مقبوضہ جموں وکشمیر کی عورتیں عزم و ہمت کی داستانیں
’’ 22فروری 1991ء جمعہ کی شب بھارتی فوج کی رجمنٹ را جپوتا نہ رائفلز کے ایک یو نٹ نے وادی کے علاقہ کپوارہ میں ایک پہاڑی گاؤں کو گھیر لیا ۔آٹھ سو سے زا ئد فو جیوں نے کُنان پشپورا کے مردوں کو اکٹھا کیا ۔دھاوے کے دوران ان کا یہ روزمرہ کا طریقہ کا ر تھا۔گاؤں کے لو گوں کو حکم دیا گیا کہ وہ شنا خت کے لیے جمع ہو ں۔جب تک وہ محاصرے میں رہے،فوجیوں نے اسلحہ اور دیگر آتش گیر مادے شک میں گھرو ں کی تلا شی لینا شروع کردی۔اس موقع پر فوجیوں نے بلا تمیز ہر گھر کو اُلٹ پلٹ کر دیا اور بلا تفریق بد اخلا قی کے مرتکب ہو ئے۔کُنا ن پشپورا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔اس گاؤں کی عورتیں جن کی عمریں 15سے 85برس کی تھیں ،بھارتی فوج کے سپاہیوں کی زیادتی کا نشانہ بنیں۔دراندازی اور بد اخلاقی کی خبریں ایک دم واد ی میں پھیل گئیں۔فوج نے اگرچہ گاؤں کے گرد حصار قائم کردیا تھا تاہم خبریں اس سے قبل ہی غیر ملکی پریس کی غذا بن چکی تھیں ۔‘‘
( جسٹن ہارڈی کی کتاب اِن دی وَیلی آف مِسٹ سے )
مقبوضہ جموں و کشمیر میں کُنان پشپورا صرف ایک گاؤں نہیں ہے جس میں بھارتی فوج نے بربریت کا مظا ہرہ کیا تھا بلکہ پوری وادی ایک مدت سے ان غاصبوں کی درندگی کا شکا ر بنی ہو ئی ہے۔عورت چونکہ کمزور اور مظلوم صنف ہے اس لیے مقبوضہ وادی کی عورتیں شدید جسمانی و روحانی کرب سے دوچا ر ہیں۔واد ی میں مائیں ہیں جن کے بیٹے شہید ہوئے یا لا پتہ ہیں۔بیا ھتا عورتیں ہیں جن کے شوہر زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ۔بہنیں ہیں کہ جن کی آنکھیں اپنے جوان بھا ئیوں کی واپسی تکتے تکتے پتھرا ہ گئی ہیں اور بیٹیاں ہیں جن کے والد گھروں سے اُٹھا ئے گئے اور واپس نہیں آئے۔
مقبوضہ کشمیر کی عورتیں اپنی خوبصورتی اور کشش کے با عث بھی ایک مدت سے عذاب پر عذا ب جھیل رہی ہیں۔
پچاس ساٹھ برس قبل وادی کی عورتوں کے لیے صرف دینی تعلیم کا حصول ہی موزوں گرداناجا تا تھا۔عام تعلیم کا حصول ان کے لیے شجر ممنوع تھا۔رفتہ رفتہ کشمیری عورتوں میں بیداری کی لہر پیدا ہو نا شروع ہوئی اور انہوں نے ہمت سے کام لیتے ہو ئے تعلیم کے میدان اپنی قابلیت اور اہلیت کا لو ہا منوایا۔کشمیر کی تحریک آزادی میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے اپنا حصہ ڈالا ۔اگرچہ ان کی قربانیاں نمایاں نہیں ہیں تاہم ان کی قربانیوں کا گراف کسی بھی صورت مردوں سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ 26برس سے بھارتی غاصبوں کے ہا تھوں کشمیری خواتین کے مصا ئب میں اضا فہ ہو ا ہے۔ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی گئی ہے۔1500سے زائد خواتین جو آدھی بیوہ کہلا تی ہیں اپنے لاپتہ شوہروں کی واپسی کے انتظار میں بیٹھی ہیں ۔
تاہم کشمیری خواتین گمشدگی،اغواء،تشدداور بے حرمتی کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش ہیں۔سڑکوں پر سب سے پہلے خواتین ہی نمودار ہو تی ہیں اور احتجاج کرنے والوں کی ہمت بندھاتی ہیں۔اپنے مردوں کی گمشدگی کے نتیجہ میں عدالتوں کا رُخ کرتی ہیں۔انصا ف کے حصول کے لیے واویلا کرتی ہیں اور تکا لیف کے احساس کو سلگتا رکھتی ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی عورتوں نے جدو جہدِ آزادی کے شہدا کی بہ حیثیت ماں،بیوی،بہن اور بیٹی ناقابل بیان جرات کا مظا ہر ہ کیا ہے۔ناانصا فی کے خلاف ان کی لڑا ئی حیران کن ہے۔یقین نہیں آتا کہ یہ وہی عورتیں ہیں جو کبھی چار دیواری سے با ہر کی دنیا سے قطعی نا آشناتھیں اور جن کی آواز ان کی دہلیز سے باہر سنائی نہ دیتی تھی۔ریا ستی جبر کے خلاف کشمیری عورتوں نے جرات و بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں۔ہم پر لازم ہے کہ ان عورتوں کا ساتھ دیں،ان کی آواز میں آواز شامل کریں،انھیں قوت دیں اور انصاف دلا نے میں ان کے کندھے سے کندھا ملائیں۔
ایک کشمیری ماں کا کہنا ہے ’’ میں سری نگر کے لال چوک سے کبھی آگے نہیں گئی تھی لیکن بیٹے کی گمشدگی نے مجھے ذہنی اور سیاسی حدود سے ماورا کردیا ۔‘‘
مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہری خواتین سے زیادہ دیہاتی خواتین کی زندگی اجیرن ہے۔اس کے باوجود دیہا ت کی عورتیں باہمت اور حوصلہ مند ہیں۔انھیں زندگی کی قدر کا اندازہ ہے۔اپنے دین سے شدید وابستگی کی بناء پر انہوں نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔بربریت کی آگ سے ان کا جسم جھلسا ضرور ہے مگر ان کی روح ہر آنچ سے محفوظ رہی ہے۔کھوئے ہووں کی جستجو میں اسی ہمت سے سرگرداں ہیں جس ہمت سے انہوں نے اپنی ذات پر ظلم برداشت کیے ہیں۔
کشمیر اگر ہماری شہ رگ ہے تو کشمیری عورتیں اس شہ رگ میں دوڑتے پھرنے والے لہو کے سرخ ذرات ہیں۔یاد رہے کہ خون کی صحت اور چہرے کی رونق کا دارومدار انہی سرخ ذرات پر ہوتا ہے۔
پاکستانی خواتین کا فرض ہے کہ اپنی ان بہنوں کے بارے میں ضرور باخبر رہیں جو مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں اور ان کے پھیرن ا ن کے باپ،بیٹوں ،بھائیوں اور شوہروں کے خون کے دھبے لیے ہوئے ہیں۔
انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ آبادی میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور بدبخت غاصب اپنے انجام کو پہنچے گا۔
مقبوضہ کشمیر کی عورتیں اب صرف شکاروں میں بیٹھی دھان صاف نہیں کرتیں بلکہ صحافی ہیں،تاجر ہیں،ڈاکٹر اور انجینئر ہیں،معلم اور قانون دان ہیں۔اپنے حقوق سے آشنا اور اپنے فرائض سے آگاہ ہیں۔اب ظلم اور جبر خاموشی سے نہیں سہتیں بلکہ احتجاج کا نعرہ بلند کرتی ہیں اور اپنی وادی کی آزادی کے لیے پیش پیش ہیں۔