اُجالوں کا سفر
چکوال میں بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کے دوران مَیں ہمیشہ اس خطہ تاریخ ساز سے متاثر ہوا۔ یہ خطہ اپنے اندر نور و ظلمت کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ کہستان اناری، بادلوں کی اس سرزمین، شاہینوں کے نشمین اور فقیران کجکلاہوں کے حصار اور گل رنگ بیاباں، جسے چکوال کہا جاتا ہے ، نے کفر کی ظلمتیں بھی دیکھیں اور ایمان و اسلام کی پھوٹتی کرنیں بھی۔ مہا بھارت کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جین مت، ہندومت اور بدھ مت وغیرہ کے پیروکار یہاں مختلف ادوار میں حکمران رہے ۔ اُن کے رسوم اور رواج کے نشانات آج بھی چکوال کی دھرتی پر بکھرے پڑے ہیں۔ ضلع چکوال میں ہندومت کے ماننے والوں کا مقدس مقام کٹاس راج آج بھی موجود ہے، جہاں تقسیم پاک وہند سے پہلے برصغیر کے طول و عرض سے ہندو پجاری پوجا کے لئے آتے۔ کٹاس میں جین مت کے دور کی عبادت گاہ ست گھرا اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ تقسیم کے بعد ہندو اور سکھ چکوال سے ہندوستان منتقل ہوگئے ، لیکن ایک آدھ گھرانہ باقی رہ گیا۔ تحصیل چکوال میں واقع کوٹ چودھریاں میں ایک ہندو گھرانہ اب بھی بس رہا ہے ۔ اس گھرانے کے تین افراد سے ملاقات کا موقع ملا۔ سوچا اپنے تاثرات قلم بند کردوں ۔ 1980-90ءکے دوران ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی۔
چکوال میں میری تعیناتی کے دوران ایک بار دو ہندو بھائی مجھے ملنے آئے۔ بڑے بھائی کا نام چونی لعل تھا اور چھوٹے بھائی کا نام درشن لعل تھا۔یہ دونوں بھائی چکوال سے قریباً 30یا35کلو میٹر دور ایک مشہور موضع کوٹ چودھریاں کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد کا نام مکھن شا تھا۔ مَیں حیران ہوا کہ چکوال میں بھی ہندو بستے ہیں۔ روشن لعل بتانے لگا کہ ہم تقسیم ہند کے بعد ہندوستان نہیں گئے، ہمارے بزرگ والد صاحب سنار کا کام کرتے ہیں۔ جو ہمارا جدی پشتی پیشہ ہے۔ چونی لعل سکول ٹیچر تھا اور درشن لعل بھی تعلیم سے فارغ ہو کر ملازمت کی تلاش میں تھا۔ دونوں بھائی میرے پاس دفتر میں تھوڑی دیر بیٹھے رہے۔ان کا کام تھا جو مَیں نے فوری کردیا ۔ دونوں بھائیوں کے چہرے میں بڑے غور سے پڑھتا رہا۔ چونی لعل کے چہرے پر کفر کی سیاہی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے برعکس چھوٹے بھائی درشن لعل کا چہرہ روشن سا تھا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ یہ تضاد کیوں ہے مَیں نے ان کا کام کردیا اور کہا کہ آپ لوگ مجھے ملتے رہیں، بلکہ اپنے والد صاحب کو بھی کہیں کہ کبھی تشریف لائیں۔
ایک دن دونوں بھائی پھر مجھے ملنے دفتر آئے۔ ان کے ہمراہ سید غلام شاہ صاحب تھے جو ان دنوں چکوال میں ڈسٹرکٹ رجسٹریشن آفیسر تھے۔ شاہ صاحب سے شناسائی اور تعارف تھا ، کیونکہ شناختی کارڈوں کے سلسلے میں میٹنگ ہوتی تو میرے پاس آتے۔ شاہ صاحب درویش منش انسان تھے۔ لمبی زلفیں رکھتے ۔ آنکھوں میں عجب قسم کی مستی اور نور تھا۔ اکثر عمرے پر سعودی عرب جاتے ۔ شاہ صاحب کہنے لگے مَیں ان دونوں بھائیوں کا تعارف کرانے آیا ہوں۔ مَیں نے غرض کیا ان دونوں بھائیوں کو جانتا ہوں۔ شاہ صاحب نے آنکھوں آنکھوں کے اشارے سے مجھے سمجھایا کہ ان دونوں بھائیوں کو اہمیت دی جائے ۔ مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں آپ کے لئے ہمہ تن حاضر ہوں۔ اب شاہ صاحب نے بھی آپ کا تعارف کرادیا ہے ۔ آپ بلا جھجک مجھے ملا کریں ۔ وہ دونوں بھائی چلے گئے ۔ مَیں نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ پہلی مرتبہ اور اب بھی مَیں ان دونوں بھائیوں سے ملاہوں۔ بڑے بھائی کے چہرے پر مَیں نے کفر کی سیاہی دیکھی ہے ، لیکن چھوٹے بھائی درشن لعل کے چہرے کو مَیں نے زیادہ روشن پایا ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
شاہ صاحب کہنے لگے کہ مَیں دونوں بھائیوں پر محنت کررہا ہوں ۔ انہیں اسلام کی طرف راغب کررہا ہوں۔ بڑا بھائی تو کٹر ہندو ہے، میری بات تک نہیں سنتا، البتہ درشن لعل میری طرف راغب ہورہا ہے ۔ گو اس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا ، لیکن اسلام پر لٹریچر پڑھ رہا ہے ،بلکہ اب تو اس نے سرکار دو عالم ﷺ پر دورد شریف بھیجنا شروع کردیا ہے ۔ مَیں چونک اٹھا اور کہا کہ شاہ صاحب! اب تو یہ ہندو کنارے لگ گیا ہے .... آنحضور اسے ضرور اپنی طرف بلائیں گے۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ اس کا چہرہ کیوں روشن ہے ۔ مَیں اس کے چہرے پر نور دیکھ رہا ہوں۔ مَیں نے شاہ صاحب کو کہا یہ نورانی چہرہ دورد شریف کی برکت سے ہے۔ شاہ صاحب نے کہا ۔ اب مَیں جاتا ہوں، آپ ان بھائیوں کی مالی مدد بھی کیا کریں اور روشن لعل کو سروس بھی دلوائیں تا کہ میری محنت ثمر لائے اور یہ دائرہ اسلام میں داخل ہو۔ شاہ صاحب بڑی سنجیدگی سے اپنے مشن میں سرگرداں تھے۔
ایک دن کوٹھی پر مجھے اطلاع ملی کہ کوٹ چودھریاں سے مکھے شاہ مجھے ملنے آیا ہے۔ مَیں نے فوراً اسے بلوایااور باہر لان میں لگی کرسیوں پر اسے اور اس کے ہمراہ آئے ہوئے اس کے بیٹے درشن لال کو بٹھایا، مَیں نے مکھن شاہ کو خوش آمدید کہا اور اس کی خیریت دریافت کی، کہنے لگا صاحب ! مَیں سخت پریشان ہوں ۔ کوٹ چودھریاں کے ایک غنڈے نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ اپنی بیٹی کو میرے پاس بھیج دو ،وگرنہ مَیں پولیس کے ذریعے تمہاری بیٹی کو اور تمہیںتھانے بلا کر گرفتار کرادوں گا۔ مکھن شاہ کہنے لگا: صاحب! ہم ہندو گھرانے کے چند افراد ہی ہیں جو کمزور بھی ہیں اور بے یارو مددگار بھی ۔ ہم کدھر جائیں۔ ہماری عزت خطرے میں ہے۔ درشن لعل بھی سہما ہوا اپنے والد کے پہلو میں بیٹھا تھا۔مَیں نے کہا، عزیز کیوں پریشان ہو۔ کہنے لگا، ہم بہت پریشان ہیں اور غنڈے بہت بااثر ہے۔ ہماری عزت بہت خطرے میں ہے ۔ مَیں نے باپ بیٹے کو تسلی دی۔پھر فوراً وائرلیس کے ذریعے متعلقہ تھانے کو پیغام بھجوایا کہ درشن لعل کی مکمل داد رسی کی جائے اور متعلقہ افرادکے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ مَیں نے درشن لعل کو کہا کہ تمہاری بیٹی میری بیٹی ہے ۔ اگر اس غنڈے کی طرف سے تمہیں دوبارہ دھمکی ملے تو فوراً اطلاع دینا۔ اول تو میرے پیغام کے بعد اس غنڈے کا صحیح علاج ہوجائے گا۔ درشن لعل حوصلے میں آگیااور خوشی خوشی اجازت لے کر واپس اپنے گاﺅں لوٹ گیا۔
چند ہفتوں کے بعد سید غلام شاہ درشن لعل کو لے کر میری کوٹھی پر آیا۔ دونوں بہت خوش تھے۔ شاہ صاحب کہنے لگے درشن لعل نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب اس کا موجودہ نام درشن لال کی بجائے محمد فہیم اختر ہے ۔ مَیںبھی بہت خوش ہوا۔ مٹھائی بانٹی ۔ میرے پاس ایک ریشمی سبز چادر تھی جو مجھے کسی عرس پر محکمہ اوقات والوں نے دی تھی۔ مَیں نے وہ سبز چادر منگوائی اور محمد فہیم اختر کے کندھوں پر ڈالی اور مبارک باد دی۔ محمد فہیم شرمانے لگا۔ شاہ صاحب فوراً بولے: فہیم آپ کیوں شرماتے ہیں۔ ڈی سی صاحب کی طرف سے سبز چادر پیش کرنا آپ کے لئے باعث اعزاز ہے۔ گھبراتے اور شرماتے کیوں ہو۔ اس سبز چادر کو اپنے کاندھوں پر سجاﺅ اور مبارک قبول کرو۔مَیں بہت خوش تھا کہ شاہ صاحب نے درشن کو کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشن شاہراہ پر گامزن کردیاہے۔ شاہ صاحب کہنے لگے: اب فہیم کی شادی ہونے والی ہے ۔ اب ہم لوگ حج کاارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ فہیم، اس کی اہلیہ اور شاہ صاحب کی حج کی درخواستیں منظور ہوئیں اور فہیم جلد ہی اس روضہ اطہر پر حاضری دینے پہنچ گیا۔ جس کی ذات بابرکت پر وہ چودھریاں سے دوردِ پاک بھیجا کرتا تھا۔ حضور اکرم نے کس قدر بے پایاں شفقت فرمائی اور اپنے ایک شیدائی کو کفر کے اندھیروں سے باہر نکالا۔
ایک بار محمد فہیم اختر مجھے ملنے آیا ۔ مَیں نے اس سے کہا تم کس قدر خوش نصیب ہو کہ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہو۔ مَیں نے اسے کہا کہ سرکار دو عالم پر زیادہ سے زیادہ درود شریف بھیجا کرو۔ پھر مَیں نے اسے کہا کہ تم جہنم کی دائمی آگ سے انشاءاللہ بچ گئے ہو۔ مَیں نے اسے تقسیم ہند سے قبل کا ایک واقعہ سنایا جو پروفیسر نعیم الرسول نے مجھے سنایا تھا۔ پروفیسر مذکور چکوال میں تعینات تھے اور ان کا تعلق لِلہ شریف سے تھا۔ وہاں کے سجادہ نشین ان کے بھائی تھے ۔ واقعہ یوں ہے کہ 1947ءسے قبل لِلہ شریف(ضلع جہلم ) میں ایک سنار رہتا تھا جو ہندو تھا۔ جب بھی اذان ہوتی تو وہ اپنے بیٹوں کو کہتا کہ مسجد سے آنے والی اذان کا احترام کرو اور کام بند کردو ، لیکن اس کے بیٹے کام نہ روکتے اور برابر ٹک ٹک کرتے رہتے اور زیور بناتے ہتے ۔ وہ ہندو ہربار اپنے بیٹوں کو ڈانٹتا رہتا کہ تم اچھا نہیں کررہے ۔ وہ خود اذان غور سے سنتا اور احترماً ہمیشہ کام بند کردیتا۔ جب اس ہندو کی موت واقع ہوئی تو اس کی برادری نے چتا جلائی اور اس کی لاش کو سوکھی لکڑیوں پر رکھا اور کافی مقدار میں مٹی کا تیل ڈالا۔ دیا سلائی سے کئی مرتبہ آگ لگانے کی کوشش کی ، لیکن آگ نہ لگی ۔ مسلمانوں کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس بزرگ ہندو کو دفن کرتے ہیں۔ یہ اذان اور کلمہ طیبہ کو غور سے سنتا تھا اور احترام کرتا تھا ہم اسے جلنے نہیں دیں گے۔ اس بزرگ ہندوسنار کی لاش نے بھلا آگ سے کیا جلنا تھا۔ آگ جلتی ہی نہیں تھی۔ سب ہندو بے بس ہوچکے تھے کہ ہم جلائیں کیسے؟ مسلمانوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ہم اسے دفن کریں گے ۔ حالات سنگین ہوگئے، تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ۔ انگریز ڈپٹی کمشنر نے حکم دیا کہ متعلقہ انتظامیہ اس مسئلے کو سلجھائے، چنانچہ پنڈدادن خان کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا ہندو کی لاش کو نہ جلایا جائے اور نہ فن کیا جائے، بلکہ دریائے جہلم میں بہادیا جائے۔ اس طرح تصادم کا خطرہ ٹل گیا۔
جب مَیں محمد فہیم اختر کو یہ ایمان افروز واقعہ سنا چکا تو وہ کہنے لگا آپ درست فرما رہے ہیں۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اس دنیا میں ہی دکھا دیتے ہیں، فہیم نے بھی ایک واقعہ سنایا:”میرے دادا جان جو سنار تھے، ان کی دکان کوٹ چودھریاں میں مسجد کے قریب تھی۔ دادا جان نمازیوں کا بہت احترام کرتے۔ چنانچہ انہوں نے مسجد کو جانے والی گلی کو جو کچی تھی ، اینٹوں سے پختہ کروا دیا۔ جب دادا جان کی وفات ہوئی تو چتا چلائی گئی تا کہ انہیں اس دنیا سے الوداع کیا جائے۔ کافی مٹی کا تیل ڈالا گیا ۔ تمام کاوشوں کے باوجود آگ نہ لگی۔“محمد فہیم کہنے لگا:” مَیںسمجھتا ہوں یہ حیرت انگیز واقعہ اس وجہ سے رونما ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے گھر کو جانے والی گلی کو پختہ کروایا تھا۔ آگ ان کے جسم پر کیونکر اثر کرتی ان کے جسد خاکی کو جلاتی !“۔