پاک۔ ایران تعلقات: ایک جائزہ (4)

ایران کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کا تعلق اسلامی دور سے ہے اور دوسرے کا انقلابی دور سے۔ بظاہر یہ دونوں ادوار اسلامی ہیں لیکن میں نے قارئین کی سہولت کی خاطر ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ عربوں کی فتحِ ایران (ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں) کے بعد ایران میں اسلام کا عہد شروع ہوا جو 1978ء تک جاتا ہے۔ سینکڑوں برسوں پر محیط اس دور کا آخری حصہ رضا شاہ پہلوی کی معزولی تک چلتا ہے۔
اگست 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تو سب سے پہلے جس ملک نے اسے اقوامِ متحدہ میں تسلیم کیا وہ ایران تھا۔ اس سے ایران۔ پاکستان کے تعلقات کا آغاز ہوتا ہے۔ ایران ان برسوں میں مکمل طور پر مغربی بلاک (امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی) میں شامل رہا۔ پاکستان بھی سیٹو اور سنٹو معاہدوں کا حصہ بنا۔ دونوں کے اسلحہ جات اور افواج مغربی بلاک کی پیداوار اور تربیت یافتہ تھیں۔ ایران کی گراؤنڈ، ائر اور نیول فورسز بھی بیشتر مغربی بلاک، خاص طور پر امریکی اسلحہ جات سے لیس تھیں۔ پاکستان کو بھی 1950ء کے اوائل میں ساڑھے پانچ ڈویژن Raise کرنے کا موقع ملا جس کا خرچہ امریکہ نے اٹھایا۔ ان ساڑھے پانچ ڈویژنوں میں ایک ٹینک ڈویژن بھی تھا جس کی اقامت ایک نئی چھاؤنی میں کی گئی۔ کھاریاں کینٹ کی تعمیر اسی دور میں ہوئی اور اس میں پاکستان کا پہلا آرمرڈ ڈویژن مقیم کیا گیا۔راقم السطور کو بھی ہیڈکوارٹر 6آرمرڈ ڈویژن، کھاریاں میں تین برس گزارنے کا موقع ملا۔(1977ء تا 1980ء)۔ پہلی قسطوں میں لکھ آیا ہوں کہ M-48 اور M-60 قسم کے ٹینکوں اور اس کے بعد پیٹن ٹینکوں کی رجمنٹیں بھی کھاریاں میں مقیم رہیں۔ آج کل یہ ڈویژن گوجرانوالہ کینٹ میں ہے۔
کھاریاں کے قیام کے دوران 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور شاہی دور ختم ہوا۔ پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بھی ان برسوں میں برادرانہ اور دوستانہ رہے۔ انقلابی ایران کو آغاز ہی سے جن دشواریوں کا سامنا ہوا ان کا تعلق فوج سے تھا۔ایرانی فوج شاہ کی وفادار تھی۔ انقلاب کے فوری بعد عراق۔ ایران وار شروع ہوئی۔ عراق کی پشت پر امریکہ تھا۔ ایران کی نئی فوج IRGC کہلائی جسے سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس کی نفری کو شروع شروع میں تربیت اور اسلحہ کے استعمال کی مشکلات کا سامنا ہوا۔
یہ ایران۔ عراق جنگ 8سال تک (1980ء تا 1988ء) چلتی رہی اور اس کا خاتمہ جب ہوا تو کسی بھی فریق کو صریح فتح نہ مل سکی۔ بس جنگ بندی ہو گئی۔ 1985ء میں میری پوسٹنگ GHQ میں ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس دور میں ایرانی آفیسرز پاکستان کا دورہ کیا کرتے تھے۔ ایرانی فوج کے پاس ان ایام میں شاہ کے زمانے کا چھوڑا ہوااسلحہ ہی موجود تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار 603ورکشاپ راولپنڈی میں مجھے ایرانی وفد کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ ایرانی فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں کے حصے پرزے جو پاک فضائیہ کے زیرِ استعمال بھی تھے، ان کی خرید وغیرہ کے سلسلے میں بات چیت ہوتی رہی۔ انہی برسوں میں ٹیکسلا میں کئی بار ٹینکوں کی پروڈکشن وغیرہ دیکھنے کا موقع بھی ملا اور کامرہ میں بھی ائر فورس کی تعمیر و مرمت کے اولین مراحل میں بھی ایرانی اہلکاروں کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔
میں یہ تفصیل اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس دور میں جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی تھی تو ایرانی وفود پاکستان میں باقاعدگی سے آتے جاتے رہے۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف مقرر ہوئے۔ ان کے تین سالہ دور میں پاکستان آرمی کی ایک بڑی ایکسرسائز ”ضرب مومن“چلائی گئی جس میں دو لاکھ افسروں اور جوانوں نے حصہ لیا۔ یہ دو طرفہ ایکسرسائز تھی۔ ایرانیوں نے چار جرنیلوں پر مشتمل ایک بڑا ملٹری وفد اس ایکسرسائز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جس کا حوالہ میں نے پہلے بھی اس مضمون میں دیا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ افسرِ رابطہ اور انٹرپریٹر(مترجم) کے طور پر جانے کا اتفاق ہوا۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ 1988ء کے بعد ایران نے یکدم ایک بڑی چھلانگ لگائی اور اپنی مسلح افواج کوجدید بنانے کا ایک سٹرٹیجک پروگرام ترتیب دیا۔ اس نے جوہری پروگرام کی طرف بھی بطور خاص توجہ دی اور اپنے روائتی ہتھیاروں (آرمر، آرٹلری، ائر) کی جگہ میزائل فورس کی پروڈکشن پر بیشتر توجہ مرکوز کر دی۔ یہ ایک طرح کی عسکری نشاۃ ثانیہ کا دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ایرانی رہنماؤں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ورودِ اسلام سے پہلے قیصر و کسریٰ کا دور ایران کا ایک اہم ترین دور شمار کیا جاتا ہے اسے ایرانِ باستان بھی کہا جاتا ہے۔ اب ایرانی اربابِ اختیار نے اپنی سرحدی حدود سے باہر نکل کر اپنے عسکری پاؤں پھیلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس پراجیکٹ میں روس نے ایران کی مدد کی۔ بالخصوص جوہری پروگرام، میزائلی پروگرام اور ڈرونوں کی پروڈکشن کے باب میں ایران نے اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دی اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں ایک مخیرالعقول کامیابی حاصل کی۔
ایران کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ بڑا ثروت مند (Rich) ہے اور ایران کو (بجا طور پر) اس پر ناز بھی ہے۔ ایران میں ڈرونوں اور میزائلوں کی پروڈکشن اور ان کی بیرونی ملکوں کو برآمد، مغربی بلاک کے لئے ایک حیرت انگیز درد سر ہے۔ ایران مغرب میں اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر عراق، شام اور لبنان تک اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکا ہے اور اس کے بعد بحیرۂ روم تک جانے کاآرزومند ہے۔ اس کی نگاہیں مشرق کی طرف بھی لگی ہیں۔ پاکستانی بلوچستان پر حالیہ حملہ اس کا ایک مظہر ہو سکتا ہے۔ لیکن جلد ہی ایرانی حکام کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان کی طرف دیکھنا، عراق، شام اور لبنان کی طرف دیکھنے سے بالکل ایک مختلف بات ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ان دونوں ملکوں میں اب باہمی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
ایران کی مسلح افواج میں ارتش (آرمی) سپاہِ پاسداران (IRGC)اور بسیج (نیم مسلح سرحدی افواج) کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس تمام نفری کا تخمینہ تقریباً 8لاکھ مسلح افراد تک لگایا جاتا ہے۔ ان میں سپاہِ پاسداران کا پلڑا ارتش کی نسبت زیادہ اہم اور بھاری ہے۔ شام میں لوائے باقر اور قوت الرضا، عراق میں حزب النجابہ، یمن میں انصار اللہ، بحرین میں ال اُشتر، افغانستان میں لوائے فاطمیان اور پاکستان میں نوائے زینبیوں نام کی عسکری تنظیمات بتائی جاتی ہیں۔
ایرانی ڈرونوں میں کمان، مہاجر اور شاہد کے سلاسل شامل ہیں اور میزائلوں میں شہاب (اول، دوم، سوم) ذوالفقار، فتحِ مبین، دِیزفُل اور قائم وغیرہ کی رجمنٹیں موجود ہیں۔ ایرانی میزائل، مسلح افواج کا اہم ترین حصہ ہیں جن کی رینج 2500کلومیٹر تک ہے۔ ان میں خیبرشکن نام کا میزائل جدید ترین تصور کیا جاتا ہے۔یہ گائیڈڈ میزائل ہے اور اس کی رینج 1500کلومیٹر ہے جو اسرائیل تک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
روس، ایرانی ڈرونوں اور میزائلوں کا ایک بڑا خریدار ہے۔ ایران کی بحری افواج خلیج فارس کے پانیوں میں دندناتی دیکھی جا سکتی ہیں۔
ایران کی یہ عسکری قوت، پاکستان کے لئے بھی ایک شاندار ثانوی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔مغربی بلاک کی فورسز جب بھی ان دونوں ملکوں (ایران اور پاکستان) کی طرف کسی بُری آنکھ سے دیکھتی ہیں تو ان کو جوہری اور میزائلی پاکستان کے علاوہ جوہری راہ پر گامزن اور میزائلی ایران بھی نظر آتا ہے اور یہ صورتِ حال، اس ریجن کے لئے دونوں ممالک کے اربابِ اختیار اور عوام کے لئے نہایت حوصلہ افزاء ہے۔(ختم شد)