سیاست کی گیم آن ہے

 سیاست کی گیم آن ہے
 سیاست کی گیم آن ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اِس وقت سیاست کی گیم آن ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اِس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کپتان کی باتوں سے تو لگتا ہے وہ اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ پر ڈالنا چاہتے ہیں،اُنہوں نے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے جتنے موقف تبدیل کئے ہیں،اُتنے شاید ماضی میں کسی سیاست دان نے تبدیل نہ کئے ہوں۔اب انہوں نے تازہ ترین ارشاد یہ فرمایا ہے کہ نیب کے ذریعے کسے پکڑنا اور کسے چھوڑنا ہے،اِس کا فیصلہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کرتے تھے حالانکہ ساڑھے تین سال تک کپتان یہ فرماتے رہے کہ این آر او نہیں دوں گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ پھر یہ بھی ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں رہے انہوں نے اِس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ وہ بے بس ہیں۔وہ خود کو طاقتور ترین حکمران ظاہر کرتے رہے۔ اگر قمر جاوید باجوہ اُن کے زمانے میں اتنے ہی طاقتور تھے تو عثمان بزدار کو وزارتِ اعلیٰ سے کیوں نہیں ہٹوا سکے،اُس پر تو عمران خان ڈٹ گئے تھے، اگر اِس مطالبے کے خلاف وہ ڈٹ گئے تھے تو احتساب کے معاملے میں انہوں نے بے بسی کیوں دکھائی؟کیوں یہ ٹھوس پیغام نہیں دیا کہ کسی کو رعایت نہیں دی جائے گی۔بہتر تو یہی ہے کہ عمران خان آگے بڑھیں اور قمر جاوید باجوہ کی جان چھوڑ دیں کیونکہ وہ ایک تو براہِ راست اُن کی باتوں کا جواب نہیں دے سکتے اور دوسرا وہ اب قصہئ پارینہ ہیں۔اُن کے حوالے سے عمران خان جتنی باتیں کریں گے وہ دراصل اپنی ہی کمزوری ظاہر کریں گے۔عمران خان کے حامیوں کے ذہن میں اُن کا تاثر ایک دبنگ سیاست دان کا بنا ہوا ہے،اُسے بنا رہنے دیں اور یہ نہ کریں کہ اُس تاثر کو زائل کر کے ایک کٹھ پتلی اور بے بس حکمران کا لیبل خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آپ پر چسپاں کرلیں۔


وہ ماضی کو بھول کے مستقبل کی فکر کریں کہیں وہ بھی اُن کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔سیاست کی گیم آن ہے اور سب اپنی اپنی چالوں میں لگے ہوئے ہیں۔ایک بار پھر یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ عمران خان بھول پن میں کسی نئے دھوکے کا شکار ہو جائیں گے۔وہ خود یہ کہتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کو آگے لے جانا چاہتے ہیں تاہم میرے کہنے پر وہ پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے۔اگر پرویز الٰہی نے عمران خان کے کہنے پر ہی چلنا ہے تو وہ اپنی خواہش کا اِظہار کیوں کر رہے ہیں۔کیا اِس سے نہیں لگتا کہ دال میں کچھ کالا ہے اور عین وقت پر عمران خان کو لگے گا یہاں بھی اُن کے ساتھ ڈبل گیم ہو گئی ہے۔کیا یہ خبریں نہیں آ ئیں کہ پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کے درمیان دوریاں ختم ہو رہی ہیں؟ کیا مسلم لیگ (ق) کے صوبائی ارکانِ اسمبلی کے چوہدری شجاعت حسین سے رابطوں کا تذکرہ نہیں ہو رہا،کیا پی ڈی ایم چوہدری پرویز الٰہی سے رابطہ نہیں کر رہا اور کیا یقین دہانیوں کا سلسلہ جاری نہیں؟کیا چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے سالک حسین نے لندن میں مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات نہیں کی؟کیا یہ ملاقات صرف ایک رسمی ملاقات تھی یا اِس کا مقصد پنجاب میں مستقبل کے نقشے کو سیدھا کرنا تھا۔مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اب بار بار کیوں کہا جا رہا ہے کہ عمران خان انتظار نہ کریں بلکہ پنجاب اسمبلی توڑ دیں وہ انتخابات میں مقابلہ کریں گے حالانکہ اِس وقت مسلم لیگ (ن) معاشی حالات کی وجہ سے تو مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں،اِس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں اور عمران خان پر دباؤ بڑھانے اور اُن کی ناکامی کو ثابت کرنے کے لیے انہیں اسمبلی توڑنے پر اُکسایا جا رہا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ دسمبر گذر جائے گا، اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی۔یہ ممکن ہے کہ پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی آ جائے گی کیونکہ چوہدری شجاعت حسین کا نواز شریف سے اپنے بیٹے کے ذریعے رابطہ معمولی بات نہیں۔ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ چوہدری اور شریف برادران میں شدید مخالفت ہے جس کی جڑیں تاریخ میں موجود ہیں مگر اب برف پگھل چکی ہے اور عمران خان کو تنہاء کرنے کے لیے شاید یہ کڑوی گولی بھی دونوں خاندان نگل لیں اورپنجاب اسمبلی بچانے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو راضی کر لیا جائے۔


عمران خان نے سیاست میں جو بے لچک رویہ اختیار کیا ہے اُس کی وجہ سے لگتا ہے کہ گیم اُن کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔عوامی احتجاج سکڑ کر شہروں میں چھوٹی چھوٹی ریلیوں تک محدود ہو گیا ہے اور وہ خود زمان پارک تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن کی یہ بات بالکل درست ہے کہ عمران خان نے پچھلے آٹھ ماہ میں اپنے حامیوں کو جلسوں اور ریلیوں کی نذر کر کے تھکا دیا ہے۔اتنے طویل عرصے بعد بھی کسی تحریک کا نتیجہ نہ نکلے تو مایوسی بڑھتی ہے۔اِس وقت یہ مایوسی تحریک انصاف کے کارکنوں میں بھی نظر آ رہی ہے اور رہنماؤں میں بھی۔اب آخری کارڈ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنا رہ گیا ہے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ آسان کام ہوتا تو عمران خان اِس پر اتنی لمبی مشاورت نہ کرتے۔اُن کے لیے یہ امر بھی قابل تشویش ہونا چاہیے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو جہاں صرف تحریک انصاف کی اکثریت ہے،وزیراعلیٰ اور تحریک انصاف کے صوبائی رہنما غیر مشروط توڑنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اُسے توڑنے کے لئے پہلے پنجاب اسمبلی توڑنے کی شرط رکھ دی ہے۔ ایک طرف عمران خان اِس امر کا بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اقتدار کے دِنوں میں اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور جنرل(ر) باجوہ تمام اختیارات استعمال کر رہے تھے تودوسری طرف وہ اقتدار سے محروم ہو کر خود کو اتنا طاقتور سمجھ رہے ہیں کہ اُن کے اشارے پر صوبائی اسمبیاں ٹوٹ جائیں گی۔یہ ایک طرح سے خوش فہمی اور تجاہل عارفانہ کی ایک صورت ہے جبکہ اُن کے مخالفین قیامت کی چال چل رہے ہیں۔اب جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو وطن واپس آنے کا گرین سگنل دے دیا گیا ہے تو اِس سے بھی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ملک کے سیاسی حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔کیا اِس موقعے پر عمران خان کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے اگلی باری مسلم لیگ(ن) کو دینے کا کہا تھا اور وہ شہباز شریف کو جینئس سمجھتے تھے؟کیا ایک ایسے ملک میں جہاں کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہو وہاں کوئی ایسی بات کہہ کر اپنے پاؤں کلہاڑی مار سکتا ہے؟کیا اِس بات سے وہ سب بااثر سیاست دان جو ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنی وفاداری کا فیصلہ کرتے ہیں عمران خان کو چھوڑ کر دوسری طرف کا رُخ نہیں کر لیں گے۔


اِس دسمبر میں معلوم ہو جائے گا کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔عمران خان اگر فوری انتخابات کرانے کی اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوئے تو پھر پاکستان میں سیاست رنگ بدلنا شروع کرے گی۔وہ صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کی حکمت عملی اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھر حکومت پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ہو گا کہ جو اُسے قبل از وقت انتخابات پر مجبور کر سکے۔ عمران خان اگر پورے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ دسمبر میں اسمبلیاں توڑ دیں گے لیکن اِس کے لئے اُن کے پاس صرف ایک دلیل ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اُن سے وعدہ کیا ہے۔کیا یہ دلیل اتنی مضبوط ہے کہ جس پر یقین کیا جا سکے؟ مجھے تو کپتان کی سادہ لوحی پر ترس آ رہا ہے۔وہ ایسے پتوں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں جو ہوا دینے میں دیر نہیں لگاتے۔

مزید :

رائے -کالم -