اخباری ’’چوناگیرو‘‘ کی ایک تازہ مثال!
بلاشبہ یہ دور جو گزر رہا ہے، دورِ یلغارِ ابلاغیات ہے۔۔۔ الیکٹرانک میڈیا کے ناظرین آج فلموں، ڈراموں اور مشاعروں وغیرہ کی جگہ نیوز چینل کی خبروں کے دلدادہ ہیں۔ امیر ہو یا غریب ، اَن پڑھ ہو یا پڑھا لکھا دانشور، سب کے سب ان سمعی و بصری معاونات کے رضاکارانہ اسیر ہیں۔ خبروں کے ’’دل بہلاووں‘‘نے ہر قسم کے دوسرے ابلاغی دل بہلاووں پر سبقت حاصل کر رکھی ہے۔ جو لکھے پڑھے لوگ اخبار کی خرید کی مالی استطاعت نہیں رکھتے یا جو ویسے ہی عادتاً کوئی اخبار اپنے ہاں نہیں لگواتے وہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی موقع ملے اخبار کی ورق گردانی سے ’’باز‘‘ نہیں آتے۔ دوسری طرف پریس میڈیا نے بھی بعض ایسے اہتمام کر رکھے ہیں جو قاری کو اپنی طرف کھینچنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور خبروں کو اس ’’سلیقے‘‘ سے ڈسپلے کیا جاتا ہے کہ بقول غالب: ’’شعر خود خواہشِ آں کرد کہ گردد فنِ ما‘‘ کا منظر سامنے پھیل جاتا ہے!
اخبار کے اول و آخر کے دو صفحات قاری کے آسان ترین قبضہ ء رسائی میں ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ دیکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ اس لئے اخباروں کے مدیر حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ سرخیوں اور شہ سرخیوں کا تن بدن اس طرح بنایا اور سنوارا جائے کہ قاری ایک بار دیکھنے کے بعد دوسری بار دیکھنے کا تمنائی رہے۔ باوقار اور بااعتبار اخبارات کے ایڈیٹر حضرات کو داد دینی چاہیے کہ وہ خبروں کے پیکر کو اس طرح تراش کر قاری کے سامنے رکھتے ہیں کہ کسی بھی جگہ اس پیکر میں کسی ناروا ’’خراش‘‘ کا گمان نہیں گزرتا۔
کل کے ایک انگریزی معاصر (Dawn) کے صفحہ اول پر ایک پانچ کالمی خبر کا عنوان تھا:
COAS green-lighted NAB action in DHA Valley Scam
یہ نوٹ کیجئے کہ اس آٹھ لفظی خبر کے عنوان میں چار الفاظ جلی حروف سے آغاز کئے گئے تھے اور چاروں دامنِ توجہ کھینچتے تھے۔ میری مراد COAS ،NAB،DHA Valley اور Scam سے ہے۔ کوئی بھی قاری، چیف آف آرمی سٹاف، نیب، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور دھوکا (Scam) جیسے الفاظ دیکھ کر خبر کے متن کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ وہ ضرور جاننا چاہے گا کہ ان چارلفظوں کا باہمی تعلق کیا ہے، آرمی چیف نے نیب کو کیا گرین لائٹ دی یا دکھائی ہے اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے خلاف کس ایکشن کا حکم دیا ہے یا ایکشن لینے کا راستہ صاف کر دیا ہے۔ ایسی سٹوریوں میں ایک اور قابلِ ذکر پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ خبر دینے اور بنانے والا صحافی کون ہے؟۔۔۔ اس کا ذاتی علم و فن اور پروفیشنل اعتماد و وقار کیا ہے؟۔۔۔ اور اس کا صحافیانہ ماضی کتنا غیر شفاف یا کتنا شفاف ہے؟۔۔۔ یہ پہلو اس لئے بھی اہم ہوتا ہے کہ قاری نہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خبر کس اخبار میں لگی ہے اور کہاں لگی ہے بلکہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ اس کو بریک کرنے والے صحافی کی اپنی کریڈے بلٹی (Credibility) کیا ہے۔
میڈیا کی ورکنگ سے دلچسپی رکھنے والے ناظرین و قارئین کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ فلاں اینکر یا اخباری نمائندے کے تعلقات فلاں ادارے یا شخصیت سے کیا ہیں اور وہ کس چینل / اخبار میں کام کر رہا ہے اور چینل / اخبار کے مالک کا اپنا میلانِ جیب و دامن کدھر ہے ۔ بعض اینکر / اخباری صحافی بڑے غیر جانبدار اور قد آور متصور کئے جاتے ہیں جبکہ بعض کا ماضی و حال ایک سوال بھی ہوتا ہے۔ ان حضرت کی شخصی/ ذاتی زندگی تک قارئین کی رسائی کوئی انوکھی بات نہیں اور زبانِ خلق بھی تو ہمیشہ نقارۂ خدا ہوتی ہے۔ جہاں کہیں بھی دھواں اٹھتا نظر آتا ہے، وہاں نزدیک ہی کہیں آگ ضرور سلگ رہی ہوتی ہے۔ چنانچہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ آگ کہاں لگی ہوئی ہے، کس نے لگائی ہے ،کون بجھا رہا ہے اور کون اس پر تیل ڈال رہا ہے۔
جس خبر کا ذکر میں نے سطور بالا میں کیا ہے اس کے نیچے جلی حروف میں ایک اور ذیلی عبارت بھی درج ہے جس کی اہمیت خبر کی سرخی سے کم نہیں۔ وہ ذیلی عبارت یہ ہے : ’’جنرل کیانی کے بھائیوں نے بیان جاری کیا ہے کہ سابق آرمی چیف کا کوئی تعلق ان کے بھائیوں کے کاروبار سے نہیں اور جنرل کو ان بھائیوں کے کاروبار کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘‘۔۔۔۔
ذرا ملاحظہ کیجئے کہ یہ خبر اگر ڈان جیسے وقیع انگریزی روزنامے کے صفحہ اول پر چھپی ہو، پانچ کالمی ہو، خبر دینے والا ایک بااعتبار اورتجربہ کار صحافی (سید عرفان رضا) ہو، عنوان میں جنرل راحیل شریف کا نام آئے اور ذیلی عنوان میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کا نام ہو تو قاری متن سے کیسے لاتعلق رہے گا، کیسے اسے نظر انداز کرے گا اور اس سے کیسے اثر پذیر نہ ہوگا؟۔۔۔
’’چوناگیرو‘‘ ایک فوجی اصطلاح ہے۔۔۔ جب کسی پرانی فوجی بیرک کو کسی سینئرآفیسر کی انسپکشن کے لئے پیش کرنا ہو تو اس کی جزوی مرمت کی جاتی ہے، آس پاس کے علاقے کو صاف ستھرا کیا جاتا ہے، جو حصہ زیادہ خستہ حال ہو وہاں سفیدی (چونا) کرا دی جاتی ہے اور جو توڑ پھوڑ اور خستگی چونے سے بھی نہ چھپ سکے اس پر سرخ رنگ کی مٹی (گیرو) پھیر دی جاتی ہے۔ یہ پراسس، اوورہالنگ نہیں کہلا سکتی۔ صرف خستہ حال بیرک/ عمارت کا ’’سٹیٹس کو‘‘ تبدیل کر دیا جاتا ہے اور بس۔۔۔ یعنی برائے نام سی صفائی، ستھرائی اور سجاوٹ۔۔۔ معائنہ کرنے والے آفیسر کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’’چوناگیرو‘‘ محض معائنے کی غرض سے کیا گیا ہے،شائد مالیات کی کمی اور وقت کی کمیابی کے سبب اوورہالنگ نہیں کی جا سکی،اس لئے ’’چوناگیرو‘‘ کا سہارا لے کر ’’اشک شوئی‘‘ کر دی گئی ہے۔۔۔میں سمجھتا ہوں ’’یہی چونا گیرو‘‘ ڈان کی اس خبر پر بھی پھیرا گیا ہے۔ پرانی شراب، نئی بوتل میں بند کرکے نیا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ البتہ پہلا گھونٹ بھرنے کے بعد عادی مے نوش کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ’’ہاتھ‘‘ ہو گیا ہے۔
خبر کے متن میں سابق آرمی چیف کے بھائیوں بریگیڈیئر (ر) امجد پرویز کیانی اور کامران کیانی کے نام ہیں، بحریہ ٹاؤن کے چیف ملک ریاض کا نام ہے، خود جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کا نام تین چار جگہ ہے، نیب کے چیئرمین قمر زمان چودھری کا نام ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ کا نام ہے۔۔۔ ایسے ہی معروف ناموں کے اردگرد سٹوری کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ قاری خبر پڑھتا جاتا ہے اور متجسس رہتا ہے کہ شائد آگے چل کر کوئی نئی بات، کوئی سنسنی خیز انکشاف یا کوئی ’’انہونی‘‘ نظر پڑے لیکن جب وہ خبر کے اختتام کو پہنچتا ہے اور کوئی نئی بات، نئی خبر اور نیا وقوعہ اسے پڑھنے کو نہیں ملتا تو وہ گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ ’’چونا گیرو‘‘کیا تھا اور اس کا اصل مقصد کس سینئر آفیسر کے معائنے کا انتظام و انصرام کرنا تھا؟ کیا یہ سینئر آفیسر اسی اخبار کا قاری تھا یا یہ رائے عامہ تھی یا نہ صرف پاکستانی بلکہ بین الاقوامی قارئین کی وہ برادری تھی جو انگریزی خواں طبقہ کہلاتی ہے۔ انگریزی زبان تو دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور اس نسبت سے اس کا میڈیا نیٹ ورک بھی بڑا وسیع اور بے پایاں ہے جس کی شاخیں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس انگریزی میڈیا کے قارئین جب جنرل راحیل شریف کا نام کسی خبر میں دیکھتے ہیں تو لازماً چونک جاتے ہیں۔ جنرل راحیل نے آرمی چیف بننے کے بعد جو نیک نامی اور شہرت پائی ہے اس کا اعتراف مشرق و مغرب کے عوام و خواص سب نے کیا ہے۔ ان کا نام ایک وقار، ایک اعتماد اور ایک سپر پرفارمنس کی ہم معنیٰ Cult بن چکا ہے۔ قاری جب یہ پڑھتا ہے کہ انہوں نے چھ ماہ قبل اپنے پیشرو، جنرل (ر) اشفاق پرویز کے نہ صرف بھائیوں بلکہ فوج کے تمام حاضر اور ریٹائرڈ افسروں اور دیگر عہدیداروں کے بارے میں واضح احکام جاری کر دیئے تھے کہ ان کے خلاف اگر کوئی شکائت ہو، کسی قسم کے جرم کے ارتکاب کی افواہیں ہوں تو ان کے خلاف تحقیق و جستجو اور پوچھ گچھ سے گریز نہ کیا جائے بلکہ ہر کیس کی مکمل چھان بین کی جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں تو جنرل صاحب کے Cultمیں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔اب ڈان میں چھپی اس خبر کا آغاز بھی جس پیراگراف سے کیا گیا ہے وہ بھی دیکھئے: ’’چیف آف آرمی سٹاف (COAS) جنرل راحیل شریف نے چھ ماہ قبل ان ریٹائرڈ ملٹری اور سویلین آفیسرز کی خلاف ایکشن لینے کے لئے سبز جھنڈی دے دی تھی جو DHA ویلی کیس میں 62ارب روپے کی خرد برد میں ملوث پائے گئے تھے‘‘۔۔۔
کوئی ان اخبار والوں سے یہ پوچھے کہ چھ ماہ پرانی خبر کو اب دوبارہ لگانے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟ کیا جنرل کیانی کے بھائیوں کی طرف سے جاری کردہ کوئی نیا ’’صفائی بیان‘‘ قارئین کو بتانا اور پڑھوانا مقصود تھایا اس کے پیچھے کوئی اور مقصد یا مقاصد کارفرما تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ جب جنرل کیانی حاضر سروس تھے اور ان کے بھائی بریگیڈیئر امجد کیانی بھی حاضر سروس تھے تو فوج میں یہ افواہیں عام تھیں کہ جنرل کیانی کے بھائیوں کے پاس اربوں روپوں کے تعمیراتی کاموں کے ٹھیکے ہیں جو نہیں ہونے چاہئیں۔۔۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس میں کوئی دھوکا، فریب یا چکمہ (Scam) دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا اور اسے منظر عام پر آنا ہی پڑتا ہے۔ جنرل کیانی کے دورِ کمانڈ میں بھی کئی عسکری اور غیر عسکری حلقوں میں یہ بحث عام تھی کہ جنرل صاحب کے بھائیوں کے نام ایسی Scams میں نہیں آنے چاہئیں۔ اب اگر انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ان کے کاروبار میں ان کے برادرِ بزرگ جنرل کیانی کا کوئی ہاتھ نہیں تھا تو یہ کوئی نئی بات نہیں کی۔ یہ فیصلہ کرنا اب عدالت(نیب) کا کام ہے کہ جو لوگ ان مقدمات میں ملوث ہیں وہ بے گناہ ہیں یا مجرم ہیں۔ چنانچہ اخبارات کو بھی انتظار کرنا چاہیے اور ان سٹوریوں پر بار بار ’’چوناگیری‘‘ نہیں پھیرنا چاہیے جو ہنوز زیر سماعت ہیں!