوام کش اقدامات کے باوجود کھل کھیلنے کا بھرپور موقع اپوزیشن خود فراہم کررہی ہے۔
اپوزیشن نے جو مارچ میں ’’ مہنگائی مارچ ‘‘ کا اعلان کیا ہے اس طویل دورانیے میں حکومت بیشتر ایسے اقدامات بھی اٹھائے گی جس کے اثرات عوام پر براہ راست پڑیں گے۔ اب موجودہ بجلی قیمتوں میں اضافے کے معاملے کو ہی لے لیجئے۔ حکومت نے اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی قیمتوں میں 4 سے 5 روپے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ بجلی قیمت بڑھنے عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں کی برداشت کی حد ختم ہو جائے گی۔
اپوزیشن اس معاملے پر بھی صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی جانب سے بجلی قیمتوں میں اضافے کو عوام کو الٹی چھری سے ذبح کرنے کے مترادف قرار دیا گیاہے جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قیمتوں میں اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ روز بروز بڑھتی مہنگائی اور عوام کی قوت خرید کم ہونے کے باوجود اپوزیشن حکومت ٹف ٹائم دینے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ تک کیوں محدود ہے۔
اپوزیشن اتحاد اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ حکومتی اراکین اس کو سیریس لیتے ہی نہیں۔ لیں بھی کیسے جب اپوزیشن اپنے اندر ہی اتحاد پیدا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پیپلزپارٹی جو پہلے پی ڈی ایم کا حصہ تھی اب پی ڈی ایم سے علیحدہ ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پر تنقید میں مصروف ہیں تود وسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی پیپلزپارٹی سے شکوہ کناں ہیں۔
لاہور میں حالیہ ضمنی انتخابات کے موقع پر ہی دیکھ لیں پیپلزپارٹی کی ووٹوں کی خریدوفروخت کی ویڈیوز سامنے آئیں تو اس پر ہنگام بپا ہو گیا۔ ایک دو روز بعد مسلم لیگ ن کے بینرز لگے کیمپ میں بھی حلفیہ ووٹوں کی خریدوفروخت کی ویڈیو وائرل ہوئی تو دونوں جماعتوں نے ویڈیوز کو ایک دوسرے پر الزام لگا کر خود کو صاف ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کی ویڈیوز کی تحقیقات تو جاری ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلے کا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو لاہور کا حلقہ این اے 133مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جس میں 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پرویز ملک مرحوم نے89ہزار سے زائد ووٹ لیے،2013 کے جنرل الیکشنز میں اسی حلقے میں جب یہ127 تھا تو یہاں مسلم لیگ ن کے ولید احمد خان نے71ہزار سے زائد ووٹ لیے ،2008 کے انتخابات میں بھی یہاں مسلم لیگ ن ہی کامیاب رہی۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کو ووٹوں کی خریدوفروخت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے اپوزیشن کا کام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ہے لیکن اپوزیشن آپس میں ہی گتھم گتھا دکھائی دیتی ہے شائد اسی بنیاد پر حکومتی ارکان خاص طور پر شیخ رشید اکثر بیانات میں کہتے ہیں ایسی اپوزیشن تاریخ میں کسی حکومت کو نہیں ملی ۔ اب جو اپوزیشن نے مہنگائی مارچ کے لیے چار ماہ کا ٹائم دیا ہے بادی النظر میں یہ حکومت کو کہا گیا ہے کہ کچھ وقت اور آرام سے گزار لیا جائے۔ چار ماہ میں یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت مصنوعی طور پر مہنگائی کنٹرول کر نے کے لیے اقدامات کرلے جیسا کہ حکومتی وزرا نے کہنا شروع کردیا ہے کہ تین چار ماہ مشکل ہیں پھر عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی ممکن ہے کہ پھر مصنوعی طور پر ڈالر کو لگام ڈال لی جائے، مصنوعی طور پر سب اچھا ظاہر کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جائے۔ اپوزیشن سوچے کہ اگر حکومت مارچ کے وسط تک ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر اپوزیشن کے ’’ مہنگائی مارچ‘‘ کی کیا وقعت رہ جائے گی؟؟؟
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.