شاہد آفریدی کی اُردو
میں اور وہ دونوں،کافی وقت اکٹھے رہے مگر بات السلامُ علیکم،وعلیکم السلام سے آگے نہ بڑھی،تینوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔میں باڑہ(خیبر ایجنسی)میں ایک سرکاری افسر کا مہمان تھا،انہوں نے مجھے رات اپنے گھر کی بجائے ریسٹ ہاؤ س میں ٹھہرایا،دونوں مذکورہ صاحبان مجھے بطور محافظ مہیا کیے گئے تھے۔وہ پشتو بولتے تھے،انہیں اردو نہیں آتی تھی،میں اردو بولتا تھا:مجھے پشتو نہیں آتی تھی۔اگلی صبح میرے دوست آئے تو انہوں نے میرے محافظوں سے پوچھا کہ مہمان رات آرام سے رہے؟ان میں سے ایک نے جواب دیا ’’مہمان تو ٹھیک رہے مگر ہم ان کے ساتھ بات چیت نہیں کرسکے ،کیونکہ وہ ہمارے لئے گونگے تھے اورہم ان کے لئے گونگے۔‘‘
زبان ابلاغ کا سب سے اچھا ذریعہ ہے،انسانوں کو ایک دوسرے کی زبان نہ آتی ہو تو ابلاغ محدود رہ جاتا ہے۔علاقائی زبان بولنے والے کی اردو زبان میں مادری زبان کا لہجہ یا تاثر عموماً برقرار رہتا ہے اور بعض اوقات اسے شک کا فائدہ بھی دیا جاتا ہے۔ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک صحافی کے سوال کو گھٹیا قرار دیا تو قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق،ٹیم منیجر انتخاب عالم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین شہریار خان ان کی مدد کو لپکے۔مصباح الحق نے تو یہ تک قرار دے دیا کہ سارے جھگڑے میڈیا ہی کراتا ہے۔صحافی جیسا سوال کریں گے، انہیں ویسا ہی جواب سننا پڑے گا۔ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن معاملہ سلجھاؤ کے ساتھ نمٹانا ہی بہترہوتا ہے،ضد بازی اور جوابی الزامات سے معاملات الجھ سکتے ہیں۔مصباح الحق بھی معاملے کو رفع دفع کرنے کی حمایت کرتے تو بہتر ہوتا۔انتخاب عالم نے یہ کہہ کر معاملہ نمٹانے کی کوشش کی کہ اسے طول نہ دیا جائے اور یہیں ختم کر دیا جائے،یہی بہتر سوچ تھی۔اسی طرح کی بات شہریار خان نے کی اور اس معاملے پر درگزر سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ انسان کے منہ سے کبھی کوئی بات نکل ہی جاتی ہے اور شاہد آفریدی کی اردو اچھی نہیں ہے ان کی اردو والی بات تو سمجھ میں آنے والی نہیں ہے ،کیونکہ شاہد آفریدی کراچی میں رہتے ہیں جہاں اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے۔ شاہد آفرید ی کی اپنی ایک سماجی زندگی ہے اور وہ اردو بولنے والوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیںیہ نہیں ہو سکتا کہ ان کی اردو اچھی نہ ہو اور وہ یہ بھی نہ سمجھ سکتے ہوں کہ وہ اردو میں کیا کہہ رہے ہیں۔ان کے سخت رویے کی شکایت پہلے بھی کچھ مواقع پر سامنے آتی رہی ہے،طرز گفتگو ٹھیک نہ ہو تو موقف کی بجائے طرز عمل پر بحث ہونے لگتی ہے ،ورنہ سلجھے ہوئے انداز میں ہر بات کہنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ شاہد آفریدی جو بھی نقطہ نظر رکھیں ،انہیں اس کا حق ہے ،مگر رویہ درست رکھنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔
ضرور ی نہیں کہ جن کی مادری زبان اردو نہ ہو ،وہ اچھے لہجے میں اردو نہ بول سکتے ہوں،اینکر پرسن سلیم صافی مردان کے پشتو بولنے والے صافی قبیلے سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت اچھی اردو بولتے ہیں ،یہی خوبی پشتو بولنے والے ٹی وی نیوز کا سٹر جاوید اقبال کی ہے،ان کی اردو خبریں سنتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی مادری زبان پشتو ہے۔اسی طرح زیبسٹ دبئی میں صحافت پڑھانے والے میرے استاد پیر محمد صاحب اندرون سندھ شکار پور کے رہنے والے ہیں ،مگر ان کے اردو بولنے میں سندھ کی آمیزش محسوس نہیں ہوتی، حالا نکہ اردو بولتے ہوئے علاقائی مادری زبان کا لہجہ یا تاثر محسوس ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں،یہ بالکل فطری سی بات ہے۔جن شعراء کی مادری زبان اردو نہیں،وہ بھی اردو میں بہترین شعر کہتے رہے ہیں،ان میں سے پشتو بولنے والے احمد فراز اور ہند کو بولنے والے قتیل شفائی کو کون نہیں جانتا؟ان کی شاعری کو کسی بھی پیمانے پر پرکھا جاسکتا ہے اور وہ اعلیٰ ترین ایوارڈ یافتہ بنے۔
جاوید اختر اور مہ جبین قزلباش کے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے؟ان کی مادری زبان پشتو ہے ،مگر انہوں نے شہکار اردو گیت اور غزلیں گائیں۔جاوید اختر کے ان گیتوں میں سے ’’تجھ کو قسم ہے میری،نہ آنا ہاتھ خالی، میرے چمن کے مالی‘‘اور’’کتنی مخمور ہیں تمہاری آنکھیں، دل کا سرور ہیں تمہاری آنکھیں‘‘مدتوں سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے رہیں گے۔مہ جبین قزلباش کے معروف گیتوں میں’’دل ہوا بے قرار‘‘بھی شامل تھا۔ انہوں نے اپنے دور میں محمد علی شہکی اوردیگر گلوکاروں کے ساتھ اردو میں ’’دو گانے بھی گائے۔ایک مرتبہ مجھے مانسہرہ کے ایک پشتو بولنے والے خاندان میں ایک شادی پر جانے کا موقع ملا ،وہاں جوانوں کے ایک گروپ نے شادی کی مناسبت سے ایک پشتو گیت گایا،میری خوشی کی انتہا ہوگئی، جب انہوں نے یہی گیت اردو میں بھی گایا: ’’ہولے ہولے رکھنا قدم،صنم‘‘۔