اُمید کی کِرن
قارئینِ کرام۔۔۔! پاکستان کا سب سے مؤقر ادارہ سپریم کورٹ ہے جو بہت سے ایسے گھمبیر مسائل سے دوچار ہے جن کا زیادہ تر تعلق ہمارے پیارے ملک کی فلاح و بہبود اور بہتری سے ہے۔۔۔جبکہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے پاس اپنی اور اپنے ملک کی بقاء و سلامتی اور عوامی حقوق کی حفاظت کے لئے صرف دو ہی سہارے ہیں۔۔۔ ایک پاک فوج اور دوسرا سپریم کورٹ۔
اور یہی وجہ ہے کہ آج ہر متا ثرہ شخص یا تو چیف جسٹس کو پکارتا ہے یا آرمی چیف کو دْہائی دیتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ سیاسی قیادت اور حکمرانوں نے قوم کو مایوس کردیا ہے۔۔۔ عوام کا اعتماد اپنے منتخب نمائندوں سے اٹھ چکا ہے۔۔۔یہ لوگ منتخب ہوکر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل ادراک واحساس ہو چکا ہے۔۔۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ برس جو کارنامے انجام دیئے ہیں، ان کا احاطہ جگہ کی کمی کے باعث آج کے اس کالم میں ممکن نہیں ہے۔۔۔مگر انھوں نے سالِ رواں یعنی 2018ء کے آغاز ہی میں زینب کیس۔۔۔ میمو گیٹ سکینڈل۔۔۔ فیک نیوز سکینڈل۔۔۔ عاصمہ قتل کیس۔۔۔ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس۔۔۔ اسماء زیادتی کیس۔۔۔ نقیب اللہ محسود قتل کیس۔۔۔ کے علاوہ دیگر درجنوں چھوٹے بڑے کیسز میں ازخود نوٹس لے کر عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے کی جو معرکتہ الآرا کوشش کی ہے، اس کی بدولت انہوں نے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔
انہوں نے ججوں سے جو خطاب فرمایا ہے وہ بھی نہایت قابلِ تحسین اور ملک و قوم کے لئے انتہائی آکسیجن آور ہے۔۔۔ انہوں نے ججوں سے اپنے خطاب میں جن خوبصورت عزائم کا اظہار کیا وہ درحقیقت پاکستان کے ہر حسّاس دل کی آواز ہے۔۔۔اس اجلاس میں ان کا ہر ہر جملہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔۔۔انھوں نے اپنے خطاب میں ججز کو تلقین کی کہ ہماری عدلیہ ریاست کا ایک ایسا اہم ستون ہے جس پر ہمارے معاشرے کی پوری عمارت استوار ہے۔
اگر اس ستون نے کارکردگی نہ دکھائی اور عوام کو جلد سے جلد انصاف مہیا کرنے میں غفلت و تساہل برتا تو یاد رکھئے کہ ہماری یہ ریاست عدمِ توازن کا شکار ہوجائے گی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جج صاحبان کو یہ بھی کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لئے آپ کو اللہ کے سوا کسی بھی مخلوق سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے آپ لوگ عوام کو سچا انصاف مہیا کرنے میں راستے کی کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں۔۔۔ انہوں نے اپنے خطابِ میں یہ بھی کہا کہ اگر ملک میں ’’گریٹ لیڈر اور گریٹ منصف آ جائیں تو پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکے گا‘‘۔۔۔اس عزم میں انھوں نے قوم کو جو کھلا پیغام دیا ہے اس پر ہر محبِ وطن کو خوش ہونا چاہئے کہ چیف جسٹس نے اس قوم کا علاج سوچ لیا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ مژدہ جانفزا بھی سنایا کہ ’’میں جمہور یت کو کسی قیمت پر پٹری سے نہیں اترنے دوں گا اور ان شا اللہ العزیز بہت جلد بڑے بڑے مگر مچھوں کو کٹہرے میں لاکر رہوں گا‘‘
قارئینِ کرام۔۔۔! بلاشبہ جناب چیف جسٹس کا یہ عزم و یقین پوری قوم کے لئے ایک ایسی نوید ہے جس نے دْکھتے دِلوں اور ’’زخمی معاشرے‘‘ کو ایک نئی امید دلائی ہے۔۔۔ زخمی معاشرے کی تصویر کَشی برادرِ محترم جناب شعیب بن عزیز نے اپنے ایک کلام میں کیا خوب کی ہے کہ ’’رات گزرتی دکھائی دیتی ہے۔۔۔ دن نکلتا نظر نہیں آتا‘‘ لیکن راقم کو امید ہے کہ اب اندھیرے بہت جلد چھٹنے والے ہیں اور دن نکلنے والا ہے۔۔۔ مگر افسوس کہ دن نکلنے کی امید پر میں جب بھی ٹی وی کھولتا ہوں تو مختلف چینلز پر ملک کے سیاسی قائدین اور اراکین کی انتہائی بے مغز۔۔۔ بالکل بے مقصد بحث و تمحیص اور بے جا مکالمہ بازی اور بد تمیزیاں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔۔۔ جن پر دل خون کے آنسو روتا ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ قوم کو بیوقوف سمجھتے ہوئے نْورا کشتی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔۔۔ انہیں ملک و قوم کے مسائل حل کرنے میں یا بہتری لانے کے لئے کچھ کر گزرنے سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں ملک کی بقاء پر یقین ہے جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کاروبار ،گھر بار ، جائیدادیں اور اولادیں برطانیہ ،امریکہ ،سوئیٹزر لینڈ اور عرب امارات میں منتقل کر رکھی ہیں تاکہ جب کبھی ( خاکم بدہن ) ملک پر کوئی افتاد پڑے یا ناگہانی خطرہ منڈلانے لگے تو یہ لوگ فوراً ملک چھوڑ کر با آسانی فرار ہوسکیں۔