فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے ۔۔۔داستان ترقی پسند ادیب، شاعر اور صحافی ظہیر کاشمیری کی
تحریر : آغا نیاز احمد مگسی
آج ہم آپ کو اردو کےترقی پسند ادیب، شاعر اور صحافی ظہیر کاشمیری کی مختصراً داستان فن سنائیں گے ۔ ظہیر کاشمیری 21 اگست،1919ء کو امرتسر، ہندوستان میں پیدا ہوئے، اصل نام پیرزادہ غلام دستگیر تھا۔ انہوں نے میٹرک ایم اے او ہائی سکول امرتسر سے اور پھر ایم اے او کالج امرتسر سے بی اے کیا اور خالصہ کالج امرتسر میں ایم اے (انگریزی) میں داخلہ لیا مگر اسے مکمل نہ کر سکے۔
ظہیر کاشمیری نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبہ سے کیا۔ رسالہ "سویرا "کے ایڈیٹر رہے۔ کالم نگار کی حیثیت سے روزنامہ "احسان، نوائے وقت" اور" پکار" میں کالم لکھتے رہے۔ بعد ازاں روزنامہ "مساوات "اور روزنامہ "حالات س"ے بھی وابستہ رہے۔
ظہیر کاشمیری زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ ان کا شمار ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے آغاز ہی سے وابستہ ہو گئے اور اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنے ترقی پسندانہ خیالات میں اضافہ کرتے رہے۔ ظہیر کاشمیری مزدوروں کے عالمی حقوق کے لیے بہت سی ٹریڈ یونین تحریکوں سے بھی وابستہ رہے جس کے سبب قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
کاشمیری صاحب کی فلمی دنیا سے وابستگی کا ذکر کریں تو قیام پاکستان سے قبل وہ لاہور آ گئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ کہانیاں لکھیں اور کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔
کاشمیری صاحب جتنے عمدہ صحافی تھے اسی قدر عمدہ شاعری بھی کرتے تھے ۔اپنی شاعری میں انہوں نے انسانی آزادی اور عظمت کی جدوجہد کو تاریخی تسلسل میں دیکھا ۔ انسانی تاریخی کی ابتدا ءسے لے کر آج تک انسانی جدوجہد ان کے فکر و کلام کا خاص موضوع رہی ہے۔ عصری تغیرات اور تاریخی عمل سے نہ صرف یہ کہ ان کا فکر و فن ہمیشہ ہم آہنگ رہا بلکہ انسانی عز و شرف کی ان عظیم تحریکات سے عملی سطح پر بھی وہ وابستہ رہے ۔ ہم عصر تاریخ کا کوئی واقعہ یا آزادی یا انسانی حقوق کی خاطر کی جانے والی کوئی ایسی جہد و پیکار نہیں جس نے ان کے فکر و جذبہ کو تحریک نہ دی ہو اور جسے انہوں نے فن کے سانچے میں نہ ڈھالا ہو۔ ظہیر کاشمیری کا شمار اُردو کے ان چند قد آور شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اُردو شاعری خصوصاً غزل کو نیا رنگ دیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں" آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب" اور "حرف سپاس" کے نام شامل ہیں۔
ان کی تصانیف میں "،رقصِ جنوں،اُوراقِ مصور" اور"جہانِ آگہی" شامل ہیں ۔ظہیر کاشمیری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔
12 دسمبر، 1994ء کو لاہور میں اس عظیم صحافی و شاعر نے میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے.
ان کے کلام میں سے ایک انتخاب ملاحظہ کیجیے
موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گل بوٹوں کے رنگ اور نقشے اب تو یوں ہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغ صبح چمن تھے پابند فتراک ہوئے
مہر تغیر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا
صدیوں کے افتادہ ذرے ہم دوش افلاک ہوئے
دل کے غم نے درد جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پر نم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الھڑ سپنے تھے جو دور سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مکھ چہرے فصل بہاراں میں غم ناک ہوئے
برق زمانہ دور تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیرؔ اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے