افغان طالبان کی فتح
افغانستان پر چھائی گہری دھند چھٹنے کو ہے ۔ امریکہ و اتحادی علاقہ چھوڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ طاقتور کی ہار بھی فتح کی مانند ٹھہرتی ہے، لیکن مورخ یاد رکھے گا کہ دنیا کو عالمی معاشی بحران میں جھونکنے کی بڑی وجہ افغان جنگ پر ضائع کی جانے والی رقم تھی۔ فی الوقت بظاہر اوباما انتظامیہ افغانستان سے نکلنے کو ترجیح اول قرار دے رہی ہے، لیکن کیا وہ درحقیقت ایسا کرنا بھی چاہتی ہے کہ نہیں؟ کیا باشعور طبقہ اےک بارپھر کسی بہترین عالمگیر سکرپٹ کا چشم دید گواہ بننے والا ہے؟کیا یورپ، امریکہ اور عرب ممالک کے مٹھی بھر سفارتکار اےک نئی دنیا کو تشکیل دینے کے لئے اکٹھے ہو چکے ہیں؟کیا کارپوریٹ کلچر کے محافظ دوبارہ صف بندیاں کر رہے ہیں؟اور کیا مستقبل کی آبادیوں کا پیٹ بھرنے کے لئے بااثر طاقتیں دنیا کے وسائل پر جھپٹنے کے لئے واقعی متحرک ہوچکی ہیں؟اگر چند لمحوں کے لئے ان اعشاریوں کو حقیقت تسلیم کر لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بدلتی دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے©؟کیا عسکری قوت پاکستان کے مفاد کو ہر صورت مےں مقدم رکھنے کی پالیسی تشکیل دے چکی ہے؟ کیا سیاستدان پاکستان کی طرف بڑھتے دباﺅ کا مقابلہ کرنے کے لئے عہد باندھ چکے ہیں ؟اور کیا پس پردہ قوتیں ڈیورنڈ لائن کے اس پار بسنے والے پراسرار خطے میں اپنا کردار حاصل کر سکتی ہیں؟
ڈیورنڈ لائن کے اس پار کیا ہے ؟ صدیوںپرانی وہ معاشرت ،جو وائرس کی طرح افغانوں میں سرایت کر چکی ہے۔ وہ جغرافیائی اہمیت، جس نے ہر زمانے کی بدمست طاقت کو طالع آزمائی پر اکسایا۔ وہ پہاڑ، جن کی چمک نے مہذب معاشروں کو اپنا آئین، منشوراور قانون توڑنے کی ترغیب دی۔ وہ بادشاہ، وار لارڈز ، قبائلی سردار اور ملا جنہوں نے آزاد انسانوں کو غیر ملکیوں کا غلام بنانے کے راستے ہموار کئے۔ڈیورنڈ لائن کے اس پار وہ طلسمی خطہ ہے ،جہاں صدیوں پرانے فتح کے اےک نامکمل خواب کو بار بار دہرایا جارہا ہے۔
افغانستان پر مکمل حکمرانی ہر فرعون نما طاقت کا خواب رہا۔ 1839ءمیں برطانیہ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ افغان قبائل کو 'Subjugated' کرتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کا حصہ بنایا۔ امریکہ کی طرح اس وقت کی سپر پاور برطانیہ نے بھی فتح پر خوشی کے شادیانے بجائے، اسی طرح قبائلیوں میں پیسہ بانٹا گیا، باہمی دشمنیوں کو ہوا دی گئی۔ روسےوںکو خطے سے دور رکھنے کی خاطر بھاری تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی کی گئی لیکن نتیجہ صفر۔ افغان دوبارہ اکٹھے ہونے لگے۔” مشترکہ دشمن “ سے نمٹنے کی خاطر کدورتوں کو وقتی طور بھلا دیا گیا، مسلح جدوجہد شروع ہو گئی، اور صرف تین سال بعد برطانیہ عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا گیا۔ یہ شکست اس قدر غیر متوقع تھی کہ برطانیہ میںDazed the Victoriansجیسے طنزیہ الفاظ شہریوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئے۔
برطانوی اس ہزیمت کا بدلہ لینے کے لئے 1843ءمیں دوبارہ حملہ آور ہوئے۔ فتح ایک بار پھر مقدر بنی اور آج کے حامد کرزئی کی طرح برطانیہ نے ”دوست محمد‘ ‘کی صورت مےں اےک نیا افغان حکمران تراش ڈالا۔دوست محمد نے بھی وہی کچھ کیا جو حامد کرزئی کر رہے ہیں۔ اسی طرح مستحکم افغانستان کی خاطر مخالف قبائل پر حملے کئے گئے۔ برطانوی مفادات کی حفاظت کی آڑ میں رقم ، اسلحہ ، زمین اور تجارتی راہداریوں پر دسترس حاصل گی گئی۔ فرق صرف اتنا رہا کہ آج افغان حکمران پاکستان کو Unstability کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ جبکہ اس وقت روس کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیا جاتا تھا۔
1863ءمیں دوست محمد انتقال کر گیا، ملک میں انارکی پھیل گئی، پانچ سال بعد دوست محمد کے بیٹے شیر علی نے اپنے بھائیوں کو پچھاڑتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔اسی دور میں دنیا © ’©’گریٹ گیم “ نامی اصطلاح سے بھی متعارف ہوئی۔ یہ گریٹ گیم برطانیہ اور روس میں سنٹرل ایشیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنی کالونی بنانے کے حوالے سے کھیلی جا رہی تھی۔اس وقت پاکستان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ افغان حکمران ہی تھے جو گریٹ گیم میں اپنا مالی فائدہ سمیٹتے ہوئے افغانوں کو برطانیہ کا غلام بنانے پر تلے ہوئے تھے۔برطانیہ روپیہ پھینکتا، حکمران اکٹھا کرتے۔ بات پیسے کی تھی، کمزور روس بھی نہیں تھا۔ کنگ شیر علی کا جھکاﺅ آہستہ آہستہ روس کی طرف ہونے لگا۔ برطانوی خطرہ بھانپ گئے اور 1878ءمیں اپنے ہی تراشیدہ بت کو ”سیکنڈ اینگلو وار‘ ‘ کے ذریعے ٹکڑوں کی صورت تقسیم کر دیا۔
نئے بت کی تلاش شروع ہو گئی ،قرعہ عبدالرحمن کے نام نکلا ، آہنی اعصاب کے حامل اس حکمران نے سیدھے سادے ملا کو تشدد کے ذریعے انتقام پرست بنایا۔1901ءمیں وفات کے بعد اس کا بیٹا حبیب اللہ اقتدار میں آیا۔ 1919ءمیں اسے قتل کر دیاگیا۔اقتدار حبیب اللہ کے بیٹے امان اللہ کومنتقل ہوگیا۔ امان اللہ نیشنلسٹ تھا،وہ افغانستان کو اےک آزاد ریاست دیکھنا چاہتا تھا، جبکہ برطانیہ آزادی دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا۔ دو ماہ بعدامان اللہ نے انڈیا پر حملہ کر دیا، برطانوی بھی مجبور ہوگئے۔ اسی سال اگست میں راولپنڈی ٹریٹی کے ذریعے افغانستان کو آزادی کا پروانہ بھی عطا ہوگیا۔ یہ وہی موقع تھا جب گریٹ گیم کا دوسرا کھلاڑی روس دوبارہ ”ا ن‘ ‘ہوا اور فوری طور افغانستان کو ایک آزاد ریاست کے طور تسلیم کر لیا۔ یہیں اےک بنیادی غلطی کو دہرایا گیا۔ افغانستا ن کو جمہوری ریاست ،قرار دینے کی بجائے ”بادشاہت‘ ‘ڈیکلئیر کر دیا گیا۔
1919ءسے لے کر 1947ءتک افغانستان اور سوویت یونین بھرپور تعلقات انجوائے کرتے رہے۔برصغیر کی آزادی کے ساتھ ہی برطانیہ سپر پاور کے درجے سے نیچے چلا گیا۔ اب برطانیہ کی جگہ امریکہ نمودار ہو چکا تھا۔دوسری طرف سوویت یونین گریٹ گیم میں پرانے مخالف کی صورت مےں بدستور موجود تھا۔ امریکہ اپنے پتے بروقت نہ کھیل سکا۔ سوویت یونین افغانوں کے دل جیتتا چلاگیا۔سڑکیں،ڈیم،سکول، نظام آبپاشی،ائیر فیلڈز،رشین زبان اور ڈاکٹرین کا پھیلاﺅ سوویت یونین افغانستان میں ناپید جمہوریت کا بھی فائدہ اٹھانے لگا اور آہستہ آہستہ افغان کمیونسٹ پارٹی میں اثر و رسوخ بڑھاتا چلا گیا۔اس دوران افغانستان میں اقتدار کا خونی کھیل حسب معمول جاری رہا۔ ظاہر شاہ،داﺅد،نور محمد ترکئی اب سوویت یونین بھی آج کے امریکہ کی طرح افغانستان میں ٹھیک ٹھاک انویسٹمنٹ کر چکا تھا۔ جبکہ سوویت کی پشت پناہی پر مذہبی عناصر کو روندنے والاترکئی مسلسل بغاوتوں کے اندیشوں میں گھرا تھا۔ ان حالات میں سوویت ایلیٹ فوجوں نے افغانستان پر ڈائریکٹ حملہ آور ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ کل کے دوست دشمن بن گئے اور دشمن دوست۔
1843ءکی طرح دسمبر 1979ءمیں افغان دوبارہ غیر ملکی حملہ آور کے خلاف اکٹھے ہونے لگے۔ آپس کی دشمنیاں پس پشت ڈال دی گئیں۔مقامی سطح پر شروع ہونے والا جہاد عالم گیر جہاد کا نشان بن گیا۔ گریٹ گیم کے فریق امریکہ کو عظیم الشان فتح حاصل ہونے کو تھی۔ افغان مجاہدین کے سو گناہ معاف کر دئےے گئے اور تاریخ پھر وہیں آ کھڑی ہوئی جہاں سے چلی تھی۔۔۔سوویت یونین کے افغانستان چھوڑتے ہی افغان حسب معمول دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف صف بند ہوگئے اور پھر کئی سال بعد افغانستان میں اےک ایسی قوت ابھری جس نے تمام وار لارڈز، منشیات کے سمگلروں اور کمیونسٹوں کو اڑا کر رکھ دیا یہ طالبان تھے وہ طالبان جنہوں نے پوری طاقتوں سے حکومت کی۔جن کے بڑھتے اثرو نفوذ کو روکنے کے لئے بش انتظامیہ نے کولن پاﺅل کی وارننگ Pottery Barnکو بھی نظر انداز کر دیا اور وہ طالبان جو امریکہ اور اتحادیوں کو آج تک باور کروا رہے ہیں کہ You break it, you own it۔
ڈالر، پاﺅنڈ،یورو،ین کی چمک افغان جنگجوﺅں کو دوبارہ ایک کر رہی ہے۔ تین کروڑ دس لاکھ افراد پر مشتمل یہ ملک قبیلوں، ذاتوں، زبانوں اور مذاہب میں بٹا ہوا ہے۔ نیشنلزم کا افغانستان سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ یہ یا تو پشتون ہیںیا تاجک یا ازبک یا ہزارے۔۔۔ افغان نہیں۔۔۔ایکا کس طرح ممکن ہو، یہ تو ایک دوسرے کو بات سمجھا بھی نہیں سکتے۔ آدھی آبادی دری بولتی ہے۔ پینتیس فیصد پشتو بولنے والے ہیں اور بقیہ پندرہ فےصد قبائلی لب ولہجے کے مالک ہیں۔ افغانستان ایسا خطہ ہے ،جس کا رزق لاشوں کے انبار سے منسلک ہے۔ یہ دھرتی سیاہ جھنڈوں کی دھرتی ہے۔ یہ لوگ عالمی طاقتوں کو انگیج رکھنے کے ماہر ہیں۔ یہاں حملہ آور سے لے کر صلح جو کانوائے تک،امدادی کارکن سے لے کر مذہبی سکالر تک۔۔۔سبھی گریٹ گیمر ہیں۔ یہ گیم انہیں دنیا نے سکھائی ہے۔ اگر دنیا پرامن طور پر یہ صدی نکال گئی تو شاید اگلے سو سال بعد یہ مہذب کہلائے جانے کے قابل ہو سکیں۔ اس وقت تک عالمی طاقتوں کو خراج کی صورت مےں ہر حال میں افغانوں کو فیڈ کرنا پڑے گا۔ ۔۔کوئی کچھ بھی کہے ،امریکہ ناکام ہوکر جا رہا ہے۔ نہ تو سٹریٹجک مقاصد حاصل ہوئے ،نہ ہی راہداریوں پر دسترس حاصل ہوئی۔ اگر افغان طالبان فتح کا نعرہ بلند کریں تو انہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔