آتے ہیں خواب میں یہ مضامیں نئے نئے

  آتے ہیں خواب میں یہ مضامیں نئے نئے
  آتے ہیں خواب میں یہ مضامیں نئے نئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کچھ زیادہ دیر نہیں گزری، کیا اچھے زمانے تھے اور کالم نگاری اور کالم خواندگی کا کیسا سنہرا دور تھا۔ بس دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ باری باری اقتدار میں آتی اور چلی جاتی تھیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔ سیاستدان بھی خوش تھے اور عوام بھی ناخوش نہیں تھے۔ غریب غربا ء کا کیا ہے۔۔۔وہ تو ہر ملک اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں، اُن کی قسمت میں ازل سے ہی جو غربت لکھی ہوتی ہے۔۔۔
امراء کے دو طبقے ہوتے تھے۔ ایک نو اشرافیہ اور دوسرا سپر اشرافیہ۔ سپر اشرافیہ کو کبھی زوال نہیں آتا تھا اور نو اشرافیہ اگرچہ نیا تھا لیکن دن بدن تعداد میں کثیر سے کثیر تر ہوتا جاتا تھا۔ کرپشن یا بددیانتی بھلا کس معاشرے میں نہیں ہوتی؟ مغربی معاشرے کی چشم دید گواہ تو ہماری ساری اگلی پچھلی نسلیں تھیں۔ جتنی زیادہ کرپشن مغربی معاشروں میں تھی اتنی ہی زیادہ امارت اور خوشحالی کا دور دورہ وہاں ہوتا تھا۔ یقین نہ آئے تو اُن کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں۔ اُن کی ترقی کا راز کرپشن کی اُن اقسام پر ہوتا تھا اور آج بھی ہے جو اَن گنت ہیں۔ وہ معاشرے اگر ہمارے خون پر پلتے تھے تو یہ اُن کا قصور تو نہ تھا۔


اور جن کا قصور تھا وہ چپ تھے۔ اُن کے منہ کو چپ کیسے لگی یا لگائی گئی تو اُس کی بھی ایک تاریخ ہے، اُس کو بھی اٹھا کر دیکھ لیں۔۔۔اوہ! میں تو پاکستان کے پاپولر میڈیا میں گئے وقتوں کے سنہری ایام کا ذکر کر رہا تھا۔۔۔ہمارے پاکستان میں دونوں سیاسی پارٹیوں کی باریاں گویا نوشتہ ئ دیوار تھیں۔ اُن کے قائدین کیسے کیسے غریب پرور امراء تھے۔ کسی جگہ زلزلہ آتا یا سیلاب وغیرہ کی صورتِ حال پیدا ہوتی تو یہ حضرات فوراً اپنے سرکاری طیارے میں سوار ہو کر جائے حادثہ پر پہنچ جاتے۔ اُن کے طیارے اور ہیلی کاپٹر زیادہ دور پارک نہیں ہوتے تھے۔ ہاں البتہ میڈیا کو ہدایت تھی کہ اُن کی عکس بندی ہرگز نہیں کرنی۔ قائدین ربڑ کے سپیشل لانگ شوز زیبِ پا کر کے ایک ایک فٹ کھڑے گندے پانی اور کیچڑ میں اتر جاتے۔ وہاں سیلابی ریلوں میں گھرے لوگوں کے سروں پر دستِ شفقت رکھتے اور پھر متاثرین کے جھریوں زدہ چہروں کو دیکھ دیکھ کر رحم دلانہ گفتگو کے طومار باندھ دیتے۔ اپنی ٹیلی ویژن ٹیم ہمراہ ہوتی۔ اُس کو بریفنگ ہوتی کہ وزیراعظم کے بھیگے کپڑوں کو بطور خاص نمایاں کرکے دکھانا ہے۔ وزیراعظم موصوف کے چہرے مہرے کے تاثرات دیکھ دیکھ کر علاؤ الدین اور طالش جیسے کریکٹر ایکٹروں کے وہ سین نگاہوں میں گھوم جاتے جو کئی کئی بار کی ریہرسلوں کے بعد ’اوکے‘ کئے جاتے تھے۔ خبرنامہ دیکھنے والے ناظرین سیلاب متاثرین کی بپتا سن کر تو کم آزردہ خاطر ہوتے لیکن اپنے وزیراعظم کی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کو دیکھ دیکھ کر اُس پر دل و جان سے ریشہ خطمی ہو ہو جاتے۔۔۔ مگرمچھوں کی یاد کسی کو بھی نہ آتی۔۔۔ وزیراعظم جب پانی سے باہر نکلتے تو لشتم پشتم کی ساؤنڈ ریکارڈنگ سن کر اِس کیریکٹر ایکٹر کو ہیرو سمجھنے میں دیر نہ لگاتے۔ کیمرے کو اجازت نہ تھی کہ ہیلی کاپٹر یا سرکاری طیارے کی طرف جانے کی ویڈیو شوٹ کرنے کا خطرہ مول لے۔


اگلے روز یوں ہوتا کہ سارے اخباروں میں یہی سیلاب والی تصویر صفحہ اول پر لگ جاتی۔ آدھے صفحے پر شہ سرخی اور ڈیک پھیلتے اور چار پانچ کالموں میں وہ تفصیل درج کر دی جاتی جو اخبار کا رپورٹر مرتب کرکے اپنے ایڈیٹر کو پیش کرتا۔ یہ رپورٹ اگر 500 الفاظ پر مشتمل ہوتی تو ایڈیٹر کے ماتھے پر شکنیں ابھر آتیں اور جب رپورٹر کھسیانی ہنسی ہنس کر یہ کہتا کہ: ”سر باقی 500 الفاظ جب آپ کے قلم سے نکلیں گے تو ہمارے آنکھوں دیکھے واجبی سے مناظر، آپ کے دلکش پیراگرافوں اور دلآویز کوریج میں ڈھل جائیں گے!“
اُس کے بعد ہماری برادری یعنی کالم نگاروں کی باری آتی۔ میرے جیسے لوگ تو چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے تھے۔ اُن کو کسی خاص پارٹی سے کوئی غرض نہ تھی۔ جو پارٹی جیت جاتی اور اُس کا قائد، وزیراعظم بن جاتا تو بس اُسی کے ہو کے رہ جاتے۔ آدھا کالم سیلاب وغیرہ کی وجوہات پر لکھ ڈالنا کون سی بڑی بات تھی۔آخر سکول میں طبعی جغرافیہ بھی تو رٹا ہوتا تھا۔ بس اُسی کی جگالی کرکے باقی آدھے کالم میں وزیراعظم موصوف کے دورے اور اُس دورے میں غرباء پروری کے مناظر کی تصویر کشی آخر کون سی مشکل بات ہوتی تھی۔ قلم سنبھالا اور لکھتے چلے گئے۔ جہاں 14،15’سلیپیں‘ مکمل ہوئیں، اخبار والوں کے حوالے کر دیں۔ وہ جانیں اور اُن کا پروف ریڈر یا ادارتی صفحے کا ایڈیٹر۔ ہاں اگر خوشامد اور چاپلوسی کی عکاسی میں کوئی کمی رہ جاتی تو اُس ادارتی شعبے میں پوری کر کے ثوابِ دارین حاصل کر لیا جاتا۔۔۔بندہ بھی خوش اور خدا بھی خوش۔
پھر اگلا وزیراعظم دوسری پارٹی کا آجاتا توکالم نگار برادری کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی کا رخ دوسری طرف پھر جاتا اور اگر کوئی سکہ بند اور بزعم خویش وفاداری بشرط استواری کا قائل کالم نگار ہوتا تو اُسے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے سکے کا دوسرا رخ دکھلانے میں کون سی دیر لگتی؟
اُس کے بعد ایک عجیب انقلاب آیا اور حالیہ برسوں میں اس فنِ کالم نگاری میں ایک بڑا تغیر سا آگیا۔ خدا غارت کرے پی ٹی آئی کے بیانیے وضع کرنے والوں کو کہ سارا مزہ کرِکرا کرکے رکھ دیا۔ اِس نئے گروہ کا سرغنہ عمران خان نیازی تھا۔ اِس نے تو سارا کھیل ہی چوپٹ کر دیا۔ نجانے اُس کی آواز میں کیا جادو تھا کہ برنا و پیر، بزرگ و نوجوان اور مرد و زن جوق در جوق اُس کے جلسوں میں جانے لگے۔ اُس کا بیانیہ ایک ہی تھا جسے وہ ہر جلسے میں دہرا دیتا تھا لیکن ہر جلسے میں حاضرین کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہی اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ پاکستانی پبلک کا تقریباً 75 فیصد طبقہ عمرانی جلسوں کا تماشائی بننے لگا۔ ناچار وہ لوگ کہ جن کے ہاتھ میں حقیقی زمامِ اقتدار ہوتی ہے آگے بڑھے اور اس ”فتنے“ کو وزیراعظم ہاؤس سے چلتا کیا۔ دوسری طرف کالم نگاروں وغیرہ کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ اُس کی کردار کشی پر کمربستہ ہو گئے۔ پرانے لفافہ گیروں کی امیدوں پر گویا اوس پڑ گئی لیکن اُس کے باوجود بے وقوف لوگوں کا ہجوم امڈ آیا۔ صاحبانِ اقتدارِ حقیقی نے بہت سے کالم نگاروں اور اینکروں کو بے نقطہ سنانے اور دھمکانے کی کوشش کی لیکن لوگ شاید دیوانے تھے یا عمرانی اُلفت میں اِس بُری طرح سے گرفتار کہ گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوئے۔ روائتی کالم نگاروں نے اِس نئی بدعت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اب تک کرتے چلے آئے ہیں لیکن خدا معلوم اب اُن کو کوئی زیادہ گھاس کیوں نہیں ڈالتا!


اب کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور اِس میڈیا پر ڈگڈگی بجانے والوں کا ایک انبوہ بن چکا ہے جس کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں نے ہم جیسے روائتی کالم نگاروں کے بخیئے اُدھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔بظاہر پاکستان سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں نے اُن کو بہت سمجھایا بجھایا کہ دیکھو اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اور گزشتہ صراطِ مستقیم پر لوٹ آؤ لیکن یہ طائفہ ایسا گم کردہ راہ ہے کہ مان کر نہیں دیتا۔
خدا شاہد ہے کہ اِس قسم کی صورتِ حال تین چار برس پہلے ہرگز نہ تھی۔ وہ کیفیت یاد آتی ہے تو دل میں اِک ہوک سی اُٹھتی ہے اور اِک درد سا پیدا ہوتا ہے۔ اور ہم راتوں کو اُٹھ کر روئیں یا نہ روئیں، سارا عالم نجانے اُٹھ اُٹھ کر صرف ساڑھے تین برس کے عمرانی دور کے گن کیوں گاتا اور ہمارے گزشتہ دو خاندانوں کے 30برس کے عہدِ خوش اطوار کو کیوں بھول جاتا ہے!اب شکر الحمدللہ کہ آٹھ ماہ سے اِن خاندانوں کے دن پھر گئے ہیں اور باقی اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی انشاء اللہ عزیز جلد پوری ہو جائے گی۔۔۔دیکھتا جا، لہراتا اور بل کھاتا جا!

مزید :

رائے -کالم -