’’زینب کہ جس کے غم کی کہانی طویل ہے‘‘

’’زینب کہ جس کے غم کی کہانی طویل ہے‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پنجاب کے دو قدیم شہر شیخوپورہ اور قصور جرائم کے اعتبار سے مخصوص شہرت کے حامل ہیں۔ شیخوپورہ کو تو شاید پاکستان بھر میں جرائم کی دنیا میں صفِ اول کا شہر قرار دیا جاتا ہے۔ قصور قتل و غارت گری سمیت سنگین نوعیت کے دیگر کرائمز کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقہ بھی ہے۔ جس کی سرحدیں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر بھارت سے ملتی ہیں۔ اس کے گرد و نواح میں سماجی نوعیت کے جرائم سمیت انسانی جانوں سے کھیلنے کے واقعات معمول ہیں۔ بارڈر بیلٹ کرائم (بی بی سی) کی نفسیات تو یکسر مختلف ہوتی ہے جو ضلع قصور کے بیشتر دیہات میں عام دیکھی جاسکتی ہے۔ کرائم سائیکی (مجرمانہ نفسیات) کے حامل افراد کی ان علاقوں میں کثرت ہے۔ اشیاء اور منشیات کی سمگلنگ سے انسانی سمگلنگ تک کے جرائم تو قیام پاکستان سے قبل بھی یہاں ہوتے رہے ہیں اور شاید اب بھی جاری ہوں گے لیکن انسانی جانوں سے کھیلنے کا عمل بھی یہاں کے باسیوں کے لئے نیا نہیں۔ اجرتی قاتل بھی ضلع قصور کے بعض دیہات میں شہرت پا چکے ہیں جبکہ پنجاب سمیت ملک کے طول و عرض سے اشتہاری مجرمان بھی ان علاقوں میں آ کر پناہ لیتے رہے ہیں۔ چند سالوں سے تو ضلع قصور کو اس اعتبار سے بھی عالمگیر شہرت حاصل ہو گئی ہے کہ یہاں بچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کا جرم بھی سرزد ہونے لگا ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ ضلع چونکہ خاصا زرخیز ہے اس لئے یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ شاید سنگین نوعیت کے واقعات میں ملوث خطرناک گروہوں کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہو ۔جس کے بل بوتے پر وہ اپنی مجرمانہ زندگی با آسانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
10 جنوری 2018ء کا دن اس ضلع کی تاریخ میں یوم سیاہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس روز سات سالہ زینب کی لاش کوڑے کے ایک ڈھیر سے ملی جس کے بعد احتجاج اور مظاہروں کا ایک لا متناعی سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں انصاف کے حصول کے لئے سراپا احتجاج 2 شہری بھی پولیس فائرنگ کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گئے۔ یہ سانحہ کس قدر ہولناک اور روح فرسا تھا جسے دیکھ کر برداشت کرنا تو کسی طور بھی آسان نہیں تھا کیونکہ اس کی تفصیلات سن کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا ہولناک اور شرمناک پہلو ہے جسے مہذب معاشر ے کی توہین کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ابتدائی طور پر اس کی جو تفصیلات ملیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ سات سالہ بچی زینب کو پانچ روز قبل اس وقت اغواء کیا گیا جب وہ قرآن پڑھنے جا رہی تھی ۔ اغواء کے 5ویں روز ننھی منی زینب کی لاش گندگی کے ڈھیر میں چھپی ہوئی ملی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور واقعہ کے خلاف قصوربھر میں مختلف مقامات پر احتجا جی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھا کر پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ اس دور ان مشتعل مظا ہر ین نے کئی مقامات پر ٹائروں کو آگ لگا کر ٹریفک معطل کر دی ۔بدھ کی دوپہر تک مظاہرین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور مشتعل مظاہرین ڈپٹی کمشنر آفس کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے اور ڈنڈوں اور پتھرما رکر احاطے میں کھڑی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کی گاڑی سمیت سرکاری اور نجی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔جبکہ مظاہرین کی جانب سے عمارت پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی گئی۔ مظاہرین منتشر ہونے کے بعد دوبارہ جتھوں کی صورت میں ڈپٹی کمشنر آفس پر دھاوا بولتے اور پتھراؤ کرتے رہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے سیدھی فائرنگ کی جس سے دومظاہرین موقع پر ہی جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا‘ اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فائرنگ ڈی سی آفس میں تعینات 2گن مینوں نے کی جن کا موقف تھا کہ اگر ہم فائرنگ نہ کرتے تو مشتعل مظاہرین ڈی سی آفس کے اندر گھس کر کوئی کارروائی کر سکتے تھے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زینب کی لاش ملنے کے بعد جو ہجوم وہاں اکٹھا ہوا تھا ان میں سے کوئی بھی شخص مسلح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔کوریج کرنے والے کیمروں کی آنکھ نے جو لمحات کیپچر کئے ان میں احتجاج میں شامل کسی شخص کے ہاتھ میں ڈنڈا بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں احتجاج مظاہرے ختم کرنے یا ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے کم سے کم جانی یا مالی نقصان کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ جو 4 عمومی طریقے رائج ہیں ان میں سب سے پہلے قانون نافذ کرنے والے ادارے پانی کا استعمال کر کے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ تدبیر کارگر نہ ہو تو آنسو گیس کا استعمال کیا جاتا ہے ، ناکامی کی صورت میں تیسرا طریقہ ربڑ کی گولیاں برسانے کا ہے ، اگر اس کے ذریعے بھی کامیابی حاصل نہ ہو اور اس امر کا یقین ہو جائے کہ بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا افراد کی جانیں جا سکتی ہیں تو ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا جاتا ہے ۔آخری آبشن کے طور پر حفاظت خود اختیاری کے تحت سرکاری اہلکار کو فائرنگ کی اجازت ہے ۔ تاہم اس کے لئے متاثرہ مقام پر موجود جوڈیشل افسر کی باقاعدہ اجازت بھی ضروری ہے ۔ زینب کی اندوہناک ہلاکت پر انصاف کے لئے آواز اٹھانے والے شہریوں پر سیدھی فائرنگ کرنے والوں یا وہاں پر موجود اعلیٰ انتظامی افسروں میں سے کسی ایک نے بھی متذکرہ بالا قانونی طریقوں میں سے کسی ایک کا بھی سہارا نہ لیا اور ہجوم پر بلا جواز فائرنگ کر کے ایک بہت بڑا سانحہ کھڑا کر دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا گیا جس سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ اولاً تو زخمی حالت میں کسی پولیس اہلکار کی کوئی تصویر دیکھنے کو نہیں ملی اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اسے شہریوں کی جان لینے کا باعث قرار دیا نہیں جا سکتا ۔معصوم زینب کے اغواء اور لاش ملنے تک اس کے غمزدہ والدین سعودی عرب میں عمرہ کی سعادت کے لئے موجود تھے ۔انہیں اپنی لخت جگر کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کی اطلاع ملی تو فوراً پاکستان پہنچ گئے ۔ ان کی آمد سے قبل ان جیسے ہزاروں والدین زینب کے جسد خاکی کے گرد جمع تھے جبکہ قریب ہی پولیس فائرنگ کی زد میں آ کر جاں بحق ہونے والے دو شہریوں کی لاشیں بھی پڑی تھیں ۔
اس سانحہ کی جس قدر اور جن الفاظ میں بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ معصوم بچوں پر ظلم کرنا کسی بھی قوم میں روا نہیں ۔قصور میں تو قبل ازیں بھی کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔کمسن بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کئے جانے کے واقعات کافی عرصے سے جاری ہیں اور اب تک 12 معصوم بچیاں ہوس کا نشانہ بنائے جانے کے بعد قتل کی جا چکی ہیں۔کوئی ملزم گرفتار ہوانہ سزا ملی 2015ء کااسکینڈل بھی پولیس کارکردگی پر سیاہ دھبہ ہے،بزرگ صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہ کی دھرتی قصور جہاں کسی دور میں علم و نور کے چشمے پھوٹتے تھے گزشتہ کچھ عرصے سے اس شہر کا نام بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات کے باعث ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے ۔ 2015 ء میں سامنے آنے والا قصور اسکینڈل بھی پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جس میں ملزمان لڑکوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنا کر اہلخانہ کو بلیک میل کرتے رہے۔ اس سیکس اسکینڈل کی گرد ابھی پوری طرح بیٹھی نہ تھی کہ شہر میں وقفے وقفے سے بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کئے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس دوران سفاک گروہ کا نشانہ بننے والے متاثرہ والدین کے آنسو اور ننھے پھولوں کی قبروں کی مٹی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ معصوم سی زینب اس گروہ کا نشانہ بن گئی ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ تمام واقعات کم و بیش ایک ہی طرز کے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ہی گروہ کی کارستانی ہو ۔کسی ایک واقعہ میں بھی ہتھیار کا سہارا نہیں لیا گیا ۔ خنجر ، چھری ،چاقو، پستول یا بندوق استعمال کرنے کی بجائے ننھے پھولوں کو مسلنے کے لئے گلا دبانے کا ہتھیار استعمال کیا گیا ۔ مغوی بچے یا بچیوں کے ساتھ بد اخلاقی کی تصدیق بھی ہوئی ۔حیران کن امر یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر منظم ادارے بھی اس امر کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اس سفاکی کے ذمہ دار کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟ ایک بازگشت یہ بھی سنائی دے رہی ہے کہ معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے ذمہ دار نفسیاتی مریض معلوم ہوتے ہیں ۔یہ مفروضہ درست نہیں لگتا کیونکہ نفسیاتی مریض بار بار ایک ہی فعل دہرا رہا ہے اور بڑی چابک دستی سے روپوش بھی ہو جاتا ہے ایک طرف تو اس کی ہوشیاری اس کے چاق و چوبند ہونے کی نشان دہی کرتی ہے تو دوسری طرف جان بچانے کے لئے ملزم یا گروہ پولیس کے ہتھے چڑھنے سے بھی بچا رہتا ہے۔ نفسیاتی مریض کے لئے اس طرح کا شاطر ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ایک واردات کے بعد دوسری اور مسلسل 12 واقعات تک ایک کا بھی سراغ نہ ملنا ہمارے ذمہ دار اداروں کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ قصور میں نوعمر بچوں کے ساتھ درندگی، معاشرتی انحطاط اور بگاڑ کی بدترین مثال ہے، لیکن اس سے بچاؤ کا کوئی طریقہ نہ ہونا اس سے بھی بدتر ہے۔ ہر سطح پر سانحہ قصور کی پرزور مذمت کی جا رہی ہے۔ سول سوسائٹی کا اس معاملے پر ردعمل خوش آئند اور مثبت ہے، اوپر تلے ہونے والے ایک ہی جیسے واقعات پر احتجاج اور مظاہرے فطرتی عمل ہے۔ ان مظاہروں میں صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ضروری ہے لیکن جب قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کے لئے کوئی راستہ ہی نہ چھوڑیں تو شہری صبر و تحمل کا دامن کیسے تھامیں رکھیں گے؟ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے اس سانحہ کی جس انداز میں مذمت کی اور ذمہ داروں کی گرفتاری کے لئے جو احکامات صادر فرمائے وہ یقیناًقابل ستائش ہیں اور امید کی جانی چاہئے کہ ان احکامات پر اصل روح کے مطابق عملدرآمد بھی کیا جائے گا۔ اسی طرح چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے کر ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس سے متاثرہ خاندان سمیت ہزاروں دردمند شہریوں کے زخموں پر مرہم رکھا گیا ہے۔ ویسے بھی زینب کے والدین نے وفاقی دارالحکومت میں لینڈ کرنے کے فوری بعد انصاف کی اپیل چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے کی تھی اور اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ ہمیں ان سے ہی انصاف کی امید ہے۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے سانحہ قصور کا سوو موٹو لیتے ہوئے کہا کہ زینب قوم کی بیٹی تھی ، واقعے سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیاہے، اس واقعے پر مجھ سے زیادہ میری اہلیہ گھر میں پریشان تھیں۔ وفاقی کا بینہ نے بھی قصور میں کم سن بچی کے ساتھ کی گئی بر بریت کے واقعہ کی شدید مذمت کی اور ہدایت کی ہے کہ اس بہیمانہ اقدام کے ذمہ دار کے خلاف سخت کاروائی کی جا ئے۔یہ مذمت وزیر اعظم شاہد خا قان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کی گئی ، دوسری جانب سانحہ قصورچند ہی لمحوں میں عالمگیر شہرت حاصل کر گیا ۔پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بدھ کی صبح سے جمعرات کی رات گئے تک ہر پروگرام میں اس واقعے کی جس بھرپور انداز میں مذمت کی اس کے پوشیدہ پہلو جس طرح وا کئے وہ پاکستان کی ابلاغی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں سمیت غیر ملکیوں نے بھی اس معاشرتی المیہ کے خلاف آواز اٹھائی ۔سماجی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ہم آواز اٹھانے کے لئے کسی سانحہ کے انتظار میں ہوتے ہیں ،زینب کو اغوا کرنے والا کون تھا جس نے اسے ہوس کا نشانہ بنایا یہ پنجاب پولیس کے لئے ایک چیلنج ہے، بچوں کو کبھی کسی دوسرے کی ذمہ داری پر نہ چھوڑیں کسی اور سے حفاظت کی امید نہیں کی جاسکتی،بچوں کو غیر سے نہیں واقف کار سے زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس سانحہ کا تعلق صرف قصور کی سات سالہ بچی زینب سے نہیں ہے بلکہ آپ اور آپ کے بچوں سے ہے، آج ملک بھر میں شور مچا ہوا ہے، ہر دل اداس ہے ماں باپ تڑپ اٹھے ہیں، ہر وہ شخص جس میں انسانیت ہے غمزدہ ہے، ایک گھناؤنا اوراذیت ناک واقعہ جس نے دل دہلا کر رکھ دیا، ظلم ہوا، بہت ظلم ہوا، بے حد ظلم ہوا اورا س ظلم کے خلاف سب بول پڑے ہیں لیکن بولنے والے دل تھام کر سنیں اس ظلم کے قصوروار نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سب ہیں، مانے نہ مانیں ظلم کے اس قصہ میں کچھ قصور ہمارا بھی ہے، سات سال کی بچی زینب پنجاب کے شہر قصور کی رہائشی چار جنوری کوا س وقت اغوا ہوگئی جب وہ دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لئے گئی ہوئی تھی،زینب گھر سے نکلی اور پھر واپس نہیں آئی، چار دن بعد زینب کی لاش گھر سے دو کلومیٹر دور کچرے کے ڈھیر سے ملی، کچرے کے ڈھیر میں بچی کا بے جان جسم جس طرح پڑا ہوا تھا وہ منظر بڑا کربناک تھا، جو مضبوط اعصاب کے مالک شخص کو بھی کچھ دیر کیلئے جھنجھوڑ کر رکھ دے، رونگٹھے کھڑے ہوجائیں، دل کی دھڑکنیں بے ربط ہوجائیں، ایک بچی کا صرف قتل نہیں ہوا تھا اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، پہلے اس کی معصومیت کا قتل کیا گیا، اس کا بچپن چھینا گیا، ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد اسے قتل کر کے لاش گھر کے قریب پھینک دی گئی۔
سانحہ قصور معاشرتی اعتبار سے اخلاقی گراوٹ کا بدترین قصہ ہے ۔ جو صرف ایک زینب کے گھر والوں کے لئے نہیں بلکہ تمام اہل پاکستان کے لئے ہے لمحہ فکریہ بھی ہے ۔ بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے اسے اپنا امتحان سمجھنا ہو گا ۔سانحہ کے فوری بعد بعض ذمہ داران کی طرف سے نہایت غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے گئے جو کسی طور بھی مناسب نہیں ۔اعلیٰ مناصب پر فائز افراد کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار پولیس والوں کو قانون کی گرفت میں لایا گیا ہوتا تو شاید سانحہ قصور رونما نہ ہوتا ۔ اسے ہماری بدقسمتی کہئے یا نا اہلی سے تعبیر کیجیے کہ ہماری پولیس فورس میں شامل بیشتر اہلکار اسلحہ کے استعمال اور حالات کی نزاکت جانچنے کی ابجد سے بھی واقف نہیں ۔ بعض تو ایسے ہیں جنہیں اسلحہ تھامنے کا ڈھنگ ہی نہیں ہے چلانا تو بہت دور کی بات وہ ایسے سنبھالنے بھی نہیں جانتے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کانسٹیبل سے ایس پی تک ہر ایک کو مظاہرین کو منتشر کرنے ، ان سے مذاکرات کرنے، حالات کا جائزہ لینے ، ضابطہ فوجداری اور حفاظت خود اختیاری کے استعمال سے واقفیت دلائی جائے ۔اسی طرح فائرنگ کرنے کے مختلف مراحل میں بھی مہارت دی جانا ضروری ہے ۔ محض انٹی رائٹس فورس کے قیام یا چند اہلکاروں کے ذریعے نشانہ بازی کے مظاہرے کافی نہیں ۔ اس سے پہلے کہ کوئی نیا سانحہ قصور رونما ہو یا کوئی اور زینب درندگی کا نشانہ بنے ہمیں سال رواں کے اوائل یعنی 9جنوری 2018ء کو ہونے والے واقعے سے سبق سیکھنا چاہئے ۔ *

مزید :

ایڈیشن 1 -