سکول فیڈنگ پروگرام کا آغاز
زلیخا اویس
عالمی ادارہ خوراک اور یونیسیف کے اشتراک سے غذائی قلت کا شکار بچوں کے لئے’’سکول فیڈنگ‘‘ پروگرام شروع کیا گیا ہے، یہ پروگرام اُن بچوں کے لئے ہے جوغذائی کمی کا شکار ہیں اور سکول جانے کے باوجود کچھ عرصے کے بعد تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 46 فیصد سے زائد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ 6 سے 10 سال کی عمر وں کے 70 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔
اگر پاکستان میں غذائی قلت کا مختصر جائزہ لیا جائے تو صورتِ حال بڑی مایوس کن ہے۔
پاکستان میں غربت، ناکافی صحت کی سہولتیں، بیماریوں اور نامناسب دودھ پلانے کی وجہ سے46فیصد بچے دائمی غذائی قلت کا شکار ہیں اور یہاں بچوں کی اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ یونیسف کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کا شکار 5 سال سے کم عمر 46 فیصد بچے کبھی مکمل انسان نہیں بن پائیں گے۔ یہ بچے بڑے ہو کر اپنی اگلی نسل جیسی قامت اختیار نہیں کر پائیں گے یعنی صرف 15 سال بعد پاکستان کی آدھی آبادی کے قد اپنی نسل کے باقی افراد کی نسبت چھوٹے ہوں گے جبکہ ورلڈبینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور تقریباً 21فیصد غذائی ضروریات کے حصول میں قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی بینک کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 15سال سے زائد عمر کے 50 فیصد افراد بے روزگار ہیں۔ بڑھتی ہوئی افراطِ زر مزید غربت کو جنم دے رہی ہے۔ 82 فیصد غیرسائنسی علاج کروانے پر مجبور ہیں‘ 60 فی صد بچے سکول نہیں جا سکتے‘ ہر سال 5 لاکھ خواتین زچگی کے دوران طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی ہی زندگی کھو دیتی ہیں۔
حکومت کو ٹیکس نظام، معاشی استحکام ، دہشت گردی کی روک تھام اور امن وامان جیسے چیلنجز کے ساتھ ساتھ غربت جیسے اہم مسئلے کا بھی سامنا ہے جس کا ملکی معیشت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت نے شدید اور ہلاکت خیز بھوک کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ برس ورلڈ بینک نے پاکستان میں بچوں میں خوراک کی شدید کمی سے خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں بچوں اور خواتین میں اہم وٹامن کی کمی کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے پاکستان میں غذائی کمی کو عوامی صحت کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
خوراک اور غذا کی کمی بچوں اور خواتین کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور انہیں مختلف انفیکشن لاحق ہونے کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔ ان بیماریوں سے متاثرہ افراد غریب اور مفلوک الحال انسان ہوتے ہیں۔ ان کی آواز آگے تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ اوجھل ہی رہتے ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ برسوں کے دوران آفات، سیلاب اور دیگر حادثات سے لاتعداد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ پھر دہشت گردی نے صورتحال مزید خراب کردی اور اس کا نتیجہ شدید غذائی عدم تحفظ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
پاکستان میں 2011 میں کئے گئے نیشنل نیوٹریشن سروے نے ملک میں غربت کی صورتحال پر خطرے کی گھنٹیاں بجائی تھیں۔ اس بھرپور سروے میں ملک کے چاروں صوبوں میں 30,000 گھروں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں صرف پنجاب کی صورتحال تھوڑی بہتر تھی جبکہ بلوچستان ، سندھ اور صوبہ خیبر پختونخواہ شدید غذائی قلت کے حامل صوبوں میں شامل تھے۔مجموعی طور پر ملک کی 60 فیصد خواتین اور بچوں کو ناکافی خوراک کا سامنا ہے۔
پاکستانی خواتین ایک گروپ کے طور پر شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ امید سے ہونے کی حالت میں اور دودھ پلاتے دوران انہیں خاص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی خوراک میں فولاد، پروٹین، آئیوڈین، وٹامن اے، اور دیگراشیا ضروری ہوتی ہیں۔ خصوصاً مدتِ حمل میں خوراک میں اہم اجزا کی کمی سے پیدا ہونے والے بچے میں نقائص ہوسکتے ہیں اس کی جسمانی اور ذہنی نشونما پر فرق پڑ سکتا ہے۔
نومولود اوربچوں میں خوراک اور غذائیت کی اہمیت کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں صحت کے بہت سے مسائل کا براہِ راست تعلق والدہ اور نومولود بچے کی خوراک سے ہوتا ہے۔
غذا کی کمی ہر ایک کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شدت میں مبتلا بچے الگ سے نظر آتے ہیں۔ وہ سست، کم سرگرم، افسردہ، کمزور ہوتے ہیں۔ ان کی نشوونما پر فرق پڑتا ہے اور پٹھے اور عضلات بھی کمزور ہوتے ہیں۔اگر خوراک کی کمی مسلسل رہے تو مسوڑھے سوج جاتے ہیں اور دانت گرنے لگتے ہیں۔ اعضا متاثر ہوتے ہیں اور دل کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ خصوصاً ابتدائی عمر میں خوراک کی کمی سے دماغی بڑھوتری نہیں ہوپاتی اور بچے کا آئی کیو بھی کم ہوسکتا ہے۔ پھر اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بلوغت تک کا عرصہ متاثر رہتا ہے۔
پاکستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے جرمن سربراہ وولف گانگ ہربینگر کا کہنا ہے کہ غذاء اور تعلیم کی کمی پاکستان کی آبادی کے بڑے حصے کا مسئلہ ہے لیکن موجودہ حالات میں چھوٹے بچے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کے ادارے اور یونیسیف نے سکول فیڈنگ پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت 500 16 سکولوں کے ساڑھے سولہ لاکھ بچوں کو ضروری غذا مہیا کی جائے گی ۔جبکہ مئی کے مہینے تک ساڑھے 13 ہزار سکولوں کے 13 لاکھ بچوں کو خوراک اور نشو ونماء کے لیے ضروری غذا فراہم کی جاچکی ہے ۔ اگر بچوں کو بہتر خوراک مہیا کی جائے گی تواس سے پرائمری کی سطح پر بچوں کے اندراج اور حاضری کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے سکول سے باہر رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔’’بہت سی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں تعلیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ 70 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں یہ بہت بڑی تعداد ہے، پرائمری سے پہلے اور اس دوران بچے سکول نہیں جاپاتے‘‘۔
ورلڈ فوڈ پروگرام سے ہی منسلک پاکستانی اہلکار رضوان باجوہ کا کہنا ہے کہ ملک میں چند سال قبل بچوں میں غذائی کمی کے حوالے سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 46 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار تھے تاہم ان کے بقول گزشتہ سال آنے والے سیلاب اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے متاثر ہونے والے علاقوں میں یہ تعداد زیادہ ہو چکی ہے۔ سکول فیڈنگ پروگرام کا ہدف اسی لیے متاثرہ علاقوں کو بنایا گیا ہے۔ یہ پروگرام دیہی علاقوں کے لیے محدود ہے خصوصاً ان علاقوں میں، جہاں گزشتہ برس سیلاب آیا تھا اور جہاں پچھلے کچھ سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نتیجہ واضح نظر آ رہا ہے۔ جیسا کہ مالا کنڈ، فاٹا اور افغانستان سے منسلک بلوچستان کے مختلف سرحدی علاقے۔پاکستان میں گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے نتیجے میں 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی بھی تھی۔ امدادی اداروں کے مطابق بچوں کے زیادہ تر مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔
اسی حوالے سے گزشتہ روزسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندوں کا ایک نجی ہوٹل میں اہم مشاورتی اجلاس بھی ہوا۔صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خاں نے اجلاس کی صدارت کی۔اس موقع پرورلڈ فوڈ پروگرام کے انٹر نیشنل ٹیکنیکل مشن ، سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور مختلف این جی اوز کے نمائندے بھی موجود تھے۔اجلاس میں سکول فیڈنگ پروگرام کے اجراء کے مختلف پہلوؤں پر غور کیاگیا۔صوبائی وزیر رانا مشہود نے اجلاس کو بتایا کہ حکومت تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی صحت کی مکمل حفاظت کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ہم اپنے بچوں کو غربت کی بنا پر بیماریوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔اس پروگرام کی بدولت متوازن غذا سے محروم طالبعلم مختلف بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ ورلڈ فوڈ پروگرا م سرکاری سکولوں کیلئے مختلف غذائی ماڈلزمتعارف کروانے کے حوالے سے حکومت پنجاب کو ضروری راہنمائی فراہم کرے گا۔اس طرح غذائیت سے بھرپورخوراک کی فراہمی سے طالبعلموں میں حصول علم میں دلچسپی بڑھے گی اور پسماندہ علاقوں میں سکول انرولمنٹ میں بھی اضافہ ہو گا۔
پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ چھوٹے ہی سہی لیکن اقدامات اْٹھائے جائیں تاکہ رفتہ رفتہ غذائیت کی کمی پر قابو پایا جاسکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت مجموعی قومی آمدنی ( جی ڈی پی) کا کم ازکم چھ فیصد حصہ صحت کیلئے مختص کرے۔ کیونکہ غربت کے مارے لوگوں میں خوراک کی کمی، صحت کی ناکافی سہولیات اور نامناست خاندانی منصوبہ بندی سے پاکستان اقوامِ متحدہ کے تحت وضع کردہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز ( ایم ڈی جی) کو حاصل نہیں کرپائے گا۔
***