روک سکو تو روک لو۔۔۔

 روک سکو تو روک لو۔۔۔
 روک سکو تو روک لو۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 برازیل کی اسٹیبلشمنٹ نے عوام کے مقبول لیڈر لوئیز اناسیو لولادا سلواکو اقتدار سے نکلوایا، اُن پر مقدمات قائم کئے، تبدیلی کے نام پر ایک نیم پاگل شخص اور سابق فوجی جیر بولسو نارو کو صدر بنوا دیا جس نے پونے چار سال میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ملک کی معیشت اور گورننس کا بھٹہ بٹھا دیا، اپنے اِردگرد ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کا جھمگٹا  لگا لیا جو قومی خزانہ کوشیر مادرسمجھ کر ہاتھ صاف کرتے رہے، سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تمام حدیں پار کر دیں، نوجوانوں کی تربیت کی بجائے اُنہیں گالم گلوچ بریگیڈ بنایا اورملکی اداروں کو اپنا ذاتی تابع بنانے کے لیے ہر ممکن دباؤ ڈالا۔ آخر کب تک ایسا چلتا، وہی اسٹیبلشمنٹ جو لولا دا سلوا کو ہمیشہ کے لیے سیاست سے آؤٹ کرکے جیر بولسونارو کو 10سال کے لیے لائی تھی، مجبور ہو گئی کہ لولا دا سلوا کے خلاف ناجائز مقدمات ختم کرکے ُانہیں دوبارہ ملک چلانے کے لیے بلایا جائے۔ برازیل کی سپریم کورٹ نے لولا دا سلوا کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور جس کے بعد نئے الیکشن ہوئے جس میں عوام نے بھاری تعداد میں لولا دا سلوا کو دوبارہ منتخب کرکے تبدیلی کے غبارہ سے ہوا نکال دی۔ صرف برازیل ہی نہیں، جہاں جہاں بھی عوام کے مقبول لیڈروں کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے کینگرو کورٹس استعمال ہوتی ہیں، میڈیا پر کردار کشی کرکے کرپشن کی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں اور پھر ایک ڈمی مہرے کو تبدیلی کے نام پر اقتدار دے دیا جاتا ہے،وہاں یہی ہوتا ہے۔ 10سالہ پراجیکٹ بولسونارو ساڑھے تین سال میں لپیٹنا پڑا۔ 


عوام کے حقیقی لیڈر لولا دا سلوا،نیا سال شروع ہوتے ہی یکم جنوری 2023ء کو برازیل کے صدر کا عہدہ دوبارہ سنبھال لیں گے۔ لولا دا سلوا اِس سے پہلے بھی 2003ء سے 2010ء تک برازیل کے صدر رہے۔ اُن پر2017ء میں کرپشن کے مقدمات بناکر جیل میں قید کر دیا گیا۔یہ 2017ء برازیل میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ کا سال تھا جس پر اگلے سال 2018ء میں انتخابی عمل کے ذریعہ عمل در آمد کر دیا گیا اور عوامی لیڈر کو عدالت کے ذریعے ہٹانے کے بعد اپنی مرضی کا صدر لانچ کر دیا گیا۔ لاکھ سیاسی انجینئرنگ کر لی جائے اور اُنہیں عدالتوں کے ذریعے سزا دلوا کر جیل میں قید کر دیا جائے، تب بھی مقبول سیاسی لیڈر عوام کے دِلوں سے نہیں نکلتے۔ عوام اُنہیں دوبارہ اقتدار میں لے آتے ہیں۔جیر بولسونارو جیسے ایک نکمے، کرپٹ، بدزبان اور نا اہل شخص جس کے ذہنی توازن کے بارے میں بھی شکوک و شبہات ہر روز بڑھتے جائیں، جسے نہ سیاست اور تاریخ کا پتہ ہو اور نہ ہی اِسے اخلاقیات اور روایات کا پاس ہوتو 10سالہ خیالی منصوبے کا زمین بوس ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔ پراجیکٹ بولسو نارو کے اصل مجرم وہ طاقتور لوگ ہیں جن کے پاس اختیارات بہت زیادہ اور عقل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔وہ ایک خیالی تصور کی خاطر محض اپنی طاقت اور اختیارات کے بل بوتے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجوا دیتے ہیں۔ جب تک اِن طاقتور افرادکو احتساب کا ڈر نہیں ہو گا، ایسے ہی یہ لوگ ملک کی قسمت سے کھیلتے رہیں گے۔ 


10سالہ پراجیکٹ بولسونارو کے بری طرح فلاپ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ تو غلط سلیکشن ہے کہ ایک نیم پاگل،ضدی، مغرور اور نرگسیت میں مبتلا شخص کو محض اِس لئے اقتدار دلوایا گیا کہ بہت سے ریٹائرڈ افراد جن میں جرنیل، جج اور بیوروکریٹس شامل تھے، ملک کے اعلیٰ عہدے اُن کے قبضے میں دے دئیے جائیں، اِسی لئے جیر بولسونارو کی کابینہ سمیت زیادہ تر اہم عہدوں پر اُن کا قبضہ تھا۔ اِس کا دور ملک میں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور میڈیا کا گلا گھونٹنے کا دور تھا۔ جیر بولسونارو کے دور میں معیشت اور گورننس کا بیڑہ غرق ہو گیا اور ایک ابھرتی ہوئی معیشت غروب ہونا شروع ہو گئی۔ بدزبانی بولسونارو کا طرہئ امتیاز تھی اور کارکردگی کی بجائے تمام توجہ مخالفین اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے اور کرپشن کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑنے پر رہی۔ ملک کے ادارے چلانے سے زیادہ توجہ سوشل میڈیا کے ”واریئرز“بھرتی کرنے پر رہی۔ پراجیکٹ بولسونارو کی بنیاد ”پاپولزم“پر رکھی گئی جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے ملکی ترقی کی بجائے صرف خوش نما نعرے ایجاد کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی جیسے ڈکٹیٹر ”پاپولسٹ لیڈروں“کی اہم مثالیں ہیں۔ موجودہ دور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، وینزویلا کے سابق صدر ہیوگوشاویز،موجودہ صدر نکولس مدورا اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا شمار بھی اِسی فہرست میں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لیڈر اگر عوام میں مقبول ہوں تو بھی ملک کے لئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ جیر بولسو نارو کے دور اقتدار میں بھی ملک کی معیشت اور گورننس کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا اور سفارتی طور پر برازیل کے تعلقات دوسرے ممالک سے خراب ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ 10سال کا پراجیکٹ صرف ساڑھے تین سال میں لپیٹ کر بند کرنا پڑا۔ 


برازیل کا صدارتی الیکشن دا سلوا لولا جیت چکے ہیں۔ وہ عوام کے حقیقی لیڈر ہیں، اُن کے پچھلے دور اقتدار میں برازیل کی معیشت تیزی سے اوپر اٹھ رہی تھی، ملک میں ترقیاتی کاموں کی رفتار انتہائی تیز اور عوام کی زندگی بہتر ہو رہی تھی۔ برازیل کے زیادہ تر میگا پراجیکٹ اُنہی کے دور میں ہوئے تھے لیکن برازیل کی اسٹیبلشمنٹ نے صرف اپنے مفاد کی خاطر عوام کے محبوب لیڈر کے خلاف 2017ء میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے جھوٹے مقدمات شروع کئے اور 2018ء میں انہیں جیل میں ڈال کر جیر بولسونارو کی حکومت مسلط کر دی جو اپنی نالائقی کی وجہ سے ساڑھے تین سال ہی نکال سکی۔ یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام میں حقیقی طور پر مقبول لیڈر کو کرپشن کے غلط مقدمے میں سزا ہو بھی جائے تو کیا اُس کی سیاست ختم ہو جاتی ہے؟  لولا دا سلوا نے یہ بات غلط ثابت کر دی ہے، مقدمے اور قید اُن کی عوام میں مقبولیت ختم نہیں کر سکی۔پراجیکٹ بولسونارو اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ انتقامی ہتھکنڈوں سے عوام میں انتہائی مقبول سیاست دانوں کی سیاست ختم نہیں ہوتی۔ سیاست اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ۔۔۔ روک سکو تو روک لو۔۔۔

مزید :

رائے -کالم -