پنجاب پولیس کا مسئلہ کیا ہے؟
قصور میں زینب بے حرمتی کیس پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کوکنٹرول کرنے کے لئے پنجاب پولیس کے شیر جوانوں نے ایک مرتبہ پھر سیدھی گولیاں چلا کر دو افراد کی جان لے لی اور چار کو زخمی کردیا۔ حسبِ روایت عوامی دباؤ کی وجہ سے اس واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا گیا، لیکن کسی کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے جلدہی کھوہ کھاتے میں ڈال دیا جائے گا۔
اس سے پہلے یہی پنجاب پولیس ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی سیدھی گولیاں چلانے کی یہی تاریخ رقم کرچکی ہے، بلکہ وہاں تو چند فٹ کے فاصلے سے خواتین کے چہرے پر گولیاں ماری گئیں۔۔۔
میں پنجاب حکومت کے ترجمان کا یہ بیان سن رہا تھا کہ مظاہرین میں سے کچھ کے پاس اسلحہ تھا، اس لئے پولیس نے سیلف ڈیفنس میں گولیاں چلائیں، لیکن میڈیا کی فوٹیج سے کوئی ایک شہادت بھی سامنے نہیں آئی کہ مظاہرین پولیس پر فائرنگ کررہے تھے۔۔۔ نجانے یہ کیا روایت بن گئی ہے کہ اپنی پولیس کا ہر قیمت پر دفاع کرنا ہے چاہے وہ برسرِ عام قانون کی دھجیاں ہی کیوں نہ اُڑاتی رہے۔
پنجاب پولیس کی وردی بدلنے والے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پولیس کے اندر پروفیشنل ازم پیدا کرنے کی کوشش کی ہوتی تو آج پنجاب پولیس پینڈو پولیس نہ ہوتی، جو صرف اندھا دھند گولیاں چلانا جانتی ہے یا جس کا کام بندے پکڑ کر تھانوں میں تشدد کرنا ہے۔
سندھ پولیس جسے ہمیشہ پنجاب پولیس کے مقابلے میں گیا گزرا کہا جاتا ہے، اس حوالے سے بہت بہتر نظر آتی ہے۔ کراچی میں مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے اُس نے لاٹھی چارج کیا ہے یا پھر واٹر کینن استعمال کی ہے، ایسا کبھی نہیں کیا کہ لوگوں پر سیدھے فائر کھول دیئے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے احتجاجوں کے باوجود وہاں مظاہرین کے پولیس کی گولیوں سے مرنے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پنجاب میں پولیس پر بے انداز فنڈز خرچ کرنے کے باوجود اُسے ایک ترقی یافتہ پولیس کے معیار پر نہیں لایا جاسکا۔
مجھے یاد ہے کہ جب ایوب خان کا دور تھا، ہم سکول کے طالب علم تھے تو طلبہ نے ایوبی آمریت کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی، ملتان کے چوک کچہری پر ایسا ہی احتجاج ہورہا تھا کہ پولیس نے سیدھا فائر کھول دیا،گولی ایک طالب علم جودت کامران کو لگی اور وہ وہیں جاں بحق ہوگیا۔
یہ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا پہلا شہید تھا اور یہ کریڈٹ بھی پنجاب پولیس کے حصے میں آیا کہ اُس نے ایک طالب علم کی جان لے لی۔ اس کے بعد تحریک تھمی نہیں اور ایوب خان کو جانا پڑا۔
اب اندازہ لگائیں کہ نصف صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پنجاب پولیس کو بندے مار پولیس سے آگے نہیں لے جایا جاسکا، حالانکہ زمانہ بدل گیا، اقدار بدل گئیں، جدید ذرائع آگئے، نفری بڑھ گئی، وسائل اور تھانوں میں اضافہ ہوگیا، پولیس میں کئی نئی اقسام پیدا ہوگئیں۔۔۔ کہیں ایلیٹ فورس، کہیں ڈولفن فورس، کہیں مجاہد فورس وغیرہ وغیرہ، مگر پولیس اپنا امیج بہتر نہیں کرسکی۔
آج بھی لوگ پولیس پر اعتبار نہیں کرتے۔ کسی نے کیا اچھی بات کی ہے کہ اسلحہ فوجی کے پاس بھی ہوتا ہے اور پولیس کانسٹیبل کے پاس بھی،مگر فوجی یہ اسلحہ عوام کے دفاع میں استعمال کرتا ہے اور پولیس عوام کو مارنے کے لئے بروئے کار لاتی ہے۔
ایک طرف پنجاب پولیس کا یہ پہلو ہے تو دوسری طرف اس کے اندر وہ جذبہ مفقود نظر آتا ہے جو جرائم کی وقت سے پہلے بیخ کنی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی تھانے میں چلے جائیں۔ آپ کو محرر سے لے کر ایس ایچ او تک آپ سے بے گانہ نظر آئے گا۔
آپ بڑی تگ و دو کے بعد جب ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے اور اپنے ساتھ کسی زیادتی کی واردات کا تذکرہ کریں گے تو ان کے رویے میں آپ کو کوئی ایسی سرگرمی دکھائی نہیں دے گی، جس سے آپ کی تشفی ہو سکے کہ آپ صحیح جگہ پر آ گئے ہیں۔
جہاں کی پولیس آج بھی موقع ملاحظہ کے لئے سائل ہی سے سواری یا پٹرول مانگتی ہو، وہاں اچھی پولیسنگ کیسے نظر آئے؟۔۔۔ سنگین سے سنگین واردات بھی پولیس کی سردمہری کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر میڈیا نہ ہو تو پولیس والے شاید ملنے کی زحمت بھی گوارا نہ کریں۔
یہ تو بریکنگ نیوز کا کمال ہے کہ ایس ایچ او، ڈی ایس پی موقع واردات پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں سنتے تھے کہ ایس ایچ او اچھا ہو تو اس کے تھانے کی حدود میں کوئی چڑیا بھی اس کے علم میں لائے بغیر پر نہیں مار سکتی۔ اس زمانے میں ایس ایچ او نے اپنے علاقے میں مخبروں کا ایک جال بچھا رکھا ہوتا تھا۔
اسے ہر گھر کا علم ہوتا تھا اور کسی بھی محلے میں آنے والے نئے فرد کی خبر ہو جاتی تھی۔ اب تو گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے، ایک قاتل بچی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔اس کے ساتھ زیادتی کرکے اسے گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے، پھر لاش کو لے کر اسی علاقے میں آتا ہے اور اسے کوڑے پر پھینک کر بآسانی غائب ہو جاتا ہے۔۔۔قاتل درندے میں یہ دیدہ دلیری کیسے آئی؟
۔۔۔ وہ لاش کو کسی دوسرے علاقے میں بھی پھینک سکتا تھا۔ خوف ہوتا تو وہ دوبارہ اس علاقے کا رخ ہی نہ کرتا، جہاں سے زینب کو ورغلایا تھا، مگر وہ تو جانتا تھا کہ شہر سارے کا سارا سویا ہوا ہے، کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اب زینب کے والدین اور دیگر رشتہ داروں کی اس دہائی کا پولیس کے پاس کیا جواب ہے کہ انہوں نے اس کی اطلاع ڈی پی او کو دی، جنہوں نے سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی؟
وزیر اعلیٰ پنجاب نے حسب عادت اس ڈی پی او کو او ایس ڈی بنا دیا ہے۔ چند روز گزرنے کے بعد یہ پھر کسی ضلع کا ڈی پی او تعینات ہو جائے گا۔ کیا ایسے نااہل اور بے حس افسروں کو نوکری سے برخاست کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں، کیا یہ ضروری ہے کہ ایک بار بھرتی ہوگئے تو اب مر کے ہی جان چھوریں گے؟
زینب کے والدین نے چیف آف آرمی سٹاف سے انصاف دینے کی جو اپیل کی ہے، وہ بھی بہت اہم ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو لوگ جھولیاں اٹھا کر شہبازشریف سے یہ اپیل کرتے تھے کہ وہ انہیں انصاف دلائیں، مگر لگتا ہے کہ پنجاب پولیس نے خادم اعلیٰ پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔
یہ پنجاب پولیس کی تفتیش اور ملزموں کو گرفتار کرنے کی اہلیت پر بھی عوام کے عدم اعتماد کی ایک شکل ہے۔ پولیس کو فوج کا اشتراک ملا ہے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ درندہ جلد گرفتار ہو جائے گا، کیونکہ فوج انٹیلی جنس کی بنیاد پر کام کرتی ہے، جو شاید پنجاب پولیس کے پاس مفقود ہے۔
اسی قصور میں بارہ سے زائد بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کیا جا چکا ہے۔ ایک ہی شہر میں اتنی زیادہ وارداتیں اس امر کی غماز ہیں کہ پولیس نااہلی اور عدم فعالیت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ویسے تو پنجاب پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ سیاسی دباؤ میں رہتی ہے۔
اسی قصور میں بچوں سے زیادتی کا ایک بہت بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا۔ پولیس کی نااہلی اور ناقص پراسیکیوشن کی وجہ سے ملزم رہا ہوگئے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ زینب کیس کے موقع پر قصور کے دس ارکان صوبائی اسمبلی اور پانچ ارکان قومی اسمبلی میں سے کوئی ایک بھی عوام کے درمیان موجود نہیں تھا۔
یہ بذاتِ خود اس بات کا اشارہ ہے کہ پولیس اور ارکانِ اسمبلی کی ملی بھگت سے قصور کو جنگل بنادیا گیا ہے، صاف لگ رہا ہے کہ یہاں ڈی پی او ارکان اسمبلی کی مرضی سے تعینات ہوتا ہے اور پھر وہ عوام کو جوابدہ ہونے کے بجائے، اُن کے اشاروں پر چلتا ہے۔
یہ ہوہی نہیں سکتا کہ قصور میں جرائم کی شرح اتنی بڑھ گئی ہو اور ارکان اسمبلی چین سے بیٹھے رہیں۔ وہ چین سے صرف اُسی صورت میں بیٹھ سکتے ہیں، جب خود اس کھیل میں ملوث ہوں۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے، کیونکہ وہ پنجاب میں ڈی سی او اور ڈی پی او کا تعین کرنے کے لئے خود انٹرویو لیتے ہیں، اگر وہ اہلیت کی بنیاد پر یہ تقرریاں کریں تو افسران ارکانِ اسمبلی کے ہاتھوں میں کھلونا نہ بنیں۔قصور کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ہر قابل ذکر ادارے کے سربراہ نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا ہے۔
یہ از خود نوٹس بھی اب خانہ پُری کے زمرے میں آتے جارہے ہیں، کتنے ہی از خود نوٹس لئے گئے، جو وقت کی گرد میں بیٹھ گئے۔ راولپنڈی کی بچی طیبہ پر تشدد کیس کا بھی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا، مگر سنا ہے نچلی عدالت نے ملزموں کو بری کردیا ہے۔ ایسے رویوں سے بگڑتا ہوا نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
اداروں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کی اصلاح کی جائے۔ اُسے سیاسی دباؤ اور سیاسی مقاصد سے نجات دلاکر آزادانہ کام کرنے کی راہ پر ڈالا جائے۔
ہر ایس ایچ او پر واضح کردیا جائے کہ زینب کیس جیسے سنگین واقعہ پر نہ صرف اُسے نوکری سے برخاست کردیا جائے گا، بلکہ مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بھی درج ہوگا۔ اسی طرح ضلع کے ڈی پی او کو اپنے علاقے میں امن و امان اور انصاف کی فراہمی کا ٹاسک دیا جائے، پورا نہ اُترنے کی صورت میں اُس کا تبادلہ ہی کافی نہیں، بلکہ اُس کے خلاف پیڈاایکٹ کے تحت کارروائی بھی کی جائے۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لئے گولی مارنے کا انتہائی قدم اُٹھانے کی بجائے، دیگر ذرائع استعمال کئے جائیں، تاکہ ہم ایسے سانحات سے بچ سکیں، جیسے ماڈل ٹاؤن اور قصور میں رونما ہوچکے ہیں