بڑا ہی سنسنی خیز اور پرجوش دور تھا جسے بھلایا نہیں جا سکتا،ایک دفعہ ہم سائیکلوں پر سمبڑیال چلے گئے،ساری زندگی موٹر سائیکل نہیں چلائی،کار چلانا امریکہ میں سیکھا
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:12
اب ذہن میں نہیں رہا کہ میں نے سائیکل چلانا کب سیکھا تھا، یقیناً یہ میرے ہائی سکول کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ یہ بڑا ہی سنسنی خیز اور پرجوش دور تھا جسے بھلایا نہیں جا سکتا، حالانکہ اس سکھلائی کے دوران میں متعدد بار گر ا اور اپنے ہاتھ پیر بھی چھلوائے اور چوٹیں بھی لگوائیں لیکن میں نے گھر والوں کو اس کی ہوا تک نہ لگنے دی، اگر اُنھیں اس بات کا علم ہو جاتا تو میرا یہ پسندیدہ شغل ختم ہو جانا تھا اور میاں جی کے ہاتھوں جھاڑ پونچھ کے امکانات بھی موجود تھے۔ اور ہاں جب میں نے سائیکل چلانے میں مہارت حاصل کر لی تو میں ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا کہ کب سائیکل ہاتھ لگے اور میں اپنا شوق پورا کرلوں۔ میں ”آنے بہانے“ امی جی سے پوچھتا رہتا کہ ان کو خالہ کے ہاں سے کوئی چیز تو نہیں منگوانی۔ وہ وہاں سے کوئی 4کلو میٹر دور رہتی تھیں اور وہاں تک سائیکل پر آنے جانے کا لطف بھی آتا تھا۔ ایک دفعہ تو ہم سائیکلوں پر سمبڑیال بھی چلے گئے تھے، جو ڈسکہ سے 12کلو میٹر دور ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، وہاں ایک مسجد کے خوبصورت میناروں کو دیکھنے چلے جاتے تھے۔ کچھ عرصے بعد سائیکل چلانے کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔ اور اب میں اس کو اسی وقت نکالتا تھا جب کوئی کام ہوتا تھا۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی موٹر سائیکل نہیں چلانا سیکھی، اس لیے میں سائیکل سے اتر کر براہ راست کار پر ہی سوار ہوا اور یہ بتاتا چلوں کہ کار چلانا میں نے امریکہ ہی میں سیکھا۔
میں نے اپنی پرائمری سکول کی تعلیم 1951 میں مکمل کی اور پھر میں ڈسکہ کے ہائی سکول میں پانچویں جماعت میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پہلی بار مجھے چوکی کے بجائے بنچ پر بیٹھنے کا موقع ملا تو مجھے ایک عجیب سی ناقابل بیان خوشی اور تفاخر کا احساس ہوا۔پانچویں کے نصاب میں روایتی مضامین کے ساتھ انگریزی، سائنس، ڈرائینگ اور دیگر مضامین بھی شامل ہوگئے تھے۔ یہاں کے اساتذہ زیادہ تعلیم یافتہ اور سر گرم تھے۔ سکول میں طلبہ کی تعداد بھی پچھلے پرائمری سکول سے کہیں زیادہ تھی۔ یہاں کے زیادہ تر طالب علم مجھ سے عمر میں بڑے تھے اور میں ان سے خوفزدہ ہی رہتا تھا۔خوش قسمتی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہ پا کر میں جلد ہی اس ماحول میں مدغم ہو گیا۔ یہ سکول ایک وسیع رقبے میں پھیلا ہوا تھا اور یقیناً میرے پہلے سکول سے کہیں بڑا تھا۔ یہاں بڑے بڑے کھیل کے میدان بھی تھے جہاں اسکول کے طلبہ اکٹھے ہو کر مختلف تفریحی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ ان دنوں ہم نصابی سرگرمیوں کو غیر نصابی سرگرمیاں کہا جاتا تھا۔ مجھے کھیل کود سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس لیے میں نے اپنی توجہ نصابی اور تعلیمی سرگرمیوں تک محدود رکھی اور اس میدان میں، میں ان سے قدرے بہتر بھی تھا۔ جلد ہی میرے اساتذہ کرام نے تعلیم میں میرے اعلیٰ معیار اور کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک بار پھر مجھے کلاس کا مانیٹر بنا دیا اور پھر یہ سلسلہ سکول میں آخری کلاس تک میرے ساتھ ہی چلتا رہا۔ آج سمجھتا ہوں کہ اس رتبے پر کام کرنا کوئی ایسی خوشی کی بات بھی نہیں تھی لیکن میں اسے ہمیشہ اپنے لیے ایک اعزازہی تصور کرتا رہا۔
میرا یہ سکول بھی گھر سے محض5 منٹ کی پیدل مسافت پر تھا اس لیے مجھے کبھی کسی سواری کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی۔ میرے اس سکول میں داخلے کے بعد میاں جی نے میری تعلیم بارے مڑ کر بھی نہ پوچھا، اب ان کی ذمہ داری صرف ماہانہ فیس کی ادائیگی تک ہی رہ گئی تھی۔ انھوں نے کبھی بھی مجھ سے میری تعلیمی سرگرمیوں، امتحانوں میں پیش رفت یا ہوم ورک کے بارے میں استفسار نہ کیا تھا۔ یہ بات آج کل کے والدین کے لیے ایک مستقل سر درد بنی رہتی ہے۔ ہاں میری ماں میرے ساتھ رابطے میں رہتی تھیں لیکن وہ بھی تعلیم کے سلسلے میں نہیں بلکہ وہ مجھے تعلیم کے لیے ایک اچھا ماحول فراہم کرنے میں پیش پیش رہتی تھیں۔ وہ مجھے اور میرے دماغ کو ترو تازہ رکھنے کے لیے میری خوراک کا خاص خیال رکھتیں اور مجھے باقاعدگی سے دودھ اور دہی وغیرہ کھلاتی تھیں۔ یہ ماں کے پیار اور دیکھ بھال کا ایک انوکھا اور خوبصورت انداز تھا جسے میں کبھی نہیں بھولا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔