پی ایس ایل :سپاٹ فکسنگ کے الزامات کے پس منظر میں عالمی قوتیں کار فرما

پی ایس ایل :سپاٹ فکسنگ کے الزامات کے پس منظر میں عالمی قوتیں کار فرما

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تجزیہ :نعیم مصطفےٰ

پی ایس ایل میں دو کھلاڑیوں شرجیل خان اور خالد لطیف پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات نے پورے ٹورنامنٹ کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ابتدائی تحقیقات میں جو انکشافات ہو رہے ہیں وہ اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ سپاٹ فکسنگ کے ان الزامات کے پس منظر میں عالمی قوتیں کار فرما ہیں ۔ کچھ کے مقاصد تو محض قمار بازی کے نتیجے میں کمائی کے ہیں جبکہ پاکستان مخالف پختہ ذہن رکھنے والے ان الزامات کو ہوا دے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں ۔پی ایس ایل کی ابتدا میں ہی اس قسم کے الزامات کا سامنے آنا اچنبہ ہے اور تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تانے بانے بھارتی بکیوں سے ملتے ہیں ۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی اصل صورتحال سامنے آئے گی لیکن اب تک جو کچھ منظر عام پر ہے یا تمام امور کے پس منظر اور پیش منظر کو مد نظر رکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ بعض قوتوں کو پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ایک آنکھ نہیں بھا رہی ۔ جب سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے واضح طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہو گا تو یہ پاکستان دشمن قوتیں زیادہ سرگرم ہو گئی ہیں اور اس مقصد کے حصول میں سرگرداں ہے کہ کسی طرح انٹرنیشنل کرکٹ کو پاکستان سے دور کر دیا جائے ۔اس حوالے سے سب سے زیادہ اہم رول پاکستانی میڈیا کا بنتا ہے جسے سپاٹ فکسنگ کے اس معاملے میں کہیں زیادہ محتاط رویئے کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سپاٹ فکسنگ کے الزامات میں اس حد تک چلے جائیں جہاں دشمن کے عزائم کامیابی کو چھو لیں ۔
جہاں تک مذکورہ دونوں کھلاڑیوں پر عائد الزامات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پی سی بی کے سرکردہ قائدین بھی اسے ہوا دینے میں پیش پیش ہیں انہیں بھی جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے ہوش مندی کا ثبوت دینا ہو گا۔ پی ایس ایل پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات لگا کر سارے ٹورنامنٹ کو بدنام کرنے کے کھیل میں جو جو بھی ملوث ہے ان کے چہروں سے نقاب ضرور اٹھے گا لیکن اگر کوئی بھی اس نقاب کشائی سے پہلے ان کے ہاتھوں استعمال ہو گیا تو اس سے بڑی نادانی کوئی نہیں ہو سکتی۔میچ فکسنگ کے الزامات پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف کھلاڑیوں پر لگتے رہے اور اب بھی لگ رہے ہیں لیکن جن ممالک نے ان الزامات کا دانش مندی سے سامنا کیا وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بہتر پرفارمنس کے حامل ہیں اور جو پی ایس ایل کے حالیہ معاملات کی طرح جذبات میں بہہ گئے انہیں بدنامی کے سوا کچھ نہیں ملا۔میچ فکسنگ کی تاریخ یا پس منظر کے حوالے سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 90 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ کی وجہ شہرت دو ڈبلیوز کی تباہ کن بولنگ کے علاوہ ہر دو کی ٹیم میں گروپنگ اور میچ فکسنگ کے لاتعداد الزامات بھی تھے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا تو جسٹس قیوم سے تحقیقات کرائی گئیں جنھوں نے تمام تر برائی کی جڑ سلیم ملک کو قرار دیتے ہوئے ان پہ تاحیات پابندی عائد کر دی۔وسیم اکرم کو چند لاکھ جرمانہ ہوا اور دیگر کو علامتی سزائیں دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔شرجیل اور خالد لطیف کیوں؟کئی سال بعد جب وسیم اکرم اور جسٹس قیوم دونوں ریٹائر ہو چکے تھے، جسٹس قیوم نے ایک اخباری انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ وہ ذاتی طور پہ وسیم اکرم کے بہت بڑے مداح تھے ۔سو انھوں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں وسیم اکرم کو ’شک کا فائدہ‘ دیا تھا۔یہ بہرحال انھوں نے واضح نہیں کیا تھا کہ اس ’شک‘ کے فائدے سے کسی اور نے بھی فیض پایا یا پھر اکیلے وسیم اکرم ہی اس معیار پہ پورے اترے۔جسٹس قیوم نے تمام تر برائی کی جڑ سلیم ملک کو قرار دیا اور ان پہ تاحیات پابندی عائد کر دی۔2003 میں وسیم، وقار اور ان کے دیگر ساتھی ریٹائر ہو گئے۔ اس کے بعد کئی سال تک پاکستان کرکٹ فکسنگ کے الزامات سے محفوظ رہی تاآنکہ ورلڈ کپ 2007 میں پاکستان آئرلینڈ سے ہار گیا۔ تب باب وولمر کے انتقال اور اس ہار کو نتھی کر کے فکسنگ الزامات کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر کچھ بھی ثابت نہ ہو پایا۔2009 کے سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کی حیران کن شکست نے ایک بار پھر فکسنگ الزامات کو زندہ کر دیا۔ مگر پی سی بی نے ان الزامات کو درخور اعتنا نہ جانا اور پھر 2010 کا لارڈز ٹیسٹ آ گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا بھیانک ترین باب ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر پہلے نہیں تو کم از کم سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد ہی پی سی بی یہ طے کر لیتا کہ اسے ایسے مشکوک کرداروں کے بارے آئندہ کیا لائحہ عمل اپنانا ہے۔ آئی سی سی کا کام تو کھیل کو شفاف رکھنا ہے، سو وہ اپنی طرف سے چند سال کی پابندی ہی عائد کر سکتی ہے مگر پی سی بی کی ذمہ داری صرف کھیل کو شفاف رکھنا ہی نہیں، سپر لیگ کے دوران ’بک میکرز سے رابطہ‘، شرجیل خان اور خالد لطیف معطل یہ فیصلہ کر لیا جانا چاہئے تھا کہ جن کھلاڑیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہوا، کیا وہ دوبارہ پاکستان کرکٹ سے وابستہ ہونے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا ان کی واپسی سے پاکستان کرکٹ پھر سے شبہات کی زد میں نہیں آ جائے گی؟مگر ایسا کوئی بھی فیصلہ نہ کیا جا سکا۔اب کی بار پی سی بی نے ایک اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ شرجیل اور خالد کو فوری طور پر واپس پاکستان بھیجا گیا۔ عرفان اور دیگر سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے۔ پی سی بی کے اس اقدام سے جہاں پی ایس ایل کی شفافیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ پی سی بی فکسنگ کے معاملے میں اب کی بار کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔مگر کیا صرف معطلی اور تحقیقات ہی کافی ہیں؟اور پھر اس میڈیائی طبقے کا کیا جو آج تو اس مسئلے پہ سب سے زیادہ شور مچا رہا ہے لیکن کل کلاں یہی طبقہ انھی کھلاڑیوں کی معصومیت ثابت کرنے اور ٹیم میں واپسی کی راہ ہموار کرنے میں لگ جائے گا۔وہ لوگ جنھوں نے 2010 کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل پر سب سے اونچی آواز میں بین کیے تھے، تین سال بعد محمد عامر کے حق میں پروگرام کر رہے تھے اور اس کی ٹیم میں واپسی کے مطالبے کر رہے تھے۔ اور اسی پہ موقوف نہیں، وہی ماہرین آج بھی سلمان بٹ اور محمد آصف کی واپسی کے لیے بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔سپاٹ فکسنگ پر سلمان بٹ اور محمد آصف پر پانچ سال کی پابندی لگائی گئی تھی۔جب ایک کھلاڑی کو یہ معلوم ہو کہ اگر وہ پکڑا بھی گیا تو صرف چند سال کی پابندی کے بعد پھر وہی قوم کی امیدوں کا محور ٹھہرے گا، اسی کی واپسی کے لیے ٹاک شوز برپا ہوں گے اور قوم اسے ’معاف‘ بھی کر دے گی تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ صرف کھیل کی شفافیت کا جھنڈا اونچا کرنے کے لیے لاکھوں ڈالرز کو لات مار دے؟مگر ساری ذمہ داری پی سی بی اور میڈیا پر ڈالنا بھی بجائے خود درست نہیں ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں بھی اب یہ طے کر لینا چاہیے کہ ہمارے اصل ہیرو کون ہیں۔ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ ہر عظیم بولر اور ہر بہترین بیٹسمین قومی ہیرو نہیں ہوا کرتا۔کرکٹ جینٹل مین کی گیم ہے اور کوئی بھی اس گیم سے بڑا نہیں ہے خواہ وہ ہنسی کرونئے جیسا بہترین کپتان ہو یا اظہرالدین جیسا لاجواب بیٹسمین۔ بھارت اور جنوبی افریقہ بہت پہلے یہ جان گئے تھے۔

مزید :

تجزیہ -