واہ ری سیاست کیا کہنے!

 واہ ری سیاست کیا کہنے!
 واہ ری سیاست کیا کہنے!

  


قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی 33 نشستوں کے ضمنی انتخابات 16 مارچ کو ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے خالی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور پہلے سابقہ تجربے کی بنیاد پر عمران خان ہی کو پوری کی پوری نشستوں پر امیدوار بنایا پھر بوجوہ یہ فیصلہ تبدیل کر کے ان تمام اراکین کو امیدوار نامزد کر دیا گیا جن کے مستعفی ہونے سے یہ نشستیں خالی ہوئی تھیں اور یوں تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ اسی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ جن 43 اراکین کے استعفے بعد میں منظور کئے گئے وہ سب عدالت میں چلے گئے اور لاہور ہائی کورٹ نے استعفے منظور کرنے کا حکم عارضی طور پر معطل کر کے الیکشن کمیشن کو ہدایت کر دی کہ ان نشستوں پر تا حکم ثانی ضمنی انتخابات نہ کرائے جائیں، اس کے بعد ان اراکین میں سے چند اراکین نے قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں شرکت کی تو ان کو ایوان میں داخلے کی اجازت نہ دی گئی وجہ یہ بیان کی گئی کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ یا حکم موصول نہیں ہوا اس لئے نوعیت کا علم نہیں۔ فیصلے کی نقل آ جانے کے بعد ہی سپیکر قانونی ٹیم سے مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔ حکومتی اتحاد کی مزید حکمت عملی یہ ہو گئی کہ اگلے روز جب اجلاس میں کورم کی نشان دہی کی گئی تو اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا اور یوں عارضی طور پر داخلہ تو کجا اجلاس ہی ختم ہو گیا یوں معاملہ اگلے اجلاس تک ٹل گیا جبکہ اب معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان اراکین کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے روک دیا ہے۔


دوسری طرف تا حال مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اکثر اراکین نے ان نشستوں کے لئے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں تاہم پی ڈی ایم کی طرف سے پیپلزپارٹی سے خاص طور پر کہا گیا ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لیں یہ غالباً اس لئے کہ اتحادی حکومت فوری انتخابات کے حق میں نہیں حتی کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں بھی دلچسپی نہیں اور ممکنہ حد تک تمام انتخابات کو عام انتخابات کے ساتھ منسلک کرنا چاہتا ہے حالانکہ اب تو لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف والوں کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو ہدایت کر دی ہے کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ 90 روز کے اندر انتخابات ہوں اس لئے صوبائی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے دونوں صوبوں کے گورنر حضرات نے تاریخ کے تعین سے معذرت کر لی تھی۔ تحریک انصاف نے تو اسے اپنی فتح سے تعبیر کیا ہے لیکن اتحادیوں کی سوچ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہونی چاہئے اور انتخابات کے التوا کے لئے معاشی اور اندرونی حالات کا ذکر کر کے عدالتوں ہی سے التوا کی ہدایت لینا چاہئے اس سلسلے میں پہلے سندھ حکومت اور بعد ازاں بلوچستان حکومت کر سکتی ہے۔
یہ احوال واقعی ہیں جو تحریر کر دیئے ہیں سوال یہ ہے کہ سب جماعتیں جمہوریت کا نام لیتی اور انتخابات میں حصہ لینے کو جمہوری عمل قرار دیتی ہیں لیکن ان واقعات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کو جمہوریت سے کوئی غرض نہیں ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے حالانکہ اس ملک میں آئین موجود ہے اور اب تک انتخابی عمل اسی کے حوالے سے جاری رہا لیکن اب آئین سے بھی انحراف کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کی حکمت عملی وہی جانتی ہے یا پھر اس کے سربراہ خان صاحب کو علم ہوتا ہے کہ وہی فیصلہ کرتے اور پھر تبدیل بھی کر دیتے ہیں جہاں تک اتحاد والوں کا تعلق ہے تو اس وقت سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی بات ہے کہ نہ نگلے بن رہی اور نہ اگلے بنے گی کہ اب ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے کل تک عمران خان کو طعنے دیئے جاتے تھے آج انہی کا عمل دہرایا جا رہا ہے اور خان صاحب کو تو عدالت عظمٰے میں جاری سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان کے ریمارکس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا جو قومی اسمبلی خالی کر دینے کے حوالے سے ہیں۔


مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رویئے بھی ان کے اپنے سیاسی مفادات کے تابع ہیں قارئین کو یاد ہوگا کہ عدم اعتماد سے پہلے اور اس کے بعد بھی یہ خبر تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف نے حکومت سنبھال کر آگے چلنے کی بجائے فوری عام انتخابات کا مشورہ دیا تھا لیکن بوجوہ مانا نہ گیا کہ محمد شہباز شریف ایسا نہیں چاہتے تھے اور معیشت کو سنبھال لینے کے دعوے کےساتھ حکومت سنبھال لی اور اب تک چلائی جا رہی ہے تاہم آج جو حالات ہوئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ بادی النظر میں اتحادی حکومت سے معاشی حالات سنبھلنا نا ممکن نظر آ رہا ہے اور اگر ایسی صورت میں ضمنی یا عام انتخابات ہوتے ہیں تو عوام گرانی اور پریشانی کے حوالے سے حکومت مخالف ووٹ کریں گے اور یوں شکست کا اندیشہ ہے، ان حالات کی درستگی ہی کے لئے تو مریم نواز شریف کو لانچ کیا گیا اور خود میاں نوازشریف کی آمد بھی متوقع ہے جو مریم نواز کے گرین سگنل کے بعد ہو گی چنانچہ ہمارے حالات میں بہتری کی توقع کے لئے غار میں دور تک دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی سب زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف پُر یقین ہے اور اس لئے انتخابات پر زور دے رہی ہے۔
اب سیاسی صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف میدان میں ہے۔ پی ڈی ایم راہ فرار اختیار کر چکا تاہم پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم میدان میں موجود ہے۔ لاہور سے سینئر راہنما اورنگ زیب برکی نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیںجب ان کی توجہ پی ڈی ایم کے موقف کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے جواباً کہا انتخابات جمہوری اور آئینی عمل کا حصہ ہیں۔ میدان خالی چھوڑنا درست نہیں، ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے کارکن متحرک ہوں گے اور عوام تک رسائی ہو گی ان کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل پارٹی کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہیں جبکہ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ 2018ءکے انتخابات میں ان سے چھینی جانے والی نشستوں کو دوبارہ حاصل کر کے رہے گی ان انتخابات میں نشستیں چھینی گئیں ہم حالیہ ضمنی انتخابات میں واپس لے لیں گے۔ (پیپلزپارٹی سندھ میں میدان کیسے چھوڑ دے؟) اے این پی ، وطن پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) حق میں نہیں اور یہ پی ڈی ایم میں اختلاف کا مظہر ہے۔


سیاسی جماعتوں کے یہ رویئے عجیب و غریب ہیں جمہوریت سب کے لئے ہے اور انتخابی عمل اسی کا تقاضہ ہے لیکن اب ہر کوئی اپنے مفاد کی بات کرتا ہے۔ اس طرح حالات بہتر ہونے کی توجہ نہیں انہی وجوہات کی بناءپر ہم مسلسل یہ تجویز کرتے چلے آ رہے ہیں کہ انتخابی عمل کو بہتر اور شفاف بنانے کے لئے ملکی اتفاق رائے ہونا چاہئے جو اس طرح ممکن ہے کہ فریقین اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود میز پر بیٹھیں اور انتخابی عمل کے لئے سازگار ماحول میں بات کر کے تاریخ اور لائحہ عمل بھی طے کریں ان مذاکرات میں ضابطہ اخلاق پر بھی غور ہو سکتا ہے اور دھاندلی سے پاک انتخابی عمل کے لئے تجاویز منظور کی جا سکتی ہیں اور یہی بہتر راہ عمل ہے ورنہ ”سیاست میں گند“ تو پڑ ہی چکا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -