کراچی بدامنی :ذمہ دار کون؟

کراچی بدامنی :ذمہ دار کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی آبادی کے حوالے سے پاکستان کا پہلا اور دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ تاریخی اعتبار سے شہر کراچی کا سلسلہ محمد بن قاسم کی فتوحات سے جا ملتا ہے۔ 1947ءمیں کراچی کو پاکستان کا پہلا دارالخلافہ بنایا گیا جو 1953ءتک اسی حیثیت سے جانا جاتا رہا۔ معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے حوالے سے کراچی خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ شہر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ سیاسی شعبے میں بھی کراچی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 2 کروڑ 10 لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں سب سے زیادہ حلقے ہیں اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والا شہر ہے۔ یہ شہر جو کبھی روشنیوں کی بھرپور عکاسی کرتا تھا اور امن و امان کے حوالے سے ایک پُرامن شہر تھا، 80ءاور90 ءکی دہائیوں میں تشدد کی زد میں آنے کے بعد مسلسل بدامنی کا شکار ہے۔ 90ءکے عشرے میں نواز شریف کی جانب سے کراچی کے حالات پر قابو پانے کے لئے فوجی آپریشن بھی کیا گیا، جس سے حالات کسی حد تک قابو میں آبھی گئے۔  1993ءمیں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور 2000ءکے دوران پرویز مشرف کے آنے کے بعد کراچی کے حالات دوبارہ خراب ہونا شروع ہوگئے، خصوصاً موجودہ دور حکومت کے دوران کراچی کے حالات تاریخ کے بدترین موڑ پر پہنچ چکے ہیں، امن و امان کا کنٹرول حکومتی ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے عام شہری بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ سیاسی حوالے سے مسائل کا حل بھی جمہوری حکومتوں کا خاصا ہوتا ہے، لیکن کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات میں نہ تو کوئی سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے کراچی کے حل کے لئے کوئی کردار ادا کیا۔ یوں تو کراچی میں کئی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اپنے مفادات کی جنگ لڑنے میں پیش پیش ہیں۔ یہ جماعتیں آپس کی محاذ آرائی کے باعث جہاں ہزاروں جانوں کے ضیاع کی ذمہ دار ہیں، وہیں کراچی کے حالات کو ابتر صورت حال تک پہنچانے میں بھی انہی جماعتوں کا ہاتھ ہے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ تینوں جماعتوں نے مختلف علاقوں میں اپنے ہیڈ کوارٹرز بنا رکھے ہیں، جہاں ان جماعتوں کی مرضی کے بغیر نہ تو کوئی کارروائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان جماعتوں کی منشا کے بغیر سماجی و معاشی سرگرمیاں تقویت پا سکتی ہیں، جس سے نہ صرف یہ جماعتیں اپنے علاقوں سے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے سرگرم رہتی ہیں، بلکہ یہ علاقے اسلحہ کا گڑھ بن چکے ہیں۔ کراچی جو ملکی معیشت کو فروغ دینے کے حوالے سے اہم شہر سمجھا جاتا تھا، ان جماعتوں کے مذموم کردار کے باعث تاریکی کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ اگر ایک طرف تینوں جماعتوں نے مختلف علاقوں کو ہائی جیک کیا ہوا ہے تو دوسری جانب اپنی قوت کو مزید بڑھانے کے لئے یہ جماعتیں کھلم کھلا بھتہ وصول کرتی ہیں، جس کے باعث نہ صرف کراچی کی معاشی سرگرمیاں بھرپور انداز سے متاثر ہو رہی ہیں، بلکہ معیشت کے لئے کردار ادا کرنے والی تاجر برادری بھی ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ یہ امر انتہائی مایوس کن ہے کہ اگر ایک طرف یہ نام نہاد سیاسی جماعتیں کراچی میں اپنی قوت بڑھانے کے لئے سرگرم ہیں تو دوسری جانب یہی جماعتیں بھارت، اسرائیل اور دیگر ملک دشمن ممالک کے اشاروں پر چلتے ہوئے کراچی کے حالات کو روز بروز خراب کرنے کے لئے آلہ¿ کار بنی ہوئی ہیں، جس کے باعث خود کش حملے، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کراچی کا معمول بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روشنیوں کے شہر کو میلی آنکھ سے دیکھنے والے آج ہماری سیاسی پارٹیوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ تینوں ملک دشمن جماعتوں نے کراچی کی روشنیوں کو اندھیروں میں بدل دیا اور پورے کراچی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اب ہر محب وطن کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کراچی کی رونقیں کیسے بحال کی جائیں گی؟ کراچی کی معیشت اور معاشی سرگرمیوں کو کب فروغ حاصل ہوگا؟ ایسے حالات میں کراچی کے لئے مثبت کردار کون ادا کرے گا؟ ان حالات میں اگر کراچی کے کروڑوں عوام سڑکوں پر نہیں نکلیں گے تو شہر کے حالات نہیں بدل پائیں گے اور یہ جماعتیں ان کے ساتھ اسی طرح کا کھیل کھیلتی رہیں گی۔ کراچی کے عوام کے خصوصی کردار کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کو، جن میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں، ان حالات میں آگے بڑھنا ہوگا اور کراچی کے حالات کو سدھارنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کروانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی، جو رائے عامہ ہموار کرنے کا موثر ذریعہ ہے، کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ کراچی کے عوام، محب وطن سیاسی جماعتیں اور میڈیا مل کر موثر کوشش کریں تو یقیناً بہت جلد کراچی کی رونقیں بحال ہو جائیں گی اور شہر کی معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی پروان چڑھنے لگیں گی۔  ٭

مزید :

کالم -