مہاجروں کی سیاست جا نای رخ سینیٹ انتخابات کے بعد ہی متعین ہوگا

مہاجروں کی سیاست جا نای رخ سینیٹ انتخابات کے بعد ہی متعین ہوگا
مہاجروں کی سیاست جا نای رخ سینیٹ انتخابات کے بعد ہی متعین ہوگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:قدرت اللہ چودھری


ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کو اُن کے عُہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، جس کے جواب میں اُنہوں نے پوری رابطہ کمیٹی تحلیل کر دی ہے اور ورکرز کنونشن میں نئے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ انتخاب تو ہو جائیں گے اور امکان یہی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کے بُلائے ہوئے اجلاس میں اُنہیں ہی دوبارہ کنوینر مُنتخب کر لیا جائے لیکن وقتی طور پر ڈاکٹر فاروق ستار کو یہ نقصان ہوا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار اُن کے پاس نہیں رہ گیا اور ریٹرننگ افسر نے قرار دے دیا ہے کہ خالد مقبول صدیقی کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ اُن کے لئے قابلِ قبول ہے، جن امیدواروں کو خالد مقبول صدیقی کے دستخطوں سے سرٹیفکیٹ دیا گیا وہ ایم کیو ایم کے امیدوار سمجھے جائیں گے۔ دو روز قبل الیکشن کمیشن نے ڈاکٹر فاروق ستار کے دستخطوں سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کو تسلیم کیا تھا لیکن اُس وقت تک وہ بھلے سے کنوینر تو تھے لیکن رابطہ کمیٹی کا اس وقت بھی یہی موقف تھا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی جس امیدوار کو سرٹیفکیٹ دے گی وہ اُن کا نمائندہ تصور ہوگا۔ تاہم فاروق ستار کا اصرار تھا کہ بطور کنوینر اور سربراہ اُن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ ہی منظور ہوگا۔ اب نئی صورتِ حال میں واضح طور پر دو گروپ بن گئے ہیں جو علیحدہ علیحدہ شناخت کے ساتھ سیاست کریں گے۔
اِس گروپ بندی کا فوری طور پر اثر تو سینیٹ کے انتخاب پر ہی پڑے گا، لیکن فیصلہ کن کردار اِس بات کا ہوگا کہ ووٹر (صوبائی اسمبلی کے ارکان) کِس کو ووٹ دیتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے آٹھ ارکان ایسے ہیں جو ایم کیو ایم کو چھوڑ کر پاک سرزمین پارٹی میں جا چُکے ہیں۔ ظاہر ہے وہ تو اپنے نئے لیڈر مصطفےٰ کمال کے نامزد امیدواروں کو ہی ووٹ دیں گے جنہوں نے چار امیدوار کھڑے کر دیئے ہیں۔ سندھ میں جنرل نشست پر ایک سینیٹر منتخب ہونے کے لئے 24 ووٹ (اوّلین ترجیح) درکار ہیں، اِس لحاظ سے تو پی ایس پی کا کوئی سینیٹر منتخب نہیں ہو سکتا۔ اُنہوں نے غالباً اِس اُمید پر چار امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے ہیں کہ کیا پتہ کِسی سودے بازی کے نتیجے میں اُن کے بندوں کی ہی لاٹری نِکل آئے کیونکہ اِس وقت رابطہ کمیٹی، فاروق ستار اور پی ایس پی کے نامزد امیدوار میدان میں ہیں، اگر ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم کا کوئی بھی امیدوار مُنتخب نہیں ہو سکے گا، لیکن اگر متحدہ کے تمام ارکانِ اسمبلی متفقہ امیدواروں کو ووٹ ڈالیں تو چار ارکان منتخب کرا سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم ہمیشہ سے جس قِسم کی سیاست کرتی آئی ہے اُس میں اِس طرح کے ڈرامائی موڑ آتے رہتے ہیں، استعفے دیئے جاتے ہیں، واپس بھی لئے جاتے ہیں، لیڈروں کو نکالا جاتا اور پھر معافی بھی دے دی جاتی ہے۔ عامر خان ایم کیو ایم چھوڑ کر حقیقی میں چلے گئے تھے اور سالہا سال بانی ایم کیو ایم کے عتاب کا شکار رہے، جیل بھی کاٹی لیکن پھر وہ واپس آ گئے اور انہیں معافی مل گئی۔ عامر خان کے بارے میں اِسی لئے فاروق ستار ’’حقیقی ٹو‘‘ کی پھبتی کستے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کی تشکیل کے وقت اس کی لیڈرشپ میں شامل نہیں تھے۔ اُنہوں نے 87ء کے بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیا اور کونسلر منتخب ہوگئے، ایم کیو ایم نے میئر کے لئے اپنا امیدوار اختر رضوی کو بنایا تھا لیکن بُہت سی وجوہ کی بنا پر قُرعہ فال ڈاکٹر فاروق ستار کے نام نِکل آیا اور اختر رضوی کی بجائے وہ میئر منتخب ہو گئے۔ وہ 93ء میں ایم کیو ایم میں عام کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے، انہیں پہلی مرتبہ اس سال رابطہ کمیٹی کا رُکن بنایا گیا، اس دوران اُن کی رکنیت منسوخ اور بحال ہوتی رہی۔ متنازعہ تقریر کے بعد جب انہوں نے ایم کیو ایم لندن سے اپنے رابطے توڑے تو ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آئی، جس کی قیادت وہ کرتے چلے آ رہے تھے کہ رابطہ کمیٹی نے پانچ روز قبل ان کے خلاف بغاوت کر دی، فوری وجہ تو سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم بنی، لیکن اب ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ سینیٹ کے ٹکٹ تو محض بہانہ تھا، اصل معاملہ یہ تھا کہ رابطہ کمیٹی اُنہیں قیادت سے الگ کرنے کا پروگرام بنا چُکی تھی اور آج بلّی تھیلے سے باہر آ گئی۔
سیاسی جماعتوں میں گروپ بندیاں تو ہوتی رہتی ہیں، مہاجروں کے نام سے جو تنظیمیں اس وقت سیاست کر رہی ہیں، اُن میں ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ساتھ لندن سے وابستہ تنظیم بھی ہے، پاک سرزمین پارٹی بھی ایم کیو ایم سے الگ ہونے والوں نے بنائی، مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے جو تنظیم کام کر رہی ہے وہ کِسی زمانے میں ایم کیو ایم حقیقی کہلاتی تھی جب ’’مہاجر‘‘ کی جگہ ’’متحدہ‘‘ متعارف کرایا گیا تو حقیقی نے اپنا نام مہاجر قومی موومنٹ رکھ لیا۔ اب سینیٹ کے الیکشن کے جو بھی نتائج ہوں گے، اُن سے پتہ چلے گا کہ عام انتخابات میں مہاجروں کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی۔ فاروق ستار کو اب تک ارکانِ قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی، سینیٹروں اور بلدیاتی ارکان کی حمایت حاصل تھی، اب اس تقسیم کی وجہ سے کچھ ارکان رابطہ کمیٹی یعنی نئے کنوینر خالد مقبول کے ساتھ ہیں اور بعض فاروق ستار کی حمایت کر رہے ہیں، سینیٹ کا ہنگامہ ختم ہو گا تو عام انتخابات کا مُشکل مرحلہ سامنے ہوگا۔ اس وقت پتہ چلے گا کہ مہاجروں کے ووٹ کِس گروپ کو پڑتے ہیں۔ فاروق ستار کا پلڑہ بھاری رہتا ہے یا خالد مقبول صدیقی کا، خالد مقبول صدیقی کا تعلق حیدر آباد سے ہے اور اُن کے حقیقی چچا شمیم صدیقی ہی مہاجروں کی تنظیم بنانے کے روحِ رواں تھے، ابھی چند ماہ پہلے ہی اُنہوں نے ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی اختیار کی ہے۔

مزید :

تجزیہ -رائے -