الطاف حسین کا سیاسی ڈرون حملہ!
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین برسوں کی بات کرتے ہیں تو انہی سالوں میں جب وہ پاکستان میں تھے تو لاہور بھی تشریف لائے ۔اس دور میں ان کو لاہور آنے کی دعوت میاں محمد نوازشریف نے دی اور مینار پاکستان کے زیر سایہ جلسے سے خطاب بھی کروایا، الطاف حسین کی طرف سے اسی دورے کے دوران جلسے کے اگلے روز فائیو سٹار ہوٹل میں پریس کانفرنس بھی طلب کی گئی۔لاہور کے صحافیوں میں بڑا اشتیاق تھا۔وہ ان سے متعدد سوالات کرکے بعض وضاحتیں چاہتے تھے،چنانچہ انٹرکانٹی نینٹل(اب پرل) کے ہال میں محفل سجی۔ہم سب لوگ منتظر تھے۔پھر الطاف حسین پچھلی طرف سے تشریف لائے تو ان کے ساتھ تقریباً آٹھ افراد تھے جو ان کی ذاتی سیکیورٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ہال میں دو فٹ اونچی سٹیج بنائی گئی اور اس پر صرف ایک ہی کرسی تھی۔محترم الطاف حسین جب بیٹھ گئے تو ان کے محافظ دائیں بائیں پیچھے اور سٹیج کے اگلے دونوں کناروں پر مستعدد کھڑے ہوگئے ،پریس کانفرنس میں عموماً یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ پریس کانفرنس والے معزز مہمان مختصر بات کرکے صحافیوں کو سوالات پوچھنے کی اجازت دیتے تھے۔اس روز الطاف حسین نے بات شروع کی تو پھر تقریر کے انداز میں بولتے چلے گئے۔کافی دیر ہوگئی تو ان سے گزارش کی گئی کہ وہ بات ختم کرکے سوالات کا بھی موقع فراہم کریں۔اس پر وہ ناراض ہوگئے اور کبیدہ خاطر ہو کر سوالات کے لئے کہا، جب سوالات شروع ہوئے تو جلد ہی مضطرب ہوگئے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔ان کے کھڑے ہوتے ہوتے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو محافظوں نے روک دیا۔
ان دنوں ایم کیو ایم متحدہ نہیں مہاجر قومی موومنٹ تھی اور ملک بھر میں اس جماعت کو لسانیت کے حوالے سے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔پھر جب اس جماعت کا مخفف ایم کیو ایم رکھتے ہوئے اسے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کیا گیا تو ملک بھر میں اس کی تحسین کی گئی تھی، کیونکہ ایم کیو ایم کی طرف سے قومی سیاست کرنے کی بات کی گئی تھی۔اس کے بعد سے قومی جماعتوں نے اسے تسلیم بھی کیا اور الطاف حسین کے سیاسی قد میں اضافہ بھی ہوا، اب جب جمعرات کے روز سیاسی ڈرون حملہ کیا گیا اورقائد تحریک نے سندھ والے بلدیاتی نظام کے حوالے سے بات کرکے دھمکی دی کہ بلدیاتی قانون یا نظام میں تبدیلی کی گئی تو اردو بولنے والوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا۔انہوں نے یہ کہہ کر کہ اردو بولنے والے الگ صوبہ نہیں چاہتے، لیکن بلدیاتی نظام کے حوالے سے ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ قومی سیاست کے داعیوں کو اس حوالے سے افسوس ہوا کہ قائد تحریک نے پھر اردو بولنے والے ہی نہیں کہا، بلکہ سندھ کی تقسیم کی بات کردی اور یوں سندھ میں قوم پرستوں کے ہاتھ مضبوط کئے جو پہلے ہی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ بلدیاتی آرڈیننس سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے، اس کے ساتھ انہوں نے اپنے خطاب میں پیپلزپارٹی یا صدر مملکت آصف علی زرداری کو چیلنج کیا اور کہا”گورنر بدلنا ہے تو ابھی بدل دو“ یہ شاید اس لئے کہا گیا کہ ملک میں غیر جانبدار گورنر لگانے کی بات ہورہی ہے اور ڈاکٹر عشرت العباد کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔
الطاف حسین کی طرف سے جب سیاسی ڈرون حملے کی بات کی گئی تو تجسس بیدار ہوگیا تھا اور تقریر کے وقت تک اسرار کی کیفیت تھی، لیکن تقریر نے ثابت کردیا کہ سیاسی ڈرون اپنے تحفظات یا مطالبات کے حوالے ہی سے تھا اور اس میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ذات کو خوامخواہ شامل کردیا گیا۔اس سلسلے میں محترم قدرت اللہ چودھری صاحب شافی بات کرچکے، تاہم ڈاکٹر صفدر محمود سے تاریخ کے اوراق کی تفصیل کا انتظار ہے۔ہم اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرتے، لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ قائداعظم کا احسان یہ پاکستان ہے۔وہ بلند پایہ وکیل تھے ، ان سے ایسی فاش لغزش کی توقع نہیں کی جا سکتی ، ویسے بھی قائداعظم محمد علی جناح سے اختلاف کرنے والے بہت ہیں اس سے ان کی ذات کو کیا فرق پڑتا ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ الطاف حسین نے اپنی دہری شہریت کے تحفظ کے لئے قائداعظم پر مشق ستم کر ڈالی۔قائداعظم تو وہ شخصیت تھے، جنہوں نے کبھی بھی خود کو بڑا لیڈر نہیں کہا، بلکہ پاکستان کے حوالے سے ان کے یہ الفاظ سنہری ہیں ....I fought the case and I Won.... ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے یہ تو تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات ہی مثبت انداز میں بتا سکیں گے کہ اس بات میں کتنی حقیقت ہے۔جہاں تک گورنر کی بات ہے تو ڈاکٹر عشرت العباد کو سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے گورنر مقرر کیا اور پیپلزپارٹی نے بھی متحدہ سے اتحاد کی خاطر یہ پوزیشن برقرار رکھی۔یوں ان کو اب دس سال سے زیادہ اس عہدہ پر ہوگئے، اب اگر کسی طرف سے غیر جانبدار گورنر کی بات کہی جاتی ہے تو اس کے لئے سیاسی ڈرون حملے والی تقریر میں طنزیہ انداز اختیارکرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی ایم کیو ایم کی طرف سے اقتدار میں شمولیت کو دیکھا جائے تو ازخود ان کے لمبے عرصے کا پتہ چل جاتا ہے۔
یہاں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم کے سربراہ نے بلاشبہ ڈاکٹر قادری کے لانگ مارچ میں شرکت کی توثیق اور اس کا اعادہ کیا ہے، لیکن ساتھ ہی ان کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنونیئر ڈاکٹر فاروق ستار اور بابر غوری نے مخلوط حکومت کے اتحادیوں کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور یقین دلایا ہے کہ وہ اس اتحاد کا حصہ ہیں اور حکومت سے الگ نہیں ہورہے، اب اگر میاں محمد نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) کو جواب دینا چاہیے کہ وہ لانگ مارچ کس کے خلاف کررہے ہیں تو غلط کیا ہے؟کیا صرف چودھری شجاعت حسین کے یہ کہنے سے بات ختم ہو جاتی ہے کہ لانگ مارچ نہ مسلم لیگ(ن) کے اور نہ ہی پیپلزپارٹی کے خلاف ہے تو پھر یہ کس کے خلاف ہے ۔یہ جواب بہرحال باقی ہے۔
پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان عاشق اور محبوب والا سلسلہ گزشتہ پانچ سال سے چلا آ رہا ہے اور کئی بار متحدہ روٹھی اور کئی بار منایا گیا۔حضرت عبدالرحمن ملک کو تو وزارت داخلہ کے علاوہ ایم کیو ایم کا ”پورٹ فولیو“ بھی ملا ہوا ہے کہ ہر مرتبہ ناراض ہوتی اور ہربار وہ بھاگے بھاگے لندن جاتے ہیں، اب تو انتخابات سر پر ہیں۔اصل میں تو انتخابی عمل کے لئے ماحول سازگار کرنے کی ضرورت تھی اور اس کے لئے کراچی میں روزگرتی نعشوں کا سلسلہ رکنا چاہیے ، اس کے لئے تو پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ اے این پی کو سنجیدگی سے بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ امن سب سے مقدم ہے۔
اس تقریر پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ یاد بھی آرہا ہے، لیکن حالات کا تقاضا مجبور کرتا ہے کہ اب بات کو یہیں پر ختم کردیا جائے کہ سیاسی ڈرون حملے نے نئے تنازعات کو جنم دے دیا ہے۔