اج آکھاں ’’بلھے شاہ ‘‘نوں
آج صبح میری آنکھ کھلی میں ٹی وی دیکھنے کا شوقین نہیں لیکن ناجانے کیا ہوا میں نے ٹی وی آن کیا ہی تھا کہ اچانک ایک خبر آنکھوں کے سامنے آگئی خبر دیکھتے مجھے ایسا لگا جیسے سینے پر ایک نہیں سینکڑوں چھریوں کے وار کسی نے کر ڈالے ہوں۔ پھر ایک لمحے کو میں نے اپنے گھر پر نظر دوڑائی میرے سامنے میری بیٹی میری بہن اور کئی ایسے رشتے آگئے کہ جو ہو بہو زینب جیسے دکھائی دیئے ایسا محسوس ہوا جیسے جسم میں جان ہی نہیں ہے اور کئی درندہ صفت انسان میرے سامنے میرے گریبان کو پھاڑ رہے ہیں اور میں کچھ نہیں کر پا رہا، لیکن کروں بھی تو کیا جب تقریباً 2 لاکھ آبادی والے قصور کے باسی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، جب قانون کے رکھوالے کچھ نہیں بگاڑ سکے تو میں کیا کرسکتا ہوں ہم میں کون سا ہے جو ضمیر کے خاطر اپنا سب کچھ لٹا دے۔ ہم صرف اور صرف ٹاک شوز کر سکتے ہیں گھر بیٹھ کر دوسروں کے سامنے اپنے بلا وجہ کے رد عمل کو جھاڑ سکتے ہیں۔
اب تک میں نے صرف یزید کی کہانیاں سنی تھیں۔ آج جب میں نے 7 سالہ زینب کو کوڑے کے ڈھیر پر مردہ حالت میں دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ کتابوں میں لکھے تاریخی کریکٹرز کا نہیں بلکہ سچائی اور بدکاری جھوٹ اور سچ نیکی اور بدی کا نام ہے۔
کیا سیف سٹی کا پروگرام صرف لاہور کی عوام کو محفوظ کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے جو عوام قصبوں یا فیکٹری ایریاز میں رہتے ہیں ان کی سیفٹی کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟ گزشتہ چند سالوں میں حوّ ا کی گیارہ کی بیٹیوں کو زیادتی کا شکار بنا کر منوں مٹی تلے دفنا دیا گیا، ان درندوں کے پاس ایمان نہیں لیکن کیا ہمارے قانون کے رکھوالے جن پر کروڑوں روپے خرچ کردیئے گئے وہ صرف اپنی وردی کا رعب جھاڑنے کے لئے باہر نکلتے ہیں، ان کے پیٹ پتہ نہیں کب بھریں گے۔
کب ان کو اس بات کا احساس ہوگا کہ ان کے گھر میں بھی زینب ہے کبھی زینب کی چادر کھینچ لی جاتی ہے کبھی 7 سالہ زینب کو زیادتی کا شکار بنا کر قتل کردیا جاتا ہے اور یہ قانون کے رکھوالے صرف یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ رشتے داروں میں ڈھونڈو نہ ملے تو پھر بتاؤ، چاہے اس وقت تک آسمان پھٹ جائے، کسی وزیر کا کُتا گم ہوجائے تو پورا محکمہ اسے ڈھونڈنے میں ایسے لگ جاتا ہے جیسے آئینِ پاکستان میں لکھا ہو کہ اسے کسی بھی طرح ڈھونڈنا ہے لیکن کسی غریب کی چاہے عزت چلی جائے یا اس کے گریبان کے ہزاروں ٹکڑے ہوجائیں ملتی ہے تو صرف تسلی، جھوٹی یقین دہانیاں اور آخر میں امداد کا اعلان کرکے منہ بند کردیا جاتا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لو، اگر آج ہوش نہ آیا تو زینب سب کے گھر میں موجود ہے اور یہ درندے بھی جگہ جگہ موجود ہیں۔
کسی نے کیا خوب شعر لکھا ہے:
جب بھی کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
قائم رہو حسینؑ کے انکار کی طرح
ہمیں آج ضرورت ہے حسینی سوچ کی تاکہ ہمارے گھر میں رہنے والی زینب محفوظ رہے اس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔
میری وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ اپنے اقتدار کو کچھ دیر کے لئے بھول کر ان درندوں کے خلاف آپریشنز کروائے جائیں کیونکہ دہشت گردی صرف ایک طرح کے حملے کا نام نہیں ہے یہ جو ہو رہا ہے یہ بھی کسی دہشت گردی سے کم نہیں بلکہ میں کہوں گا کہ ان حملوں سے بڑا حملہ ہے کیونکہ بم دھماکوں کی ہمیں عادت پڑ چکی ہے لیکن اس قسم کے حملوں سے نہ صرف ہمارا دل بلکہ ہمارے جسم کے اندر ایسے گھاؤ پڑتے ہیں جو مرنے تک بھی نہیں جاتے۔
ہمارے دلوں کو اور چھلنی ہونے سے بچا لیجئے خدارا ہم پہلے ہی معیشت کا حال دیکھ دیکھ کر دماغی و جسمانی طور پر مفلوج ہوتے جارہے ہیں ہمیں اور مفلوج نہ بنایا جائے، ہمارے جسم کا خون آنکھوں کے رستے بہتا ہی چلا جارہا ہے، آنکھوں سے آنسو تو سوکھ ہی گئے ہیں اب جو خون رس رہا ہے یہ بھی خشک نہ ہوجائے۔
حکمرانوں سے اپیل ہے کہ ہم باہر نہیں نکل پا رہے محلے میں گھومتی کئی ننھی ننھی زینب ہم سے آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ سوال کئے جارہی ہیں کہ بابا کیا ہم آپ کے ہوتے ہوئے محفوظ نہیں ہیں، بھائی تم تو میری عزت کے محافظ ہو کیا اب تم بھی ان درندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، چاچا تم میرے باپ کا درجہ رکھتے ہو کیا تم ان درندوں کو پکڑو گیڈ کوئی ہے جو اقتدار کی جنگ تھوڑی دیر روک دے اور جو زینب گھروں میں سے اب اس لئے نہیں نکل پارہیں کہ کہیں اب ان کا بھی یہی حال نہ ہو ان کو یہ احساس دلائیں کہ تمہارے محافظ آج بھی زندہ ہیں وہ تمہاری رکھوالی کریں گے ان درندوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں گے۔