کابینہ کی منظوری سے قبل اربوں روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان
وزیر اعظم عمران خان نے چینی اور آٹے کے بحران کا ملبہ جہانگیر ترین اور مخدوم پر ڈالنے کے الزام کی خود تردید کر دی ا ور کہا ہے کہ جہانگیر ترین کا اس بحران سے کوئی تعلق نہیں جبکہ جہانگیر ترین نے اب چینی درآمد کرنے کا مطالبہ کر دیا قومی اقتصادی کونسل نے جس کا اجلاس مشیر خزانہ کی صدارت میں ہوا، درآمد سے انکار کر دیا کہ ملک میں چار ماہ کے لئے سٹاک موجود ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کونسل کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد فوری طور پر بند کر دی گئی۔ چینی کے بحران کو دو ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ عوامی احتجاج اور واویلے کے باوجود برآمد نہ روکی گئی اور اب فیصلہ ہوا جب برآمد کرنے والے زر مبادلہ کما بھی چکے اور اب درآمد کا مشورہ دے رہے ہیں۔
دریں اثناء وزیر اعظم کی صدارت میں مرکزی کابینہ کے اجلاس میں جو اہم فیصلے کئے گئے ان کے بارے میں ایک روز پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آٹا، چینی، چاول، گھی اور دالیں دس سے پندرہ فیصد تک سستی کرنے کے لئے دس سے پندرہ ارب روپے ضمنی گرانٹ کے طور پر منظور کئے گئے دس ارب روپے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو دیئے جائیں گے۔ یہاں بھی یہ حقیقت جاننے کی ضرورت ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے ابھی گزشتہ ہفتے کے دوران ان اشیاء کے نرخوں میں مزید اضافہ کیا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل 6 ارب روپے کارپوریشن کو دیئے گئے تھے وزیر اعظم کی ہدایت پر سستے تندور 10 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار کر دیئے گئے اور ان کو قرض بھی دیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے ذخیرہ اندوزی اور مافیا کا بھی بار بار ذکر کیا اور کارروائی کا اعلان کر دیا لیکن نہ تو ابھی تک کوئی ذخیرہ اندوز پکڑا گیا اور نہ ہی کسی مافیا کا نام لیا گیا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم کے ریلیف پیکج پر بھی اعتراض کئے گئے کہ ملک کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اور یہ سب اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ سینٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ دوستوں کو فائدہ پہنچا کر اب عوام کے نام پر مزید رقوم خراب کی جا رہی ہیں۔
ملکی سیاست بھی کرونا وائرس کا شکار نظر آ رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ داخلی سیاست کو لاحق امراض بھی کرونا وائرس کی طرح لا علاج ہیں۔ ملک کے اندر سیاسی استحکام ایک خواب ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن سے زیادہ اپنے حلیفوں سے گھائل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کہ حکومت کے ناراض حلیف ملے جلے اشارے دے رہے ہیں۔ کیا ان ناراض حلیفوں کو ایسا کرنے کے لئے کہیں اور سے اشارہ مل رہا ہے یا ان کی ڈوری کہیں اور سے ہل رہی ہیں۔ اس پر دارالحکومت میں مسلسل قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ پارلیمینٹ میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان بھی درون خانہ کچھ کھچڑی پکا رہے ہیں۔ بعض سیاسی زعما کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب کے حکومتی اور حلیف ارکان اسمبلی کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پھوٹ سکتی ہے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی قیادت دھیرے دھیرے سے حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے! کیا (ن) لیگ صرف اپنے مطالبات منوانے کی غرض سے یہ حربے اختیار کر رہی ہے یا ان مطالبات کی آڑ میں (ن) لیگ کا کوئی بڑا سیاسی ایجنڈا ہے اس پر وفاقی دارالحکومت میں چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں جبکہ لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان زیادہ لچک کے مظاہرہ کو سیاسی طور پر بلیک میل ہونے کے مترادف تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے (ق) لیگ سے صلح جوئی کے لئے جو ٹیم تشکیل دی اس میں پاکستان تحریک انصاف کے سخت گیر خیالات کے حامل زعماء کے تحفظات کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے جوڑ توڑ کے ماہر جہانگیر ترین کو شامل نہیں کیا گیا تاہم حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شفقت محمود چودھری برادران کو رام کرنے میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، وفاقی وزیر شفقت محمود چودھری برادران سے ملاقات کرنے اس کے پاس گئے تو بھی چودھری شجاعت حسین ان سے نہیں ملے انہیں صرف چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس ملاقات میں برف نہیں پگھلی اور ڈیڈ لاک برقرار رہا تاہم سوموار کو لاہور میں ہوئی ملاقات مثبت رہی۔ ق لیگ کے مطالبات مان لئے گئے عمل کے لئے اگلا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی مونس الٰہی کی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے ایک ٹھوس مؤقف اپنایا ہے وہ اس میں لچک دکھانے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ اس طرح (ق) لیگ کے ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز کے معاملہ اور ان کو ملنے والی وزارتوں میں بیورو کریسی کے ذریعے مداخلت سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ (ن) لیگ کا ناراض اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اپنے اتحادیوں سے فاصلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی میدان میں دبنگ انٹری کا باعث بن سکتے ہیں۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب حکومتی اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہوں کہ ملک میں مہنگائی اور افراط زر اپنی تاریخ کے عروج پر ہے۔ حکومتی عمل حد درجہ کمزور ہو رہا ہے کہ حکومت سبزیوں، پھلوں اور روز مرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی قابو میں رکھنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے۔ کبھی آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کی بنا پر راولپنڈی میں نانبائی مظاہرے کر رہے ہیں تو کبھی چینی مافیا کے سامنے حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض عناصر کی مفاد پرستی کی بدولت آٹے اور چینی کی مہنگائی نے غریب عوام کو نشانہ بنا رکھا ہے جبکہ وفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ مہنگائی کم ہو جائے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 لاکھ سے زائد لوگ موجودہ حکومت کے دور میں خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایف بی آر نے جس بے دردی سے ٹیکسوں کی وصولی کے لئے عوام کو نشانہ بنایا ہے اس کے باوجود معاشی پالیسیوں کی بدولت ریونیو کی وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہو پائے حتیٰ کہ حکومت نے مفادات کے تصادم کے تصور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کے چوٹی کے ٹیکس وکیل کو چیئرمین ایف بی آر کے عہدہ پر تعینات کیا۔ لیکن چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی پر اسرار رخصت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے ریونیو ہدف میں مزید 300 ارپ روپے کی کمی کی درخواست کر دی ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی درخواست کے مطابق اپنے اہداف میں نظر ثانی کرلے گا کیونکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر جس طرح ملکی معیشت اور پاکستان عوام کو نچوڑا ہے اس لئے زیادہ نچوڑنا ممکن نہیں۔ دریں اثناء امریکہ اور اس نے زیر اثر مالیاتی ادارے پاکستان سے چین سے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے اور پاکستان کی طالبان سے مذاکرات کی سہولت کاری کے عوض خاصا نرم رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس بنا پر امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کے لئے سفری شرائط میں نرمی برتنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ جی ایس پی پلس کے معاملہ پر بھی یورپی یونین کی توسیع کے لئے غور کر رہی ہے جبکہ یورپی یونین اس توسیع کے لئے پاکستان میں چائلڈ لیبر، انسانی حقوق کی صورتحال اور پاکستان میں این جی اوز کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ اگر یورپی یونین جی ایس پی پلس میں توسیع کا اعلان کرتی ہے تو پاکستان کو ان تمام شعبوں میں بہتری لانے کی ضمانت دینا ہو گی۔
دوسری طرف چین میں جنم لینے والے کرونا وائرس کے حامل فلو سے دوسرے ممالک بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر چین نہایت دلیری اور استقامت سے اس آفت کا مقابلہ کر رہا ہے جبکہ چین میں اس وقت 28 ہزار پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں اگر چینی حکام کے مطابق ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر بعض طلبہ کے ویڈیو پیغام سن کر ملک بھر میں ایک تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے ان 28 ہزار طلبہ کے پاکستان میں والدین شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ اگرچہ چین میں پاکستانی مشنر میں ان طلبہ کی مددکے لئے ہاٹ لائنز قائم کی گئی ہیں جبکہ چینی حکام بھی بیانات دے رہے ہیں کہ پاکستانی طلبہ کو بھرپور مدد فراہم کی جا رہی ہے پاکستان نے چین کے ساتھ تقریباً ایک ہفتہ کے تعطل کے بعد فضائی رابطے بحال کر دیئے ہیں جس پر صحت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں پاکستان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ چین سے آنے والے مسافروں کی مکمل سکریننگ کی جا سکے اور متاثرہ مریضوں کو بیماری کے تقاضوں کے مطابق علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ چین میں پیدا شدہ اس بحران کی بدولت عارضی طور پر پاک چین تجارتی اور کاروباری تعلقات و سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ جس کے اثرات پہلے ہی سے سست روی کی شکار معیشت پر مرتب ہوں گے۔