وقت استعمال کرنا سیکھئے!
آپ وقت کا بھرپور استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟
’’کاش میرے پاس اتنا وقت ہوتا!‘‘ آپ نے زندگی میں یہ بات کتنی بار کہی ہے؟ دیکھا جائے تو وقت ایک ایسی چیز ہے جو ہر شخص کے پاس ایک جتنی ہے، چاہے یہ شخص امیر ہو یا پھر غریب۔ نہ تو کوئی امیر اور نہ ہی کوئی غریب وقت کو اپنی مٹھی میں قید کر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر واپس نہیں آتا۔ لہٰذا سمجھ داری کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کا اچھا استعمال کریں۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ جی ہاں آئیں! ایسے طریقوں پر غور کرتے ہیں جن کی مدد سے بہت سے لوگوں نے وقت کا بھرپور استعمال کرنا سیکھا ہے۔
منظم ہوں
دیکھیں کہ کونسے کام زیادہ اہم ہیں۔ ان کاموں کی فہرست بنا لیں جو آپ کے خیال میں اہم ہیں یا جنہیں فوراً کیا جانا چاہئے، لیکن ایسا کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کچھ کام اہم تو ہوتے ہیں لیکن انہیں فوری طور پر کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر رات کے کھانے کے لئے اشیاء خریدنا ایک اہم کام ہے لیکن شاید ضروری نہیں کہ اسے فوری طور پر کیا جائے۔
دُور کی سوچیں
’’اگر کلہاڑا کُند ہو اور آدمی اس کی دھار تیز نہ کرے تو بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ اس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ایک شخص پہلے سے اپنے کلہاڑے کو تیز کر لیتا ہے تو وہ زیادہ مؤثر طریقے سے لکڑیاں کاٹ سکتا ہے۔
اسی طرح اگر ہم پہلے سے منصوبہ بناتے ہیں کہ ہم کس وقت کیا کام کریں گے تو ہم اپنے وقت کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے کاموں کو بعد میں کریں یا بہتر ہے کہ نہ ہی کریں جو شاید اتنے اہم تو نہیں ہیں لیکن آپ کا بہت سا وقت اور توانائی لے لیتے ہیں۔ اس لئے اپنی زندگی کو لایعنی کاموں سے بچائیں اور سادہ زندگی بسر کریں۔
اپنا وقت ضائع نہ ہونے دیں
’’جو ہوا کا رُخ دیکھتا رہتا ہے وہ بوتا نہیں اور جو بادلوں کو دیکھتا ہے وہ کاٹتا نہیں۔ اس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ہم ایک کام کو ٹالتے رہیں گے تو اس سے نہ صرف ہمارا وقت ضائع ہوگا بلکہ وہ کام بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچے گا۔ غور کریں کہ اگر ایک کسان موسم کے اچھا ہونے کا انتظار کرتا رہے گا تو وہ نہ تو بیج بو سکے گا اور نہ ہی فصل کاٹ سکے گا۔ اسی طرح اگر ہم یہ سوچتے رہیں گے کہ نہ جانے کل کیا ہوگا تو ہمارے لئے فیصلے کرنا مشکل ہو جائے گا۔
شاید ہم سوچیں گے کہ ہمیں اس وقت تک ایک معاملے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے جب تک ہمارے پاس چھوٹی سے چھوٹی معلومات نہ ہو۔ بلاشبہ اہم فیصلے کرنے سے پہلے ہمیں تحقیق کرنی چاہئے اور معاملے پر غور و خوض کرنا چاہئے، لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں زندگی میں بہت سے ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ان سے کیا نتیجہ نکلے گا۔
خود سے زیادہ توقعات نہ رکھیں
بلاشبہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک کام کو اچھی طرح سے کریں اور یہ بہت اچھی عادت ہے، لیکن کبھی کبھار شاید ہم خود سے حد سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور اس وجہ سے ہمیں مایوسی حتیٰ کہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔
جب ایک شخص کوئی دوسری زبان سیکھتا ہے تو اسے اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ وہ کچھ غلطیاں کرے گا۔ اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ انہی غلطیوں سے سیکھے گا، لیکن جو شخص خود سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ہر کام بغیر نقص کے کرے، وہ اس ڈر سے کوئی جملہ نہیں کہے گا کہ کہیں وہ غلطی نہ کر دے۔ ایسی سوچ کی وجہ سے وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
کام اور تفریح میں توازن
’’اگر کوئی مٹھی بھر روزی کما کر سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ دونوں مٹھیاں سرتوڑ محنت اور ہوا کو پکڑنے کی کوششوں کے بعد ہی بھریں۔‘‘
جو لوگ کام کو سر پر سوار رکھتے ہیں، وہ اپنی دونوں مٹھیوں کو بھرنے کے لئے ’’سرتوڑ محنت‘‘ کرتے ہیں لیکن وہ اکثر اپنے کام سے حاصل ہونے والی خوشی سے پوری طرح لطف نہیں اٹھا پاتے۔
سخت محنت کرنے کے بعد نہ تو ان کے پاس وقت بچتا ہے اور نہ ہی طاقت۔ اس کے برعکس ایک سست شخص محنت کی بجائے آرام کو ترجیح دیتا ہے اور یوں قیمتی وقت ضائع کر دیتا ہے۔ ہمیں کام اور تفریح میں توازن رکھنا چاہئے۔ ہمیں محنت کرنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لطف اندوز ہونا چاہئے۔
نیند پوری کریں
بڑوں کو عموماً آٹھ گھنٹے کی نیند لینی چاہئے تاکہ وہ جسمانی اور جذباتی طور پر صحتمند رہیں اور باتوں کو اچھی طرح سے سیکھنے، سمجھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہوں۔ اگر ہم اپنا وقت اچھی نیند سونے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری یادداشت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم کسی کام پر پوری توجہ دینے اور نئی باتیں سیکھنے کے قابل ہوتے ہیں، لیکن نیند کی کمی کی وجہ سے ایک شخص نئی باتوں کو اچھی طرح سے نہیں سیکھ پاتا۔ نیند کی کمی اکثر حادثات ٗ غلطیوں اور چڑچڑے پن کا باعث بھی بنتی ہے۔
خواہشات کے غلام نہ بنیں
ایسی خواہشیں کریں جنہیں پورا کرنا ممکن ہے۔ ’’دور دراز چیزوں کے آزرومند رہنے کی نسبت بہتر یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے لطف اٹھائے جو آنکھوں کے سامنے ہی ہیں۔‘‘ اس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ایک سمجھدار شخص اپنی خواہشوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا، خاص طور پر ایسی خواہشوں کو جن کا پورا ہونا مشکل یا ناممکن ہے۔ اس لئے ناممکن کی خواہش سے اجتناب کرنا ہی عقلمندی ہے۔