ڈنر کیلیے اندر گئے تو اچھی خاصی رونق تھی، سب گٹا گٹ مشروب پی رہے تھے اور میں تازہ ریسرچ کے بوجھ تلے دبا پھیکا پانی بمشکل حلق سے نیچے اُتار رہا تھا
مصنف:ع۔ غ۔ جانباز
قسط:45
ایک مصروف ترین اتوار
23 اگست 2015ء شام کو افتخار اینڈ فیملی نے ڈنرپر بلا یا ہوا تھا۔ لہٰذا اَسماء نے ایک گفٹ اور گھر کی بنی گلاب جامن لی اور پونے آٹھ بجے رات چل دئیے۔ آدھے گھنٹے کی مسافت تھی۔ وہاں پہنچے تو گھر کے باہر گاڑیوں کے شو روم کا سا سماں تھا۔ خیر گاڑی کھڑی کر کے اندر گئے تو اندر ما شاء اللہ اچھّی خاصی رونق تھی۔ بس یہی کوئی10 فیملیز کو مدعو کیا ہوا تھا۔ بچّوں سمیت 40 نفوس کا زور و شور تھا۔ مشروب کا دَور چل رہا تھا۔ میں نے بھی سادہ پانی پی کر اپنا حصّہ ڈالا۔ اِن مشروبات پر ایک ریسرچ نے ابھی اثر دکھایا ہوا تھا کہ مشروب کا ایک چھوٹا گلاس پینے سے 10 چمچ چینی اندر چلی جاتی ہے اور وہ اندر بڑی سُرعت سے چربی میں تبدیل ہونے لگتی ہے اور اِس طرح موٹاپا وجود میں آکر آپ کی جسمانی شباہت کو بھاری بھر کم کر کے مُشکلات میں اَضافہ کر دیتا ہے۔ باقی حضرات گٹا گٹ پی رہے تھے اور میں تازہ ریسرچ کے بوجھ تلے دبا پھیکا پانی بمشکل حلق سے نیچے اُتار رہا تھا۔
کھانا لگا۔ کھانے کے بعد پھر محفل گرم ہوئی۔ میں تو جیالا تھا ہی۔ بس آصف علی زرداری کو بطور بابائے جمہوریت متعارف کرایا تو دیکھتے دیکھتے کئی چہرے لال پیلے ہوگئے۔ یہی میری تمناّ تھی کہ محفل گرم ہو۔ بس پھر کیا تھا موجودہ حکومت کے لتّے لیے گئے۔ ساری صورتحال پر ایک سیر حاصل تبصرہ ہوا اور لے دے بھی۔ ایک صاحب نے کچھ کچھ پیپلز پارٹی کے حق میں جو کچھ کہہ دیا تو میں نے تو اُس کو سب حاضرین میں سے عقلمند ترین شخصیّت ہونے کا پروانہ تھما دیا۔ وہ ظاہر ہے کہ بڑے خُوش ہوئے۔ عمران خان کی تحریک اِستقلال اور لاہور میں اُن کے اور سپیکر قومی اسمبلی کے حلقہ کے عدالتی فیصلے پر بھی تبصرے ہوئے۔ پھر میٹھے کی باری آئی تو سب نے حسبِ ضرورت میٹھے سے دو دو ہاتھ کیے۔
میٹھے کا دَور اختتام پذیر ہوا تو افتخار کے والد محترم جو بقول اُن کے 9 دہائیاں پُوری کر چکے ہیں۔ اُنہو ں نے عمر کی ہر دہائی کی جسمانی کیفیّت کا تذکرہ بڑے ہی دلکش انداز میں بیان کیا کہ کس طرح 10 سال، 20 سال، 30 سال، 40 سال، 50 سال، 60 سال، 70 سال، 80 سال، 90 سال کی عمر میں جسمانی حالت کیا ہوتی ہے اور اُس سے کیا کیا حرکات سرزد ہوتی ہیں۔
پھر چائے کا دَور چلا اور اِس دوران اپر سٹوری سے سیڑھیوں پر گرتے پڑتے بچوں کی چیخ و پکار اور والدین کی اُس طرف دوڑوں کا منظر بھی ملاحظہ کیا۔ بہرحال خیریت ہی رہی۔
10 بجے کے قریب سب مدعوئین کو اہل خانہ نے بڑے تپاک سے رُخصت کیا اور ہم کوئی ساڑھے دس بجے گھر پہنچے اور 11 بجے اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو رہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)