نیب کے حوالہ سے فلسفہ نگار کا فلسفہ۔ اور پاک چین اقتصادی راہداری
ملک کے سیا سی منظر نامے میں دو ایشوز نے سیاسی و سماجی ڈرائنگ رومز کی بحث کو گرم کر رکھا ہے۔ ایک پاک چین اقتصادی راہداری پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے تحفظات اور اس حوالہ سے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسیں۔ اور دوسرا نیب کی جانب سے رئیل سٹیٹ میں بڑی گرفتاریاں۔
سب سے پہلے نیب کی جانب سے کی جانیوالی ر ئیل سٹیٹ کی بڑی گرفتاریوں پر بات کی جائے تو اس ضمن میں ہر دانشور کے پاس اپنا ایک فلسفہ ہے۔ تا ہم سب سے حیران کن فلسفہ جو سامنے آیاہے وہ یہ ہے کہ رئیل سٹیٹ کی حال ہی میں گرفتار ہونے والی ایک بڑی مچھلی کی گرفتاری دراصل فوج کے خلاف ایک سازش ہے۔ نیب نے یہ گرفتاری سیاستدانوں کے خلاف اس پر کریک ڈاؤن کا جو دباؤ ہے۔ اس کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کی ہے۔ اس گرفتاری سے کم ازکم یہ بات تو ثابت ہوئی ہے کہ ڈی ایچ اے میں مسائل ہیں۔ جبکہ ڈی ایچ اے ایک ایسا ادارہ ہے جو براہ راست فوج کا ہے۔
فلسفہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب کی یہ حرکت بالکل پسند نہیں کی گئی ۔ اس لئے نہ تو ڈی ایچ اے اور نہ ہی فوج نیب کی ان پھرتیوں پر خوش ہے۔ لہذا یہ ڈرامہ چند روز میں اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ جب اس بڑی مچھلی اور ڈٖی ایچ اے کے درمیان مفاہمت ہو جائے گی۔ اور معاملہ حل ہو جائے گا۔ مچھلی بڑی آسانی سے باہر آجائے گی۔
لیکن دوسری طرف ڈان نے گزشتہ روز یہ خبر صفحہ اول پر شائع کی ہے کہ نیب کی ان تمام پھرتیوں کو چیف آف آرمی سٹاف جنر ل راحیل شریف کی آشیرباد حا صل ہے۔ میں نے فلسفہ نگار سے جب ڈان کی خبر پر تبصرہ کے لئے کہا کہ آپ تو فلسفہ دے رہے ہیں کہ یہ سب کچھ فوج کی کرپشن کے خلاف مہم کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ خبریں آرہی ہیں کہ یہ سب فوج کے سپہ سالار کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ تو وہ فلسفہ نگار مسکرایا اور اس نے مجھے کہا کہ تم بہت بھولے ہو۔ اسی لئے تم نے ترقی نہیں کی۔ تمہیں اس خبر سے ہی ساری سازش کو سمجھ لینا چاہئے تھا۔ یہ خبر بھی سیاسی حکومت کی طرف سے لگوائی گئی ہے تا کہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ یہ کوئی سازش نہیں ہے۔ حالانکہ یہ سازش ہے۔
دوسری طرف فوج کے ایک سنیئر افسر کے سامنے جب سارا فلسفہ رکھا گیاتو وہ مسکرایا اور کہنے لگا کہ جس نے بھی یہ فلسفہ گھڑا ہے وہ شاید جنرل راحیل شریف کو نہیں جا نتا۔ وہ شاید یہ نہیں جا نتا کہ حال ہی میں جنرل راحیل شریف نے ایک جنرل کو کرپشن پر تمام رینکس سے محروم کر کے گھر بھیج دیا ہے۔ جس کی اس سے پہلے فوج میں مثال نہیں ملتی۔ اس لئے جنرل راحیل شریف کی ڈکشنری میں کرپشن کی کوئی معافی نہیں۔ اس حوالہ سے ان کے مخالف بھی ان کی گواہی دیتے ہیں۔
اگر فلسفہ نگار کا فلسفہ مسترد کر دیا جائے تو بڑی مچھلی آئندہ چند روز میں رہا نہیں ہو گی۔ ا و ر اگر قبول کر لیا جائے تو وہ رہا ہو جائے گا۔ اس لئے چند روز انتظار کرنا ہوگا۔اسی طر ح اگر فلسفہ مسترد کر دیا جائے تو نیب مزید بڑی مچھلیوں کو گرفتار کرے گا۔ رئیل سٹیٹ کے تمام ڈان مشکل میں ہو نگے۔ اگر فلسفہ قبول کر لیا جائے تو یہاں پر بریک لگ جائے گی۔ اور مزید کوئی گرفتاری نہیں ہو گی۔
اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی آجکل بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بہت شور ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی نئی اے پی سی کا اعلامیہ سامنے آگیا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال دونوں صوبوں میں ہونے والی اے پی سی میں کسی کو بھی قائل نہیں کر سکے۔ ایک دوست نے اس حوالہ سے ایک خوبصورت مشورہ دیا ہے۔ دوست کا مشورہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پاک چین اقتصادی راہداری پر تحفظات دور کرنے کے لئے جو سات رکنی کمیٹی ان سے مذاکرات کے لئے بنائی گئی ہے۔ اسی کو راہداری کی تعمیر کا انچارج مقرر کر دینا چاہے۔ میں نے پوچھا اس سے کیا ہو گا اس نے کہا کہ اگر چند کر وڑ روپے اس کمیٹی کو دے دیے جائیں گے کہ وہ مغربی روٹ کی تعمیر کرے تو یہ کمیٹی فوری سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی کہ تحفظات دور ہو گئے ہیں ۔ اور اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ مغربی روٹ تعمیر نہ ہو تو اس کمیٹی کو فنڈز دینے سے یہ بالکل تعمیر نہیں ہو گا۔ کیونکہ ایک موقف یہ بھی ہے کہ چونکہ چھوٹے صوبوں کی قیادت کو اس منصوبے سے کوئی مال پانی نہیں مل رہا۔ اس لئے وہ شور مچا رہے ہیں۔ لہذا انہیں فوری طور پر مال پانی دینے کی ضرورت ہے۔اور اگر چند کروڑ روپے دینے سے شور تھم سکتا ہے تو ایسا کر لینے میں کوئی برائی نہیں۔ بعد میں نیب یہ رقم برآمد بھی کر سکتی ہے۔
بہر حال وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پاک چین اقتصادی راہداری کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔ احسن اقبال کے بس سے اب یہ معاملہ باہر ہو تا جا رہا ہے۔ چین نے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چین کا بر ملا تشویش کا اظہار کرنا نہایت تشویشناک ہے۔ اب میاں نواز شریف نے صرف چھوٹے صوبوں کو ہی نہیں بلکہ چین کو بھی مطمئن کرنا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کو معاملہ احسن اقبال سے اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے۔